گالیاں دے کے بے مزہ نہ کریں

آمنہ مفتی - مصنفہ و کالم نگار


ہم نے پرانی گالیاں نئے نئے لہجوں اور انوکھے تلفظ میں سنیں۔ بجٹ کی کاپیاں اور ماں بہن اچھلتے دیکھیں۔ دیکھتے رہے، خاموش رہے۔ ہم نے مدرسے میں مدرس اور طالب علم کو بد فعلی کرتے دیکھا۔ مدرس کی زبانی یہ بھی سنا کہ وہ نشے کی علت میں بھی مبتلا رہے ہیں۔ سنتے رہے، خاموش رہے۔

تقدس مدرسے کا بھی ہوتا ہے، اسمبلی کا بھی۔ کسی دوسرے کی ماں بہن کے ساتھ بد فعلی کے ارتکاب کا زبانی اظہار بھی اتنا ہی کریہہ ہے جتنا مدرسے میں طالب علموں کے ساتھ حقیقت میں بد فعلیاں کرنا۔

دونوں ہی اداروں کے بارے میں عوام بہت حساس ہیں، مگر کیا ان لوگوں کو جو ان اداروں میں بیٹھے ہیں ذرا بھی اپنی عزت یا اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے؟

ایوان میں جو جوتے چلے، ان کے بارے میں حکومتی ارکان کا موقف نہایت مضحکہ خیز ہے۔ اپوزیشن سے کسی گذشتہ ہلڑ بازی کا بدلہ ایک ایسے وقت میں اپنے ہی ایوان میں لینے کا فیصلہ کیا گیا جب بجٹ پیش کیا جا رہا تھا۔

یہ بجٹ بھی ایک ایسے وقت میں آرہا تھا جب پچھلے سال سوا سال وبا کی وجہ سے تباہ حال معیشت اور عوام کسی ریلیف کے منتظر تھے۔ اگر حکومت نے وہ ریلیف دیا تھا تو ہلڑ بازی کا کوئی تک نہ تھا اور اگر یہ ایک سخت بجٹ تھا تب یہ ہلڑ بازی عوام کے لیے مزید تکلیف دہ تھی۔

ہر دو صورتوں میں یہ رویہ کسی صورت مناسب نہ تھا۔ بد تہذیبی کے ہفتہ وار واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور بد تمیزی کے درجات بھی بلند سے بلند ہوتے جا رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اگلے برس تک، اخلاقی طور پہ مکمل دیوالیہ ہو جائیں گے۔

ایک ایسا ملک جس کے استاد اور قانون ساز، ان کرداروں اور چہروں کے مالک ہیں وہاں عوام کا اخلاقی معیار کیا رہ گیا ہو گا، سوچ کر خوف آتا ہے۔

بجٹ کیسا تھا؟ بجٹ سے معیشت پہ کیا اثر پڑے گا، عام آدمی کی زندگی بدتر ہو گی یا کسی بہتری کی امید ہے،صنعتی ترقی کے لیے کیا اہداف مقرر کیے گئے، تعلیم اور صحت کے لیے کتنا بجٹ مخصوص کیا گیا؟ یہ سب شاید سنا تو تھا لیکن پھر تیری ماں، تیری بہن، کے شور میں دب گیا۔

یہ سب تیری میری کرنے کے بعد، عوام اور میڈیا سے یہ امید رکھنا کہ وہ اس حکومت کے بارے میں کسی بھی طرح کا مثبت تاثر قائم کریں، ایک دور اذکار خواہش ہے۔

کچھ ایسے ہی جیسی ایک زمانے میں دیسی فلموں کے غنڈے موالی، سڑک چھاپ نام نہاد ہیرو اپنی تمام تر حرکتوں کے باوجود کالج کی حسین ترین، ذہین ترین، امیر ترین لڑکی کو خود پہ عاشق دیکھنا چاہتے تھے۔

اس خواہش پہ سر عام جوتے کھانے کے بعد ہیروئین کو اغوا کر لیا جاتا تھا۔ وہاں تو ہیرو، ہاتھ پاؤں جوڑ کے مکالمہ نگار کے پر اثر جملوں کے زور پہ ہیروئین کے دل میں جگہ بنا ہی لیتا تھا لیکن یہاں یہ سہولت بھی میسر نہیں۔ سیر وسیاحت کے لیے اچانک غائب ہو جانے والے جب پلٹتے ہیں تو یقیناً ان کے دل میں لے جانے والوں کے لیے محبت تو بیدار نہیں ہوتی۔

کئی بار یوں لگتا ہے کہ ارباب حل و عقد کو، عوام نامی اس مخلوق کی بالکل پروا نہیں، جو ان کے ایوان کی کھڑکی سے ناک چپکائے، حیرت سے گنگ، ان کو عجیب و غریب حرکات کرتے دیکھتی رہتی ہے۔ پروا ہو بھی کیونکر؟ ایک نشہ اقتدار کا بھی تو ہوتا ہے۔

اس نشے میں ڈوبے لوگوں کو بھی دھیان نہیں رہتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور ان کی حرکات نشر ہونے پہ ان کے بارے میں عوام کیا سوچیں گے؟ ان سب کو بھی جب تک کرسی سلامت ہے اپنی اپنی ’پاکدامنی‘ کا مکمل یقین ہے۔

دیکھتے ہیں کہ اس ہفتہ وار بد تہذیبی کے سلسلے کی اگلی کڑی میں کیا پیش کیا جاتا ہے۔ اس وقت تک، پچھلی بد تمیزیوں پہ غور کرتے رہیں، کرنے کو اس کے سوا اب رہ بھی کیا گیا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).