چراغ آخر شب: ایک تبصرہ


”عذاب شدہ قوموں پر بارش میں مینڈک ٹپکے تھے، ہم پر حکمرانوں کا عذاب ٹپکتا ہے۔ یہ ہم پر نازل کیے جاتے ہیں کہ ملک کو تباہی کی طرف دھکیل دیں، ایک پہیہ ہے جو مسلسل پیچھے کی طرف چل رہا ہے۔

پاکستان کی کل عمر میں سے نصف سے زائد، جب صبح آنکھ کھلتی ہے تو ایک شخص کرسی پر بیٹھا ملتا ہے۔
کیا ہے جی؟
کہ آج سے میں آپ کا حکمران ہوں۔
اور ہم سب یہ پوچھنے کی بجائے کہ بھئی تم کون؟
کس نے تمہیں حکمران بنایا؟
ہم جلدی جلدی اس کے ہونے کو دلیلوں سے ثابت کرنے لگ جاتے ہیں۔

حدیثیں کھنگالتے ہیں، قائد اعظم کا فرمان ڈھونڈتے ہیں یا اقبال کا کوئی شعر، آخر میں عدالتوں کا فیصلہ آ جاتا ہے اور ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ آ گیا اور اس کا آنا ملک کے لیے مبارک فعل ہے۔ ”

یہ اقتباس ہے رفعت ناہید سجاد کے حال ہی میں شائع ہونے والے ناول۔ ”چراغ آخر شب“ سے۔

پاکستان میں لکھے گئے اردو کے اچھے ناولز کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے، زیر نظر ناول بلا شبہ اردو ادب میں ایک گرانقدر اضافہ ہے۔

کسی بھی اچھی کتاب یا ناول کی سب سے بڑی خوبی اس کی readability ہوتی ہے، اگر کتاب دلچسپ نہ ہو اور خود کو پڑھوائے نہیں تو بات نہیں بنتی۔

یہ بات بھی غور طلب ہے کہ دنیا کے تمام بڑے ناول آپ بار بار پڑھتے ہیں لیکن دل نہیں بھرتا بلکہ ہر دفعہ پڑھنے پر کچھ نئی جہتیں سامنے آتی ہیں۔

ناول میں دلچسپی کا دارو مدار دو باتوں پر ہوتا ہے اول قصہ یا کہانی، دوم انداز بیان اور زبان۔
بنیادی طور پر ہر بڑا ناول نگار ایک اعلی درجے کا قصہ گو بھی ہوتا ہے۔

چراغ آخر شب، پاکستانی تاریخ کی 65 سالوں کے تناظر میں لکھا گیا ہے جس میں جس میں دو جنگوں، سقوط ڈھاکہ، چار آمرانہ ادوار کے درمیان جاری بحالیٔ جمہوریت کی جدوجہد کا احاطہ کیا گیا ہے۔

رفعت ناہید سجاد اس سے پہلے افسانوی ادب کے علاوہ ٹی وی کے لیے ڈرامے بھی لکھتی رہی ہیں۔ ایک ڈرامہ نگار کی طرح انہوں نے ناول کی ابتدا ایک گھر 80 ایف ماڈل ٹاؤن لاہور سے کی ہے اور اس کا نقشہ اس خوبی سے کھینچا ہے قاری خود کو اس گھر میں موجود پاتا ہے گویا سٹیج تیار ہے۔

اس گھر کے کئی حصے آگے چل کر بہت اہم ہو جاتے ہیں، نیم دائرے کی شکل کا تین سیڑھیوں والا برآمدہ جس کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر ناول کے کردار اپنی زندگی کے بہت سے اہم فیصلے کرتے ہیں۔

گھر کے عین درمیان میں واقع لق و دق گیلری جس کے دونوں جانب پرانے وقتوں کی بلیک اینڈ وائٹ تصویریں آویزاں ہیں۔

ہر تصویر کسی نہ کسی کہانی سے جڑی ہے اور تاریخ کے ادوار کہانیوں سمیت ان تصاویر میں ساکت ہو گئے ہیں، جنہیں مصنفہ بوقت ضرورت ایک ایک کر کے Decode کرتی ہیں۔

پرانی تصاویر سے آراستہ یہ گیلری ناول میں بہت معنویت کی حامل ہے۔
اس گھر میں پروفیسر رشید عباس اور ان کا گھرانا رہتا ہے۔

یہ سہانپور سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والا ایک مڈل کلاس گھرانا ہے جس کے تمام تر افراد نہایت تعلیم یافتہ، روشن خیال اور صاف گو ہیں۔

پاکستان کی محبت سے سرشار یہ گھرانا دنیاداری سے ماورا ہے۔
اس گھرانے کے افراد کے توسط سے کہانی آگے بڑھتی ہے اور اس میں کرداروں کا ایک ہجوم شامل ہو جاتا ہے۔

ملکی سیاست کے علاوہ اعلی تعلیمی اداروں میں پائی جانے والی پر تشدد سیاست، غیر ملکی امداد کے بل بوتے پر این جی اوز چلانے والی بیگمات کا دوغلا پن، روٹی کے چند نوالوں کے عوض بیچ دی جانے والی غریب دیہاتی بچیاں، لفافہ بردار صحافی، انتظامیہ کے اعلی افسران، بحالئی جمہوریت کے لیے سرگرداں نوجوان، ان سب کو مصنفہ نے بہت خوبصورتی سے کہانی میں سمویا ہے۔

کہانی میں کئی پرتیں ہیں جو آہستہ آہستہ کھلتی ہیں۔

رفعت ناہید سجاد کی تحریر کی سب سے بڑی خوبی اردو زبان اور اس کے بامحاورہ استعمال پر ان کی قدرت ہے، وہ بے حد خوبصورت اردو لکھتی ہیں، یہ ناول ان کے زبان و بیان پر دسترس کے حوالے سے بھی یاد رکھی جائے گی۔

اردو کی بہت سی معروف کتابیں محض اس بنا پر پڑھنے میں بے حد دشوار لگتی ہیں کہ ان کے مصنفین کو اردو زبان و محاورے کا صحیح ادراک نہیں ہوتا، جس کے باعث بیان میں ایسی نا ہمواری پیدا ہو جاتی ہے کہ قاری کا ذہن جگہ جگہ لڑھکتا ہے۔ اس ناول میں ہمیں اردو زبان اپنے خالص رنگ میں نظر آتی ہے۔

ایک معروف قول ہے کہ تاریخ میں ناموں اور تواریخ کے علاوہ سب جھوٹ ہوتا ہے، جبکہ ادب میں ناموں اور تواریخ کے علاوہ سب سچ ہوتا ہے۔

تاریخ کو بدل دیا جاتا ہے ہر آنے والی حکومت اپنی مرضی کی تاریخ رقم کرواتی ہے لیکن اس کے برعکس اصل تاریخ ادب میں ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔

تاریخی پس منظر میں ناول لکھنے والے ادیب اکثر اپنی کتابوں کو خشک تاریخی اقتباسات سے بوجھل بنا دیتے ہیں اور تاریخ نگاری اور ناول نگاری کے فرق کو ملحوظ نہیں رکھ پاتے۔

قرۃ العین حیدر اس بات سے بخوبی واقف تھیں کہ قصہ گوئی کو ٹھوس تاریخ کی آلودگی سے کیسے محفوظ رکھا جاتا ہے۔

رفعت ناہید سجاد نے بھی طویل تاریخی اقتباسات کو ناول میں شامل کرنے سے احتراز کیا ہے۔

اس ناول میں بے شمار کردار سامنے آتے ہیں لیکن پروفیسر عباس رشید، کریم بی، سارہ حق، تنویر، نعیم ملک، جمال، عثمان، ثریا، عبیر، شہریار اور پروین اللہ وسایا کے کردار جیتے جاگتے محسوس ہوتے ہیں۔

قیام پاکستان سے پہلے کے باب میں عطن عرف جون آف آرک گویا عبیر کیAlter Egoہے جو اس پر بیتی اسے عبیر کئی دہائیوں بعد خواب میں دیکھتی ہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مصنفہ نے کوئی کردار یا واقعہ فرضی نہیں لکھا، جو کچھ بھی لکھا اس کا بغور مشاہدہ کیا ہے صرف زیب داستاں کے لیے کہیں کہیں fantacy کا رنگ بھرا ہے۔ اس ناول کا بنیادی موضوع رومانس نہیں ہے رومینس اس ناول میں undercurrents کی طرح غیر محسوس انداز میں ملتا ہے

ایک کردار پروفیسر عباس کی ذہین اور پر اعتماد بیٹی تنویر کا ہے جو اپنے منگیتر جمال اور گھر والوں کی ناپسندیدگی کے باوجود نعیم ملک کی ذہانت، علمیت اور شعلہ بیانی سے اس قدر متاثر ہوتی ہے کہ اس سے شادی کر لیتی ہے جب کہ سب سمجھتے ہیں کہ یہ ایک غلط فیصلہ ہے، آخر کار جب وہ نفسیاتی مریض بن کے psychiatrist کے پاس جاتی ہے تو بہت خوبصورت اعتراف کرتی ہے ”میری زندگی میں کوئی عشق نہیں تھا، عشق کا یہ تجربہ مجھے بہت اچھا لگا، لیکن بہت مہنگا پڑ گیا“

ملیحہ کہتی تھی کہ ”تم کیا سولہ سال کی اندرون شہر کی پلی لڑکیوں کی طرح ماں باپ سے چھپ کر عشق لڑا رہی ہو“

تب مجھے پہلی دفعہ پتہ چلا کہ جس عمر میں بھی ہو، عشق ہوتا ہی سولہ سال کی لڑکیوں کی طرح ہے، جس طبقے کا بھی ہو اندرون شہر کا ہوتا ہے ”

عورت کیسی کمینی چیز ہے، ساری دنیا سمجھتی ہے کہ وہ قربانیاں دے رہی ہے، حالانکہ ہر قربانی اس کی ذاتی خوشی پر آ کر ختم ہوتی ہے پھر وہ عجیب عجیب ناموں والے اعزاز وصول کرتی ہے ستی ساوتری، پتی ورتا ”

رفعت ناہید سجاد نے انسانی محسوسات اور نفسیات کا بہت باریک بینی سے مشاہدہ کیا ہے۔ مڈل کلاس عثمان ایلیٹ کلاس کی ثریا ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں، لیکن یہ تعلق طبقاتی فرق کی خلیج کو پاٹنے میں ناکام رہتا ہے۔

شہریار، عبیر کا چچا زاد ہے لیکن غربت کے دیہاتی ماحول میں پلنے کی وجہ سے بہت حساس ہے وہ ہر حال میں عبیر کو خوش دیکھنا چاہتا ہے اسی لیے جب اس پر منکشف ہوتا ہے کہ عبیر فاروق کی طرف مائل ہے تو خاموشی سے راستے سے ہٹ جاتا ہے۔

چونکہ ناول کسی حد تک سوانحی بھی ہے، جو کچھ بھی پاکستان ہر گزرا وہ مصنفہ پر بھی گزرا اس لیے تاریخ پاکستان کے کچھ واقعات بیان کرتے ہوئے جذباتی بھی ہو جاتی ہیں۔

ایک بڑا فنکار جذبات کی شدت کا بخوبی ادراک رکھتے ہوئے تخلیق کرتے وقت خود کو جذبات سے Detach کر کے Intellectual indifference سے واقعات پر نظر ڈالتا ہے۔

بقول غالب
بازیچہ ء اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

دنیا کا تماشا دیکھنے کے لیے خود کو تماشے سے علیحدہ کر کے دیکھنا پڑتا ہے۔ اگر آپ تماشے کا حصہ بنے رہیں گے تو تماشا دیکھنے سے محروم رہ جائیں گے۔ محب وطن پاکستانی ہونے کے ناتے مصنفہ کا پاکستان کے بارے میں جذباتی ہونا فطری امر ہے ہر سیاسی تبدیلی اہل وطن کے دل میں امید کے چراغ روشن کر دیتی ہے انہیں لگتا ہے کہ بس ہم چراغ آخر شب ہیں اب صبح کا سورج طلوع ہوا چاہتا ہے، لیکن ہر دفعہ یہ امید نا امیدی میں بدل جاتی ہے، پھر بھی کچھ اہل نظر اس یقین کے ساتھ زندہ ہیں کہ وہ نہیں تو ان کی اگلی نسل صبح کا اجالا ضرور دیکھے گی۔

مصنفہ نے ناول کا اختتام Loose Ends پر کیا ہے جس سے کہانی میں مزید گہرائی اور گیرائی پیدا ہو جاتی ہے، انہوں نے اپنے قاری کی ذہانت پر اعتماد کرتے ہوئے موقع دیا ہے کہ وہ اپنے تخیل سے جو چاہے رنگ آمیزی کر لے۔

چراغ آخر شب (ناول) ۔ مصنفہ : رفعت ناہید سجاد
صفحات: 584۔ قیمت : 1400 روپے
کتاب ملنے کا پتہ: جمہوری پبلیکیشنز، 2 ایوان تجارت روڈ، لاہور 0333۔ 4463121

منزہ عالم
Latest posts by منزہ عالم (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments