سات اکتوبر: پاکستان میں پہلی فوجی آمریت مسلط کی گئی


میں نے ان کے کمرے میں دیوار پر لگے کلاک پر نظر ڈالی۔ رات کے کوئی گیارہ بجنے والے تھے۔ میں نے جواب دیا صرف آپ کو سلام کرنے آیا تھا ویسے یہ بھی توقع تھی کہ آج اگر کوئی اہم اعلان ہونے والا ہے تو آپ سے لیتا جاؤں۔ “کون سا اہم اعلان؟” انہوں نے پوچھا۔ میں ذرا سا مسکرایا اور میں نے کہا کہ “وہ اعلان جو ایوان صدر سے جاری ہونے والا ہے”۔ “آپ کو کس نے بتایا” انہوں نے پھر سوال کیا۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا “بتائیں گے تو آپ…. اور اگر کچھ نہیں ہے تو چلا جاتا ہوں” یہ سن کر ان کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آئی۔ انہوں نے گھنٹی بجا کر چپڑاسی کو بلایا اور اسے ایک چائے لانے کو کہا۔ اس کے بعد مجھ سے گویا ہوئے “اعلان خاصا طویل ہے ابھی ٹائپ ہورہا ہے آپ کو مل جائے گا” میں نے پوچھا کہ کیا یہ اعلان فوج کی مداخلت سے متعلق ہے تو انہوں نے کہا کہ یہ سب باتیں آپ کہاں سے سن کر آئے ہیں۔ میں نے جواب دیا سن کر نہیں، دیکھ کر آیا ہوں۔ تو وہ بولے کہ جب تک بیان مکمل نہ ہوجائے اور اوپر سے اس کی تصدیق نہ آجائے آپ یہاں سے کہیں نہیں جا سکیں گے”…. ویسے جو کچھ ہوا ہے ٹھیک نہیں ہوا۔ اب اللہ ہی مالک ہے”۔ اس کے بعد انہوں نے میری طرف دیکھا اور کہا آپ کونسا سگریٹ پیتے ہیں ایک مجھے بھی دے دیجئے میں نے سگریٹ کا پیکٹ نکالا مگر ان سے پوچھا کہ آپ تو سگریٹ چھوڑ چکے ہیں اب طلب کیوں ہوئی۔ فرمانے لگے بحث چھوڑو چھ ہفتے ہوچکے ہیں اب اگر ایک سگریٹ پی لیا تو کچھ نہیں ہوگا۔ میں جب چاہوں سگریٹ نوشی چھوڑ دیا کرتا ہوں۔

میں کرنل مجید ملک کے کمرے میں بیٹھا خاموشی سے آہستہ آہستہ چائے کو ختم کرنے کی کوشش میں تھا کہ ان کا سیکرٹری عقبی کمرے سے اندر داخل ہوا۔ اس نے کہا کہ بیان منظور ہو کر آگیا ہے اور سائکلو سٹائل کی مشین پر کاپیاں بھی تیار ہیں۔ اگر اجازت ہو تو اندر لے آو ¿ں۔ کرنل صاحب نے میری طرف دیکھا اور پھر کہا کہ جاؤ دس بارہ کاپیاں یہاں لے آؤ۔ اس کے بعد انہوں نے پہلے ڈان کے دفتر اور پھر دوسرے اخبارات کے دفتر میں ٹیلیفون کرنا شروع کئے۔ انہوں نے ایک کاپی اٹھائی اور میری طرف کھسکا دی۔ اس وقت بارہ بج کر پانچ منٹ ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’یہ لے جائیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ باقی کے اخبارات کے رپورٹر حضرات پریس کلب میں جوا کھیل رہے ہیں اگر وہ نہ آسکے تو ان کے ایڈیٹروں کو بلواؤں گا۔ آپ جائیں اور کام کریں‘۔

میں جلدی سے ان کے کمرے سے نکلا۔ اتفاق سے ایک موٹر رکشہ فوراً ہی مل گیا۔ دفتر تک جاتے ہوئے میں نے کہیں کہیں کھمبوں کی روشنی میں دیکھا تو پتہ چلا کہ جنرل اسکندر مرزا نے مارشل لا نافذ کر دیا ہے اور اسمبلیاں توڑ دی گئی ہیں۔ دفتر پہنچا تو میر خلیل الرحمٰن شاید دفتر سے میری غیر موجودگی کو دیکھ کر گھر سے دفتر آگئے تھے۔ انہوں نے مجھے دیکھا تو کہنے لگے آج کہاں غائب تھے؟ میں نے جواب دیا میر صاحب اس وقت بحث فضول ہے۔ ملک میں مارشل لا لگ گیا ہے۔ اطمینان سے بیٹھیں اور مجھے کام کرنے دیں۔ میں نے کاتبوں کو چونکہ پہلے ہی خبردار کر رکھا تھا اس لئے زیادہ دشواری پیش نہ آئی اور سرکاری اعلامیہ تفصیل سے پڑھے بغیر میں نے اس کا ترجمہ شروع کر دیا۔ پتہ چلا کہ اسکندر مرزا نے مرکزی اور صوبائی حکومتیں برطرف کر دی ہیں۔ اسمبلیاں توڑ دی ہیں اور 56 کا آئین منسوخ کر دیا ہے۔ اس آئین کے تحت وہ ملک کے صدر بنے ہوئے تھے۔ اسکندر مرزا نے ملک کا چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ایوب خان کو مقرر کر دیا تھا اور بظاہر ملک کے کرتا دھرتا وہی تھے۔ آئین ٹوٹنے کے باوجود اسکندر مرزا صدارت کے عہدے پر بہرحال بدستور موجود تھے۔ ملک میں دوبارہ سنسر شپ نافذ ہوگئی تھی۔

پاکستان کی سیاسی زندگی کا یہ دوسرا بڑا سانحہ تھا کہ ایک کارروائی غلام محمد نے کی تھی تو دوسری اسکندر مرزا نے۔ دونوں نے صرف اقتدار پر قبضہ جاری رکھنے کی خاطر چھاپے مارے تھے۔ جو اخبار تیار ہوا میری پسند کے مطابق تھا۔ اخبار میں جو تھوڑی بہت جگہ بچی تھی اس میں کچھ مقامی اور کچھ دوسرے شہروں کا رد عمل بھی درج کر دیا گیا تھا چونکہ میں ایک حد تک اس خبر کے لئے پہلے سے تیار تھا اس لئے آخری کاپی زیادہ لیٹ بھی نہیں ہوئی چنانچہ کام مکمل کرنے کے بعد میر صاحب سے گپ شپ ہوتی رہی۔ میر صاحب کہہ رہے تھے کہ ملک میں سنسر شپ نافذ ہوگئی ہے اس لئے ہمیں بہت سنبھال کر چلتا ہوگا۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments