جب جنرل پرویز مشرف کو صدر رفیق تارڑ کو کیے سلیوٹ کا جواب نہیں ملا

فاروق عادل - مصنف، کالم نگار


یہ ایک ایسا سلیوٹ تھا جس کا جواب سلیوٹ کرنے والے کو نہیں ملا۔

دن کے تقریباً ساڑھے گیارہ بجے کا وقت ہو گا جب صدر رفیق تارڑ اور چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف ایوان صدر کی چوتھی منزل سے ایک ساتھ نیچے اترے اور زمینی منزل کی مرکزی راہ داری سے پہلو بہ پہلو لیکن نہایت خاموشی سے چلتے ہوئے پورچ تک پہنچے۔

سامنے صدر مملکت کی گاڑی کھڑی تھی جس پر روایت کے برعکس قومی پرچم نہیں تھا۔ شوفر نے دروازہ کھولا اور صدر رفیق تارڑ آگے بڑھ کر اس میں سوار ہو گئے۔

جنرل مشرف نے اطمینان کا ایک طویل سانس لیا اور جرنیلی سٹک بغل میں دبا کر رخصت ہونے والے کو سیلیوٹ کیا جس کا جواب انھیں نہیں ملا۔ گاڑی آگے بڑھی تو جنرل مشرف واپس لفٹ کی طرف پلٹ گئے۔

یہ ایک منتخب صدر رفیق تارڑ کی ایوانِ صدر سے رخصتی کا منظر تھا۔

بظاہر ان واقعات میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک دکھائی دے رہا تھا لیکن اس واقعے کے پسِ پشت کم و بیش ایک ماہ کے واقعات تھے اور یہ واقعہ ان کا نکتہِ عروج تھا۔

معاملات اس انتہا تک کیسے پہنچے؟ اس کی تفصیل نسبتاً طویل ہے۔

یہ اوائل مئی 2001 کی بات ہے جب ایوان صدر کے ایک عشائیے میں شریک پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے روحِ رواں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے صدر مملکت محمد رفیق تارڑ سے تنہائی میں بات کرنے کی خواہش کی اور بتایا کہ فوجی جنتا نے آپ کو رخصت کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

چند روز کے بعد ٹوپی (ضلع صوابی خیبر پختونخوا) میں غلام اسحٰق خان انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے کانووکیشن میں صدر مملکت سے ڈاکٹر قدیر خان کی ایک اور ملاقات ہوئی۔ اس بار ان کے پاس کچھ مزید معلومات تھیں، لبِ لباب یہی تھا کہ گذشتہ برس 12 اکتوبر کو ایک منتخب حکومت کا خاتمہ کر کے اقتدار پر قبضے کرنے والی فوجی قیادت نے اب صدر مملکت کو بھی رخصت کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

آئندہ چند روز کے دوران طاقت کے مراکز میں گردش کرنے والی اس اطلاع کی سن گن کچھ صحافیوں کو بھی ہو گئی، اس سلسلے کی پہلی خبر جون کے پہلے ہفتے میں پشاور کے ایک بڑے انگریزی اخبار ’دی فرنٹئیر پوسٹ‘ میں شائع ہوئی۔

خبر نگار فخر الرحمٰن کے مطابق انھیں اطلاع ملی تھی کہ اقتدار پر قبضے کے بعد چیف ایگزیکٹیو کے خود ساختہ منصب پر فائز ہونے والے جنرل پرویز مشرف نے صدر تارڑ کو ہٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور طے کیا ہے کہ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے خرابیِ صحت کو بنیاد بنایا جائے گا۔

یہی خبر تھی جو ساکن پانیوں میں پتھر کی طرح گری اور صدر مملکت کے ترجمان (موجودہ سینیٹر) عرفان صدیقی کے دفتر میں تصدیق کے لیے ٹیلی فون کالوں کا تانتا بندھ گیا۔

خبروں کے اس ہجوم میں طاقت کے مراکز میں بھی سرگرمیاں زور پکڑنے لگیں۔ سینیٹر عرفان صدیقی بتاتے ہیں کہ وہ پہلی بار تھی جب ٹوپی سے واپس آ کر ان اطلاعات کی تصدیق کے لیے جنرل پرویز مشرف کے معتمد خاص طارق عزیز کو ایوان صدر طلب کیا گیا اور اِن سے چیف ایگزیکٹیو کے دفتر سے نکلنے والی اطلاعات کی تصدیق مانگی گئی۔

صدر مملکت نے دوران گفتگو جنرل مشرف کے معتمد پر یہ بھی واضح کر دیا کہ فوجی انتظامیہ نے قومی امور کے ضمن میں جو روش اختیار کی ہے، وہ درست نہیں، اور اس سے قومی مسائل میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ صدر مملکت کی بات چیت اور سوالات پر طارق عزیز نے خاموشی اختیار کی اور یہ مؤقف اختیار کیا کہ وہ اس سلسلے میں جنرل مشرف سے بات کرکے ہی کچھ کہنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔

کچھ دنوں کے بعد طارق عزیز دوبارہ ایوان صدر پہنچے اورصدر مملکت کو آگاہ کیا کہ چیف ایگزیکٹیو 13جون کو اپنے رفقا کے ساتھ ایوان صدر میں عشائیے کے خواہش مند ہیں۔ صدر مملکت تک جنرل مشرف کی یہ خواہش پہنچانے کے بعد انھوں نے جیب سے عشائیے کے شرکا کی ایک فہرست نکال کر انھیں پیش کر دی۔

فہرست میں پہلا نام خود جنرل مشرف کا اپنا تھا جنھیں ملک کے چیف ایگزیکٹیو، چیئرمین جوائنٹس چیف آف اسٹاف کمیٹی اور فوج کے سربراہ کی حیثیت مدعو کرنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا تھا۔ دیگر افراد میں چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل محمد یوسف، ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل محمود احمد، چیف آف سٹاف لیفٹیننٹ جنرل غلام احمد اور جنرل مشرف کے معتمد خاص طارق عزیز شامل تھے۔

صدر مملکت نے ملٹری سیکریٹری کو عشائیے کے انتظامات کی ہدایت کی اور سوچا کہ اب کیا کیا جائے؟

ایوان صدر ایک بھرا پُرا سیکریٹریٹ ہوتا ہے جس میں بیوروکریسی کے اعلیٰ ترین نمائندوں اور سرد گرم کشیدہ زیرک افراد کی ایک بڑی تعداد ہمہ وقت موجود ہوتی ہے لیکن ایک ایسے معاملے میں جس کا تعلق سول ملٹری معاملات سے ہو، مشورے کے لیے سربراہ مملکت کسی ایسے فرد پر ہی اعتماد کر سکتے تھے جو ان کے نزدیک ہر اعتبار سے قابل اعتماد ہو اور اس کی وابستگی شک و شبے سے بالا ہو۔ چنانچہ ہمیشہ کی طرح عرفان صدیقی کو مشورے کے لیے طلب کیا گیا۔

گویا فیصلے کی گھڑی آ پہنچی تھی لیکن دائیں بائیں سے ملنے والی مختلف اطلاعات کے باوجود یہ واضح نہیں تھا کہ فوجی حکمران کے دل میں کیا ہے اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے کیا حکمت عملی ان کے پیش نظر ہے۔

یہ گفتگو دو مقامات پر کی جا سکتی تھی۔ ریزیڈنسی کے نام سے پکارے جانے والے ایوان صدر کے رہائشی علاقے کے ڈائننگ ٹیبل پر یا دیوار کے اِس طرف ڈرائینگ روم میں جہاں سربراہ مملکت دفتری اوقات سے ہٹ کر اپنے مہمانوں سے ملاقات کیا کرتے ہیں۔

‘اگر وہ کھانے کی میز پر گفتگو کرتے ہیں تو بات چیت ہلکی پھلکی اور خوش گوار ہو گی لیکن اگر وہ اس موقع پر زبان نہیں کھولتے تو صورت حال مختلف ہو جائے گی۔‘ صدر مملکت نے عرفان صدیقی کے ساتھ بات چیت میں خیال آرائی کی۔

عرفان صدیقی نے صدر تارڑ کے اندازے کی تائید کی اور کہا کہ وہ یقیناً دوٹوک بات کریں گے اور یہ چونکہ ایک بنیادی نوعیت کا اہم فیصلہ ہے، اس لیے ضروری ہے کہ صدر مملکت ٹھنڈے دل کے ساتھ معاملے کے تمام پہلوؤں پر غور کر کے نہایت نپے تلے انداز میں گفتگو کریں۔

عرفان صدیقی

مشاورت مکمل ہوئی اور مہمانوں کا انتظار شروع ہو گیا۔ بتایا گیا تھا کہ یہ لوگ ساڑھے آٹھ سے پونے نو بجے کے دوران ایوان صدر پہنچ جائیں گے لیکن تاخیر ہو گئی۔ معلوم ہوا کہ چیف ایگزیکٹیو کے دفتر میں بھی مشاورت کا عمل جاری ہے، یہ تاخیر اسی وجہ سے تھی۔

مہمان جیسے ہی ایوان صدر پہنچے تو انھیں فوری طور پر ڈائننگ ٹیبل پر پہنچا دیا گیا۔ مہمانوں نے صدر مملکت کے ساتھ نہایت خاموشی کے ساتھ عشائیہ کیا، اس موقع پر دونوں طرف سے کسی قسم کی کوئی بات نہیں کہی گئی۔ کھانے کے بعد صدر مملکت اٹھ کھڑے ہوئے اور قہوے کے لیے مہمانوں کو ہمراہ لے کر ڈرائینگ روم پہنچے۔

ایوان صدر میں پیش کیے جانے والے سیاہی مائل رنگت اور نسبتاً تلخ ذائقے والے قہوے کی بڑی شہرت ہے۔ قہوہ پیش کر دیا گیا تو جنرل مشرف نے احتیاط سے نگاہیں دائیں بائیں دوڑائیں، گویا جاننا چاہتے تھے کہ کمرے میں کوئی ایسا شخص تو موجود نہیں ہے جسے یہ گفتگو نہیں سننی چاہیے۔ اس اطمینان کے بعد انھوں نے اپنے ساتھیوں کی نمائندگی کرتے ہوئے بات چیت کا آغاز کیا۔

پہلے انھوں نے عشائیے میں مدعو کرنے پر اور اس کے بعد انھوں نے فوجی کارروائی کے بعد ان کی خواہش پر صدارت کا منصب سنبھالے رکھنے پر میزبان کا شکریہ ادا کیا۔ اِن رسمی کلمات کے بعد وہ اپنے اصل مدعے پر آئے اور معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ساتھی یہ سمجھتے ہیں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ وہ (یعنی جنرل مشرف) صدارت کا منصب بھی سنبھال لیں۔

انھوں نے صدر مملکت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی اس خواہش کا اظہار کرتے ہوئے ندامت اور افسوس محسوس کرتے ہیں لیکن یہ ضروری ہو چکا ہے کیوں کہ ملک میں سرمایہ کاری نہیں آ رہی، عوام میں بے چینی ہے اور بیرونی دنیا یہ سمجھتی ہے کہ ملک میں چوں کہ کوئی واضح نظام نہیں ہے، اس لیے وہ پاکستان کے ساتھ معاملات طے کرنے میں احتراز کرتے ہیں۔ اس لیے صدر تارڑ کا جانا اور خود جنرل مشرف کا صدر کا منصب سنبھالنا ضروری ہو گیا ہے۔

جنرل مشرف نے اپنی بات کسی قدر تفصیل سے بیان کی تھی، صدر تارڑ نے بھی جوابی طور پر نہایت تفصیل کے ساتھ اپنا نکتۂ نظر بیان کیا اور کہا کہ میں ایک منتخب صدر ہوں جس نے الیکٹورل کالج سے ریکارڈ تعداد میں ووٹ لے کر یہ منصب سنبھالا ہے، اس لیے میں یہ مناسب نہیں سمجھتا کہ کسی کے کہنے پر میں یوں مستعفی ہو کر یہ منصب چھوڑ دوں۔

انھوں نے جنرل مشرف کی قیادت میں فوجی انقلاب کے بعد رونما ہونے والی صورت حال اور اس دوران کیے جانے والے بعض غیرقانونی اقدامات کا بھی ذکر کیا جن میں پی سی او ججوں کا معاملہ خاص طور پر شامل تھا۔ انھوں نے کہا کہ ان واقعات کو انھوں نے دل پر جبر کر کے اس لیے برداشت کیا تاکہ ملک کو کم سے کم مسائل کا سامنا کرنا پڑے لیکن اس کے باوجود آپ نے فیصلہ کر لیا ہے تو آپ جو چاہتے ہیں، کر گزریے، میں مستعفی نہیں ہوں گا۔

عرفان صدیقی نے مجھے بتایا کہ صدر مملکت نے انھیں اگلے روز آگاہ کیا کہ جنرل مشرف اور ان کے ساتھی ان کا مؤقف سن کر حیران رہ گئے، انھیں توقع نہیں تھی کہ مارشل لا کے نفاذ کے بعد سویلین نظام کے تنہا نمائندے یعنی صدر مملکت اتنا دو ٹوک اور جرأت مندانہ مؤقف اختیار کریں گے۔ صدر تارڑ نے انھیں بتایا کہ ان کی گفتگو کے بعد ماحول میں سناٹے کی سی کیفیت پیدا ہو گئی جسے جنرل غلام محمد کی دھیمی آواز نے توڑا اور کہا:

’سر، آپ مستعفی ہو جائیں گے۔‘

جنرل غلام محمد کی تجویز دراصل صدر تارڑ کے اس سوال کے جواب میں تھی کہ یہ خواہش تو اپنی جگہ کہ جنرل مشرف صدر بننا چاہتے ہیں یا ان کے ساتھی انھیں صدر بنانے پر کمربستہ ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ اس خواہش کی تکمیل کا قانونی طریقہ کیا ہو گا؟

بظاہر اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا، جس پر جنرل غلام محمد نے کہا کہ آپ کے مستعفی ہو جانے سے یہ راستہ ہموار ہو جائے گا۔ بات چیت کے اس مرحلے پر تلخی پیدا ہو گئی اور صدر تارڑ نے کہا کہ میں کسی کی حکومت کا تختہ الٹ کر اس منصب پر نہیں بیٹھا، میں ایک منتخب صدر ہوں۔

صدر مملکت کی گفتگو ابھی جاری تھی کہ جنرل یوسف درمیان میں ہی بول پڑے۔ انھوں نے سوال کیا کہ کیا آئین آپ کو استعفے کی اجازت نہیں دیتا؟ اس جملے پر تلخی میں مزید اضافہ ہو گیا اور صدر مملکت نے کہا کہ آئین استعفے کی اجازت دیتا ہے لیکن استعفے کا بھی ایک طریقہ کار ہوتا ہے، صدر اپنا استعفیٰ سپیکر قومی اسمبلی کو پیش کرتا ہے لیکن آپ لوگ اسمبلی توڑ کر یہ راستہ از خود بند کر چکے ہیں۔

بات یہاں تک پہنچی تو اس مرحلے پر طارق عزیز نے مداخلت کی اور صدر صاحب سے کہا کہ سر، آپ کوئی راستہ نکالیں۔ صدر مملکت نے یہ بات اطمینان کے ساتھ سنی اور نہایت دوٹوک الفاظ میں کہا:

’آپ استعفیٰ چاہتے ہیں تو راستہ نکالنا بھی آپ کا کام ہے، میرا نہیں، میں استعفیٰ ہرگز نہیں دوں گا۔‘

اس مکالمے کے بعد گفتگو ختم ہو گئی اور صدر مملکت کو مستعفی ہونے کے لیے آمادہ کرنے کے لیے آنے والا وفد ناکام ہو کر واپس چلا گیا۔ یہی ملاقات تھی جس میں ایک موقع پر صدر تارڑ نے کہا کہ میں سپریم کمانڈر ہوں اور اس حیثیت میں آپ سب لوگ میرے ماتحت ہیں جو نہ استعفیٰ مانگنے کے مجاز ہیں اور نہ میں آپ کو استعفیٰ دینے کا پابند ہوں۔

اگلے روز آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل محمود دفتری اوقات میں ایوان صدر پہنچے۔ اس ملاقات میں انھوں نے گذشتہ ملاقات کی طرح صدر مملکت سے استعفے کے مطالبے پر معذرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میری اس ملاقات کا مقصد آپ کو کچھ مزید حقائق سے آگاہ کرنا ہے۔

اس ملاقات میں انھوں نے صدر مملکت کو آگاہ کیا کہ جنرل مشرف کچھ دنوں کے بعد انڈیا جانے والے والے ہیں، ملک و قوم کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ ایک مضبوط حیثیت میں انڈیا جائیں۔ اس لیے اچھا ہوگا کہ وہ (صدر تارڑ) مستعفی ہو جائیں کیوں کہ جنرل مشرف نے 20 جون کو صدر مملکت کی حیثیت سے حلف لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

عرفان صدیقی بتاتے ہیں کہ صدر تارڑ نے اس موقع پر پہلے کی طرح نہایت مضبوط مؤقف اختیار کیا اور کہا کہ فوج کے مقابلے میں اگرچہ وہ بہت کمزور ہیں اور کوئی بڑی مزاحمت نہیں کر سکتے لیکن اس کے باوجود وہ مستعفی نہیں ہوں گے۔

ان واقعات اور پیغامات کے تبادلے کے بعد صدر تارڑ نے مستعفی ہوئے بغیر ایوان صدر خالی کرنے کا فیصلہ کر لیا تاکہ مزید کسی بدمزگی سے بچا جا سکے۔

صدر مملکت کی ان تیاریوں کی اطلاع ملنے پر طارق عزیز 16 جون کو ایک مرتبہ پھر ایوان صدر آئے اور جنرل مشرف کی طرف سے انھیں پیغام دیا کہ وہ اس طرح ایوان صدر سے نہ جائیں کیوں کہ جنرل مشرف چاہتے ہیں کہ وہ 19 جون کو ایوان صدر میں صدر تارڑ کے اعزاز میں الوداعی عشائیہ دیں اور الوداع کہنے کے لیے خود ایئرپورٹ پہنچیں، اسی طرح جب وہ لاہور پہنچیں تو گورنر پنجاب ان کا خیر مقدم کریں۔

عرفان صدیقی کے مطابق صدر تارڑ نے اس کے جواب میں یہ مؤقف اختیار کیا کہ جس انداز میں انھیں منصب چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے، اس میں اس قسم کے نمائشی اقدامات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لہٰذا یہ ریکارڈ پر رہے کہ نہ میں نے استعفیٰ دیا ہے اور نہ ہی میں نے کسی الوداعی تقریب میں شرکت کی ہے۔

20  جون کو ساڑھے دس اور گیارہ بجے کے دوران جنرل مشرف ایوان صدر پہنچے لیکن اس سے قبل چیف ایگزیکٹیو آفس سے ایک چیف ایگزیکٹیو آرڈر جاری ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ ہنگامی ترمیمی حکم مجریہ 2001 سے فوری قبل اسلامی جمہوریہ پاکستان کے منصب پر فائز شخص اپنے عہدے سے فارغ سمجھا جائے گا۔

گویا جو کام آئین اور قانون کے ذریعے ممکن نہیں تھا، اسے چیف ایگزیکٹیو کے حکم نامے کے ذریعے ممکن بنا لیا گیا جس کے لیے کسی آئینی اور قانونی سہارے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ اس حکم نامے کے ساتھ ہی ایک اور حکم نامہ بھی جاری کیا گیا جس میں کہا گیا تھا اگر کسی بھی وجہ سے صدر مملکت کا عہدہ خالی ہو جائے تو چیف ایگزیکٹیو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا صدر بن جائے گا۔

جنرل مشرف ان حکم ناموں کے اجرا کے بعد ایوان صدر پہنچے تو صدر تارڑ نے دفتر چھوڑ دیا اور نیچے پورچ کی طرف روانہ ہو گئے، جنرل مشرف بھی پورچ میں پہنچ گئے۔ صدر تارڑ کے لیے بغیر جھنڈے کی گاڑی تیار کرائی گئی تھی جس میں وہ سوار ہو گئے۔

اس موقع پر جنرل مشرف نے انھیں سیلیوٹ کیا جس کا انھوں نے جواب نہیں دیا۔ عرفان صدیقی کے مطابق سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے بھی اپنی ایک تحریر میں اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے صدر رفیق تارڑ کی تعریف کی تھی۔

عرفان صدیقی نے اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ 20 جون کو ایوان صدر ملٹری کمانڈوز کے سخت گھیرے میں تھا جس کی وجہ سے ایوان صدر میں نقل و حرکت اتنی محدود ہو گئی تھی کہ بچے سکولوں کو بھی نہ جا سکے۔ اس صورت حال پر صدر تارڑ نے پنجابی میں دلچسپ تبصرہ کیا:

’میرے کولوں ایہناں نوں ایڈا کیہڑا خطرہ اے جے ایہہ اینا ڈرے ہوئے نیں‘ (مجھ سے انھیں ایسا کیا خطرہ ہے کہ یہ اتنا ڈرے ہوئے ہیں)۔

جنرل مشرف کا اقتدار پر قبضہ کرنا ابھی کل کی بات ہے۔ منتخب حکومت کا خاتمہ اور صدر مملکت کی معزولی کے واقعات لوگوں کے ذہنوں میں ابھی تک تازہ ہیں، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان واقعات کے اہم کردار اس موضوع پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں یا ان کی صحت اس کی اجازت نہیں دیتی۔

اس سلسلے میں جنرل مشرف کے پریس سیکریٹری اور اس سے قبل ڈائریکٹر جنرل انٹرسروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) جنرل راشد قریشی سے بات کی تو انھوں نے بتایا کہ جنرل مشرف کی طبیعت ناساز ہے اور معالجین کی طرف سے انھیں ٹیلی فون سننے کی اجازت بھی نہیں۔

ان واقعات کے بارے میں جنرل مشرف اور ان کے ساتھیوں کے نکتۂ نظر کے بارے میں سوال پر انھوں نے یہ کہتے ہوئے معذوری ظاہر کی کہ صدر رفیق تارڑ کی معذولی کے واقعات ایوان صدر میں ان کی آمد سے پہلے کے ہیں۔

جنرل مشرف نے صدر رفیق تارڑ کو منصب چھوڑنے پر کس طرح مجبور کیا، اپنی کتاب ’ان دی لائن آف فائر‘ میں انھوں نے اس معاملے میں خاموشی اختیار کی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ جب انھوں نے حکومت پر قبضہ کیا تو اس وقت ان کے پاس دو منصب تھے: چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور چیف آف آرمی سٹاف۔

حکومت سنبھالنے کے بعد تیسرا منصب بھی ان کے پاس آگیا یعنی وہ ملک کے چیف ایگزیکٹیو بھی بن گئے۔ 20 جون 2001 کو صدر کا منصب سنبھالنے کے بعد ان کے پاس ملک کے چار اہم ترین منصب آ گئے۔

وہ ملک کے صدر کا منصب کیوں سنبھالنا چاہتے تھے، اس سلسلے میں انھوں نے لکھا ہے کہ سفارتی آداب کے تحت ایسا کرنا ضروری تھا کیونکہ ان کی غیر ملکی قائدین سے ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں اور ایسے موقعوں پر پروٹوکول کا مسئلہ پیدا ہو جاتا تھا۔

صدارت کے منصب میں دلچسپی کی دوسری وجہ انھوں نے یہ لکھی ہے کہ وہ اسی سال اکتوبر میں چئیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا منصب جنرل عزیز کے سپرد کرنے کا ارادہ رکھتے تھے جب کہ وہ جانتے تھے کہ آئندہ برس انتخاب کے بعد قومی اسمبلی وزیر اعظم کا انتخاب کر لے گی، اس طرح چیف ایگزیکٹو کا منصب بھی ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔

ایسی صورت حال میں ان کے پاس اگر صدارت کا منصب بھی نہ ہوتا تو ان کی حیثیت کیا رہ جاتی۔

اقتدار کی راہ داریوں کے ایک رازداں اور ممتاز صحافی عظیم چوہدری کہتے ہیں کہ جنرل مشرف اگر چیف ایگزیکٹیو کی حیثیت سے آگرہ مذاکرات کے لیے دہلی جاتے تو انڈیا میں ان کا خیر مقدم فوج کے سربراہ کی حیثیت سے کیا جاتا اور وزیر اعظم واجپائی کو انھیں سیلیوٹ کرنا پڑتا۔

کیوں کہ اپنے تخلیق کردہ منصب ’چیف ایگزیکٹیو‘ جس پر انھوں نے خود کو فائز کیا ہوا تھا، عالمی سطح پر اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی، اس لیے ضروری تھا کہ وہ صدارت کا منصب سنبھال کر آگرہ جاتے۔

جنرل مشرف کے پہلے وزیر داخلہ اور سابق گورنر سندھ لیفٹننٹ جنرل معین الدین حیدر ریٹائرڈ بھی ایسے ہی خیالات رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صدارت کا منصب سنبھالنے کی ایک وجہ آگرہ سمٹ تھی، تاہم ان کا کہنا یہ بھی تھا کہ صدر رفیق تارڑ چوں کہ صدارتی نظام کے نفاذ کی راہ میں حائل تھے، اس لیے ان کی رخصتی ناگزیر ہو گئی تھی۔

جنرل حیدر نے بتایا کہ وہ ججوں کے دوبارہ حلف کے سلسلے میں بھی کچھ تحفظات رکھتے تھے۔

صدر رفیق تارڑ کے استعفے، معزولی یا انھیں راستے سے ہٹانے کے سلسلے میں کیا آئینی رکاوٹیں حائل تھیں اور ان کی طرف سے استعفے سے انکار کی صورت میں کس قسم کے حالات پیدا ہوئے، جنرل حیدر اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ آئینی اور قانونی معاملات تو شریف الدین پیرزادہ اور عزیز اے منشی وغیرہ کے ساتھ ڈسکس ہوا کرتے تھے تاہم جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے: ’ویسے تو وہ تعاون ہی کر رہے تھے، اس لیے انھیں ہٹانے کے سلسلے میں بھی کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ جب انھیں بتا دیا گیا کہ انھیں ہٹانے کا فیصلہ ہو چکا ہے تو انھوں نے اپنا سامان باندھ لیا۔‘

ان واقعات کے سب سے بنیادی کردار صدر رفیق تارڑ ہیں جو ان دنوں سخت علیل ہیں، تاہم بی بی سی نے سابق وفاقی وزیر اور ان کی قریبی عزیزہ سائرہ افضل تارڑ کے ذریعے ان سے رابطہ کرکے انٹرویو کی درخواست کی۔ وہ انٹرویو دینے کی پوزیشن میں تو نہیں تھے تاہم انھوں نے سینیٹر عرفان صدیقی کے بیان کردہ حقائق کی تصدیق کی۔ انھوں نے بتایا: ‘میں نے انھیں دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ وہ جو چاہیں کر لیں، میں استعفیٰ نہیں دوں گا۔‘

سابق صدر تارڑ نے بتایا کہ انھوں نے جنرل مشرف اور ان کے ساتھیوں پر یہ بھی واضح کیا کہ جنرل مشرف نے حکومت پر قبضہ کرنے کے بعد پے درپے جو اقدامات کیے ہیں، انھوں نے آئینی اور قانونی طور پر استعفے کا ہر راستہ بند کر دیا ہے اور وہ اپنے کسی ماتحت کو استعفیٰ دینے کا ارادہ نہیں رکھتے۔

صدر تارڑ ایوانِ صدر چھوڑنے سے پہلے اپنے سٹاف کے ساتھ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).