عطا محمد لغاری نے اپنے مزارعوں کو کیا خوشخبری دی؟


ایک مرتبہ انٹر نیٹ پر یورپ کے کسی ملک کے ایک خوبصورت گاؤں کی تصویر تھی۔ یہ گاؤں صرف پچاس ہزار ڈالر میں برائے فروخت تھا۔ اتنی ارزانی کی وجہ یہ تھی کہ اس گاؤں پر جنات کا سایہ تھا۔ میں سوچنے لگا کہ ہمارے ہاں کے ”جنات“ کو اپنے ”زیرسایہ“ گاؤں مفت کے مول مل جاتے ہیں۔ انہیں چند ڈالر بھی نہیں خرچنے پڑتے۔ ڈالر تو یورپی جنات کو بھی نہیں خرچ کرنے پڑتے۔ لیکن یہ بیچارے محض سایہ کر کے ہی خوش خوش بیٹھے رہتے ہیں۔

کوئی دنیاوی مفاد نہیں اٹھاتے۔ ادھر پاکستانی جنات اپنے زیر سایہ اراضی سے پورے فوائد حاصل کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں غلام مصطفی کھر کے حوالے سے ایک خبر تھی۔ یہ خبر غلام مصطفی کھر کی ان کے بھتیجے شاہنواز کھر سے زرعی زمین کی تقسیم کے تنازعہ سے متعلق تھی۔ شاہنواز کھر بتا رہے تھے کہ ان کی تحصیل میں جاگیرداروں کا راج ہے۔ کئی دیہاتوں میں بے شمار زرعی رقبوں پر ان جاگیرداروں نے یونہی قبضہ کر رکھا ہے۔ اصل مالکان بیچارے اپنی زمینوں پر قدم بھی نہیں دھر سکتے۔

جاگیردار طبقہ کی تمام سر گرمیاں سیاسی، سماجی حتیٰ کہ مذہبی بھی صرف ان کی جاگیر کے گرد ہی گھومتی ہیں۔ ایسے بے شمار واقعات موجود ہیں کہ ہندوؤں اور سکھوں نے اپنی جاگیر چھوڑ کر ہجرت کر کے ہندوستان جانے کی بجائے اسلام قبول کر کے یہیں رہ جانے کو ترجیح دی۔ شیخ مجیب الرحمان نے اپنی آٹو بائیو گرافی ”ادھوری یادیں“ میں لکھا ہے۔ جب ڈاکٹر مالک سہروردی صاحب کی حمایت میں انتخابی مہم چلانے کے لئے سلہٹ گئے تو سلہٹ کے ممبران اسمبلی نے ان سے سہروردی کے آئندہ پروگرام بارے پوچھا۔

ڈاکٹر مالک کا جواب تھا کہ سب سے پہلے سہروردی صاحب جاگیرداری نظام کے خاتمے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس بات کا بالکل الٹا اثر ہوا۔ کیونکہ تین کے سوا سلہٹ کے تمام ممبران اسمبلی زمیندار طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ پھر وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ دو کے سوا سلہٹ سے تعلق رکھنے والے ممبران نے خواجہ ناظم الدین کو ووٹ دے دیے۔ جس کی وجہ سے شہید حسین سہروردی کو شکست ہو گئی۔ لیکن مشرقی پاکستان مسلم لیگ پر وہاں کے جاگیردار قبضہ نہ کرسکے۔

بنگالی مسلم لیگی قیادت مڈل کلاس طبقے کے پاس رہی۔ یہی وجہ تھی کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد مشرقی پاکستان مسلم لیگ نے جاگیرداری کے خلاف قرار داد پاس کر دی۔ بعض دانشور اس قرارداد کو بنگلہ دیش کی خشت اول قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ اسی روز مشرقی پاکستان سے جاگیرداروں نے علیحدگی کا سوچ لیا تھا۔ گھاگھ سیاستدانوں نے پاکستان کے عوام کو پارلیمانی طرز حکومت، صدارتی نظام، ون یونٹ، نئے صوبے، پنجاب کی تقسیم، صوبائی خود مختاریوں اور قومیتوں کے مسئلے جیسے مسائل میں الجھا رکھا ہے۔

حالانکہ پاکستان کا سب سے اہم مسئلہ صرف ملکیت زمین کا مسئلہ ہے۔ فیض احمد فیضؔ نے 1948 ء میں ہی یوم پاکستان کے موقعہ پر کہہ دیا تھا کہ ابھی گرانی شب میں کمی نہیں آئی اور ابھی نجات دیدہ دل کی گھڑی نہیں آئی اور پھر چلے چلو کہ منزل ابھی نہیں آئی۔ اس نے جاگیرداری ختم کرنے کے کسی اعلان کا انتظار بھی نہیں کیا تھا۔ وہ شاید پہلے سے ہی جانتے تھے کہ مسلم لیگ کی قیادت جاگیرداری ختم نہیں کر سکتی۔ متحدہ ہندوستان کے آخری دنوں میں گورنر پنجاب نے نواب آف کالا باغ کو بتایا کہ ہم ہندوستان چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ اس نے نواب آف کالا باغ کو مسلم لیگ یا کانگریس کسی ایک جماعت میں شمولیت کا مشورہ بھی دیا۔ پھر پوچھا۔ کیا انہیں اس سلسلہ میں کوئی دقت تو نہ ہوگی۔ نواب آف کالا باغ کہنے لگا۔ نہیں کوئی نہیں۔ میں کانگریس اور مسلم لیگ دونوں کو چندہ دیتا رہا ہوں۔ ہندوستان نے 1951 ء میں جاگیرداری ختم کر دی تھی۔

لیکن مسلم لیگ پر جاگیرداروں کے قبضے کے باعث پاکستان میں ایسا نہ ہو سکا۔ پاکستان میں جاگیرداری کی جڑیں اتنی مضبوط ہیں کہ ڈاکٹر جاوید اقبال نے ایک انٹر ویو میں لیاقت علی خاں کے قتل کی وجہ بھی جاگیرداری کو ہی قرار دیا۔ ان کے مطابق وزیر اعظم لیاقت علی خاں پاکستان میں جاگیرداری ختم کرنا چاہتے تھے اس لیے لیاقت علی خاں کو ہی جاگیرداری ختم کرنے سے پہلے ختم کر دیا گیا۔ پاکستان میں زرعی اصلاحات ایوب خاں کے دور سے شروع کی گئیں۔

پھر بھٹو دور میں اس پر خاطر خواہ کام ہوا۔ پھر آتے ہیں نظام مصطفی کے داعی۔ 8 فروری 1977 کو رفیق احمد باجوہ نے پاکستان قومی اتحاد کے منشور کا اعلان کیا۔ 19 نکات پر مشتمل اس منشور میں فحش فلموں تک کا ذکر موجود تھا۔ لیکن جاگیرداری اور نجی ملکیت کی حد کے بارے میں مکمل خاموشی تھی۔ 2013 ء اور 2018 ء کے الیکشن بھی ملکیت کے مسئلے کو ٹچ کیے بغیر لڑے گئے۔ عمران خان بھی محض ٹیکس کلیکشن اور کرپشن کی روک تھام سے تبدیلی لانے کے دعویدار ہیں۔

کالم نگار کو احسن رشید صدر پنجاب تحریک انصاف نے بتایا تھا کہ عمران خان کہتے ہیں کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کسی سے اس کی نجی زمین کیوں چھین لی جائے؟ عمران خان سوسائٹی کو اتھل پتھل کیے بغیر تبدیلی لانے کا عزم رکھتے ہیں۔ اب اسلام کے نام پر جاگیرداری کو مکمل تحفظ دے دیا گیا ہے۔ شیخ رشید بابائے سوشلزم نے اپنی آٹو بائیو گرافی ”جہد مسلسل“ میں ایک دلچسپ واقعہ لکھا۔ سابق صدر پاکستان فاروق لغاری کا چچا عطا محمد لغاری ایک پابند صوم و صلوۃ قسم کا آدمی تھا۔

گاؤں کی مسجد میں جب امام خطبہ دے چکا تو عطاء محمد لغاری نے کچھ کہنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اسے بھلا تقریر کرنے سے کون روک سکتا تھا؟ اس نے لوگوں کو مخاطب ہو کر کہا۔ ”اے لوگو! میں تمہیں خوشخبری سناتا ہوں کہ پیپلز پارٹی نے میری جو زمین چھین لی تھی وہ خدا کے فضل اور آپ کی دعاؤں سے واپس مل گئی ہے“ ۔ نمازیوں میں اس کے وہ مزارع بھی بیٹھے ہوئے تھے جنہیں زرعی اصلاحات کے عمل کے نتیجے میں زمینیں ملی تھیں۔ یہ سن کر ان بیچاروں کا جھکا ہوا سر کچھ اور جھک گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments