چچا بھتیجی کی باتیں: ترقی کسے کہتے ہیں؟


السلام علیکم چچا! ہم واٹس ایپ پر فیملی گروپ کے پیغامات صاف کر رہے تھے لیکن جلدی میں گروپ سے ہی باہر نکل گئے۔ آپ ایڈمن ہیں ہمیں واپس گروپ میں شامل کردیجئے گا اور آپ سے ایک کام ہے وہ یہ کہ ہمیں ایک چھوٹا سا سوال کافی دنوں سے پریشان کر رہا ہے۔ فرصت ملے تو جواب ضرور دیجیے گا۔

چچا جان! اللہ تعالٰی نے ہم سبھی انسانوں کو دماغ دیا ہے۔ یہ جو کرونا پوری دنیا میں پھیلا ہے خیر ہمارا اعتقاد تو یہی ہے کہ یہ من جانب اللہ ہے کیوں کہ اس کے حکم کے بغیر کچھ ممکن نہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ یہ وائرس ایجاد کیا گیا ہے۔ آئندہ دنیا کی جنگیں اسی بائیو ویپن سے ہی ہوا کریں گی۔

کرونا کی ویکسین آ گئی جو لگانی بھی لازمی کردی گئی ہے کیوں کہ ویکسین کارڈ کے بغیر کوئی کام نہیں کیا جا سکتا۔

چچا جان! اللہ نے دماغ تمام غیر مسلموں کو بھی دیا ہے لیکن وہ ہم سے ہر میدان میں آگے کیسے نکل رہے؟ ہم کسی کا نقصان نہیں کرنا چاہتے لیکن یہ غیر مسلم نقصان پہنچانے میں بھی اتنی ترقی کر رہے۔ اللہ نے ہم پر احسان کیا کہ اپنے آخری نبیﷺ کی امت میں شامل کر کے مسلمان گھرانے میں پیدا کیا ہے۔ کیا ہم مسلمانوں نے اللہ کے سب احسانات کو فورگرانٹڈ تو نہیں لے لیا؟ کہیں یہی ہماری ترقیوں میں رکاوٹ کا سبب تو نہیں کہ ہم آگے نہیں بڑھ پا رہے۔ جائز اور صحیح کاموں کی ترقی کے لئے بھی مسلمان رک کیوں گیا ہے؟

غیر مسلموں کی ساری ایجادات کو تو ہم استعمال کر رہے لیکن ہم خود کوئی ایجاد نہیں کر رہے آخر ہمارے ساتھ ایسی کیا مجبوری ہو گئی ہے؟ بس یہ سوال بہت عرصے سے ہمیں پریشان کر رہا تھا تو ہم نے سوچا کہ علم والوں سے ہی یہ پوچھیں تو یقیناً ہم کو جواب میں تسلی اور سمجھنا بھی آسان رہے گا۔ آپ کے جواب کی منتظر ہوں۔

صبا بیٹی! میں عصر کی نماز پڑھنے چلا گیا تھا تو اس لئے جواب دینے میں ذرا سی دیر ہوئی۔ تمھارا سوال تو چھوٹا سا ہے مگر اس سوال کے اتنے سارے پہلو ہیں کہ ایک گفتگو میں ان پہلوں کا احاطہ نہیں ہو سکتا۔ مثلاً ایک تو یہ سوال ہے کہ ترقی کسے کہتے ہیں؟ اور کیسے حاصل ہوتی ہے؟

دوسرا جو پہلو ہے وہ یہ ہے کہ دماغ تو ہر انسان کو ملتا ہے لیکن کیا کوئی انسان اپنے مذہب کی وجہ سے دماغ استعمال کرنے میں آگے ہوتا ہے اور دماغ استعمال کرنے میں پیچھے رہ جاتا ہے؟

اور تیسرا سوال یہ ہے کی صرف مسلمان ہی کیوں پیچھے ہیں؟ اب ان تینوں سوالوں کے الگ الگ جوابات ہیں تو میں کوشش کروں گا۔ ویسے تم خود بتاؤ کہ پہلے کس سوال کا جواب دیا جائے تاکہ تھوڑا تھوڑا کر کے بات آگے جائے اور سمجھ میں بھی آئے۔

ارے واہ چچا! ہمیں بہت سکون ملا۔ اب دیکھیں نہ ہمارے اپنے ایک سوال کے کتنے سارے پہلو ہمیں مل گئے۔ سچی میں بہت مزہ اور دماغ کی کئی گرہ کھلنے والی ہیں اور اپنی مشکل آساں اور حل بھی ہو جائیں گی۔

چچا اسٹیپ بائی اسٹیپ چلتے ہیں تاکہ ہم اس کو اپنے پاس لکھ کر محفوظ بھی کر لیں تاکہ خود بھی اس سے فائدہ اٹھائیں اور اپنی نسل کو بھی سمجھا سکیں۔

پھر پہلے سوال سے ہی شروع کرتے کہ ”ترقی کسے کہتے ہیں؟ اور یہ کیسے حاصل ہوتی ہے؟

تو پھر بھتیجی غور سے سنو۔ انسانی ترقی کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو تو وہی ہے جس کا اشارہ تمھارے سوال میں ہوتا ہے کہ نئی نئی ایجادات ہوں، ذرائع ہوں، وسائل ہوں، اونچی اونچی عمارات ہوں، چوڑی سڑکیں ہوں، سفر میں سہولتیں ہوں، انسان کو اپنے تمام کاموں میں سہولت میسر آئے، ہر چیز آرام دہ ہو، اور کوئی کام کرنے میں کسی قسم کی دشواری حائل نا ہو۔

ترقی کا دوسرا پہلو جو میں مختصراً بیان کر رہا ہوں اور وہ یہ ہے کہ انسان کو کوئی اضطراب، کوئی بے چینی اور کوئی روحانی تکلیف نا ہو، کوئی خوف اور کوئی خطرہ محسوس نا کیا جا رہا ہو۔ تو جب یہ دو چیزیں کسی معاشرے میں موجود ہوں تب وہ معاشرہ ترقی یافتہ معاشرہ کہلایا جاسکتا ہے۔

لیکن اس وقت ہم جو صورت حال دیکھ رہے ہیں کہ پوری دنیا میں وہ یہ کہ مادی ترقی کی چکا چوند تو بہت ہے جیسے نئی نئی ایجادات ہو گئی ہیں اور بہت سی سہولتیں ہمیں میسر آ گئی مثلاً یہی سہولت دیکھ لو کہ میں یہاں دور سے بیٹھ کر واٹس ایپ پر تم سے گفتگو کر رہا ہوں اور یہ تم تک پہنچ رہی ہے۔

لیکن دوسری طرف یہ دیکھا جائے کہ دنیا بھر میں انسان کو سکون کتنا میسر ہے تو ہمیں بڑی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے اگرچہ ہمارا زمانہ جو کہ موجودہ زمانہ پچھلے تمام زمانوں سے مادی ترقی اور سہولتوں میں سب سے آگے بڑھ گیا ہے۔ آج سے پچاس سال پہلے بھی ان تمام تر سہولتوں کا تصور بھی نہیں کیا سکتا تھا جو آج ہمیں میسر ہیں۔ لیکن اس کے باوجود دنیا بھر میں اضطراب، بے چینی، پریشانی، نفسیاتی بیماریاں اور اخلاقی طور پر جو ہے انارکی جس کو کہتے وہ بڑھ رہا ہے۔

یہ جو انتشار جتنا زیادہ ترقی یافتہ معاشرے میں نظر آتا ہے وہاں اتنا ہی زیادہ جنسی طور پر بھوکا، اور خطرناک معاشرہ نظر آتا ہے۔ تو اس لئے جب ہم ترقی کی بات کرتے ہیں تو ترقی میں دو چیزیں ہمیں سامنے رکھنی چاہیے۔ ایک تو یہ کہ انسان کو کسی قسم کی کوئی مجبوری نا ہو۔ کوئی معذوری لاحق نا ہو کہ کوئی کام جو ہے وہ کرنے سے صرف اس لئے رہ جائے کہ اس کے پاس ذرائع اور وسائل میسر نہیں۔

دوسری یہ کہ کسی قسم کا خوف، خطرہ اور کوئی اندیشہ لاحق نا ہو۔ زندگی بے خوف و خطر، امن و اطمینان کے ساتھ گزر رہی ہو تو یہ دو لوازم اگر موجود ہیں تو پھر ہم اسے ترقی کہیں گے۔

اس موضوع پر کوئی سوال ہو تو اگلے سوال پر گفتگو سے قبل اس پر بات ہو سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments