ایوب خان نے اسکندر مرزا کی چھٹی کیسے کروائی ؟


 مارشل لا حکومت کے تحت کام کرتے ہوئے کوئی تیرہ روز گزر گئے۔ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ایوب خان لاہور اور ڈھاکہ میں بہت بڑے عام جلسوں سے خطاب کر کے کراچی واپس آئے تھے۔ شام کو اعلان ہوا کہ اسکندر مرزا، جنہوں نے 56 کے آئین کے کچھ حصوں کو بحال کر دیا ہے، ایک نئی کابینہ تشکیل دے رہے ہیں جس کے وزیراعظم جنرل محمد ایوب خان ہوں گے، میں نے دفتر میں ایسوشی ایٹڈ پریس کے ٹیلی پرنٹر پر یہ اعلان دیکھا اور پتہ چلا کہ حلف وفاداری کی رسم ایوان صدر میں کوئی آٹھ بجے شب ہو رہی ہے۔ ابتدائی اعلان میں ابھی وزیروں کے ناموں کی فہرست نہیں تھی چنانچہ اس خیال کے پیش نظر کہ مجھے نئے وزرا کی تصویریں وغیرہ بھی درکار ہوں گی۔ میں نے ایک بار پھر کرنل مجید ملک کے دفتر کا رخ کیا۔

میں ابھی ان کے کمرے میں داخل ہواہی تھا کہ کرنل مجید ملک نے کہا کہ آپ نے رکشہ کا کرایہ تو ادا کر دیا ہو گا۔ جو کچھ تم لینے آئے ہو، وہ تو مل ہی جائے گا میں ذرا وزیراعظم ہاؤس تک جارہا ہوں آؤ میرے ساتھ چلو میں تمہیں دفتر واپس چھوڑ دوں گا۔ کرنل صاحب کے ساتھ ان کی کار میں بیٹھا۔ راستے میں میں نے نئے وزیروں کی فہرست پوچھی تو کہنے لگے واپس آئیں گے تو لے لینا۔ نئے وزیر زیادہ تر فوجی ہیں، کچھ سویلین بھی ہیں۔ ان میں ایک نوجوان لڑکا ذوالفقار علی بھٹو بھی ہے۔ سندھ کے مشہور زمیندار شاہنواز بھٹو کا بیٹا ہے۔ میں نے تصویروں کے بارے میں کہا تو کہنے لگے کہ ہاں بھئی وہ بھی تیار ہو رہی ہیں۔ واپس پہنچیں گے تو تمہیں سب کچھ مل جائے گا۔ اتنے میں وزیر اعظم ہاؤس آ گیا۔

کرنل مجید ملک کی کار کوٹھی کے دروازے پر پہنچی تو وہاں مسلح فوجی کھڑے تھے۔ کرنل صاحب نے اپنا تعارف کرایا اور بتایا کہ وہ وزیراعظم کے بلاوے پر آئے ہیں۔ کار کو اندر جانے کی اجازت دے دی گئی۔ کوٹھی کے پورچ پر پہنچے تو فوجی جوانوں نے گھیر لیا۔ کرنل صاحب کے ڈرائیور کے ساتھ آگے ایک فوجی بیٹھ گیا اور ہم دونوں اتر کر غلام گردش کے اندر چلے گئے۔ جہاں ایک کونے میں تین نشستوں والا صوفہ پڑا تھا جہاں ہمیں بیٹھنے کی ہدایت کر دی گئی۔ اس وقت مختلف کمروں میں سے اعلیٰ رینک کے فوجی افسر نکلتے اور تڑاخ پڑاخ کی آواز سے اپنے جوتے بجاتے غلام گردش میں گھومتے ہوئے نکل جاتے۔

صوفے پر بیٹھے ہمیں کوئی دو گھنٹے گزر چکے تھے۔ رات کے سوا گیارہ کا عمل تھا۔ مجھے رہ رہ کر اپنے دفتر کا خیال آ رہا تھا کہ اب کروں تو کیا کروں۔ میں نے ابھی صوفے سے اٹھنے کی کوشش ہی کی تھی کہ فوراً ایک بریگیڈیئر جو شاید ہم پر نظر رکھے ہوئے تھا آگے بڑھا اور اس نے کہا کہ آپ صوفہ سے اٹھیں گے نہیں۔ کرنل مجید ملک نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ بھائی میں حکومت کا پرنسپل انفارمیشن افسر ہوں اور مجھے وزیراعظم ایوب خاں نے طلب کر رکھا ہے۔ یہ تو ایک اخبار نویس ہیں اور انہیں دفتر جانے کی جلدی ہے۔ بریگیڈیئر نے جواب دیا میں بحث میں پڑنا نہیں چاہتا۔ آپ دونوں کو جہاں بٹھایا گیا ہے وہیں بیٹھے رہیں۔ چائے آپ کے لیے منگوا دی گئی ہے جیسے ہی چیف کا آرڈر آئے گا آپ کو ان سے ملوا دیں گے۔ میں نے بریگیڈیئر صاحب سے کہا کہ حضور مجھے دفتر میں فون تو کر لینے دیجئے میں ان کو صرف یہ تو بتا دوں کہ دفتر دیر سے آﺅں گا۔ پتہ نہیں کہ میری یہ درخواست اتنی جلدی کسی طرح بریگیڈیئر کی سمجھ میں آگئی اور انہوں نے کہا اٹھیے میرے ساتھ چلئے میں آپ کو دفتر کا فون ملوا دیتا ہوں۔ آپ دفتر کو اس سے زیادہ کچھ نہیں بتائیں گے کہ آپ دیر سے واپس آئیں گے۔ یہ بتانے کی اجازت بھی نہیں ہو گی کہ آپ یہ فون کہاں سے کر رہے ہیں۔ اس غلام گردش میں ایک اور مقام پر فون رکھا تھا۔ میں نے دفتر کا فون نمبر بریگیڈیر کو بتایا جنہوں نے نمبر ملایا۔ دوسری طرف سے آواز سینئر سب ایڈیٹر ناصر محمود کی تھی ۔ مجھے فون دیا گیا تو میں نے کہا میں دیر سے آﺅں گا، کاپی روک کے رکھنا۔ وہاں سے حسب معمول اور حسب توقع یہی جواب ملا کہ میر صاحب آپ کے کمرے میں بیٹھے آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ فون پر میرا جملہ مکمل ہونے کے بعد فون مجھ سے واپس لے گیا گیا اور میں پھر کرنل صاحب کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ میں نے کرنل صاحب سے سرگوشی کے انداز میں بات کرنے کی کوشش کی تو مجھے بریگیڈیئر نے پھر روک دیا۔ خاموش رہیے یہاں آپ کو آپس میں بات کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ کرنل صاحب یہ سن کر ذرا کھولے ۔ انہوں نے کہا ’کیا مطلب ہے کیا ہم لوگ زیر حراست ہیں‘۔ بریگیڈیئر نے جواب دیا فی الحال یہی سمجھ لیں۔ اتنے میں چائے آگئی۔ ایک پلیٹ میں سینڈوچز بھی رکھی ہوئی تھیں۔ ایک کرنل صاحب ایک کمرے سے چھوٹی سی میز اٹھا لائے جس پر چائے کی طشتری رکھ دی گئی تھی۔

ایوب خان اور بیگم ناہید مرزا

رات کا کوئی پون بجنے والا تھا کہ آئی ایس آئی کے ایک کرنل جو غالباً عبدالرحمن صدیقی تھے بڑے لاﺅنج میں سے نکل کر آئے اور انہوں نے حسب معمول کرنل مجید ملک کو سلامی دی اور پھر کہا کہ چیف آپ کو اندر بلا رہے ہیں۔ ادھر مجھے یہ یقین تھا کہ میرے دفتر میں ضرور ہنگامہ ہو رہا ہو گا اور کہیں ایسا نہ ہو کہ میری ہدایت کے باوجود کاپی پریس بھجوا دی گئی ہو۔ مجھے اس بات کا یقین ضرور تھا کہ آج پرائم منسٹر ہاﺅس میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی ہنگامی خبر کا اشارہ ہے۔

کرنل مجید ملک کوئی پندرہ منٹ بعد ہی لاﺅنج میں تشریف لے آئے۔ انہوں نے دور سے ہی مجھے ہاتھ کی انگلی سے اشارہ کر کے اٹھنے کو کہا اور پھر ہم دونوں باہر نکلے تو ایک فوجی اردلی نے لاﺅڈ سپیکر پر اعلان کیا ’کرنل مجید ملک کی گاڑی لاﺅ‘۔ چند سیکنڈ میں گاڑی آگئی اور ہم دونوں اس میں بیٹھ گئے۔ راستے میں میں نے کرنل صاحب سے پوچھا کہ کیا آپ مجھے پہلے دفتر چھوڑ دیں گے تو انہوں نے انگریزی میں کہا ۔ Are you not interested in another coup story ۔ یہ سن کر مجھے ایسے لگا جیسے کوئی دھچکا لگا ہو۔ میں نے پوچھا کہ اب کیا ہوا ہے۔ کرنل صاحب نے کہا دفتر چل کر بتاﺅں گا تم پہلے اپنے دفتر کو خبردار کر دینا کہ کہ کسی بڑی ہنگامی خبر کے لیے تیار رہیں۔

کرنل صاحب کے دفتر پہنچا تو ان کے ہاتھ میں جو مختصر سا اعلان تھا وہ انہوں نے اپنے سیکرٹری کے حوالے کیا اور میں نے دفتر میں فون ملایا تو وہاں پتہ چلا کہ کاپی تیار ہے۔ فون پر میر صاحب سے بات ہوئی تو میں نے انہیں کہا کہ کاپی فوراً روک لیں میں کرنل مجید ملک کے کمرے میں ہوں۔ ایک نئے انقلاب کی خبر لے کر آرہا ہوں۔ میر صاحب نے مزید تفصیل تو نہ پوچھی لیکن فوراً گاڑی لے کر کرنل مجید ملک کے دفتر روانہ ہو گئے۔ ان کے آتے آتے مجھے پتہ چل چکا تھا کہ فوج نے سکندر مرزا کا تختہ الٹ دیا ہے اور انہیں ملک سے باہر بھجوا دیا گیا ہے۔ اس طرح ملک کا کلی اختیار جنرل ایوب خاں کے ہاتھ میں آگیا ہے۔ اعلان ٹائپ ہو کر آیا اور میں اور میر صاحب اسے لے کر نکل گئے۔ خبر لکھوائی گئی۔ سرخیاں جمائی گئیں۔ اخبار تیار ہوا اور ابھی ہم دفتر میں بیٹھے ہی تھے کہ نیچے سے میر صاحب کا ڈرائیور بھائی بشیر آیا۔ کہنے لگا کہ نیچے کرنل مجید ملک اپنی گاڑی میں آپ دونوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ رات کے دو بج چکے تھے۔ ہم دونوں نیچے اتر آئے اور کرنل مجید ملک کے پاس پہنچے ۔ انہوں نے کہا گاڑی میں بیٹھیں۔ میں ذرا اپنا ذہنی تناﺅ کم کرنا چاہتا ہوں۔ چلئے کلفٹن کو چلتے ہیں۔ دونوں نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ ساتھ بیٹھ گئے۔ راستے میں کچھ گپ شپ ہوئی مگر سمندر کے کنارے جا کر پتہ چلا کہ کابینہ کے حلف اٹھانے کے تھوڑی دیر بعد وزیراعظم ہاﺅس میں ملٹری کمانڈ کونسل کا اجلاس ہو رہا تھا جس میں طے کیا گیا کہ جنرل سکندر مرزا سے جو فوج میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے چھٹکارا حاصل کر لیا جائے اور ملک کے تمام اختیارات کلی طور پر فوج خود سنبھال لے۔

کمانڈ کونسل کے اس اجلاس میں ایوب خان موجود نہیں تھے وہ حلف اٹھانے کے بعد ابھی تک ایوان صدر میں تھے جیسے ہی وہ پرائم منسٹر ہاﺅس پہنچے ۔ انہیں صورت حال سے آگاہ کیا گیا۔ ایوب خان یوں تو جنرل سکندر مرزا کے بڑے وفاداروں میں شمار ہوتے تھے مگر مکمل اقتدار سے کون کنی کتراتا ہے۔ انہوں نے کونسل کے فیصلوں کی تصدیق کر دی۔ چنانچہ تین فوجی جرنیلوں کا ایک وفد، جنرل کے ایم شیخ ، جنرل اے کے برکی اور جنرل محمد اعظم خان ، ایوان صدر روانہ کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وفد نے سکندر مرزا کو ان کی برطرفی کے فیصلے سے آگاہ کیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ اسی وقت اپنے چند کپڑے اٹھائیں اور ملک سے نکل جانے کو تیار ہو جائیں۔ جب سکندر مرزا نے حجت کرنے کی کوشش کی تو جنرل اعظم خاں نے اپنا پستول نکال لیا اور کہا کہ اگر زیادہ تاخیر کرنے کی کوشش کی تو یہ پستول خاموش نہیں رہے گا۔ کہا جاتا ہے کہ جب بیگم ناہید مرزا کو اس فیصلے کا پتہ چلا تو پہلے تو وہ بہت چیخیں اور چلائیں مگر پھر آخر مجبور ہو کر اپنے انتہائی قیمتی زیورات اور جواہرات اٹھائے اور چلنے کو تیار ہو گئیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی پچھلی سالگرہ کے موقع پر انہیں کراچی کے ایک تاجر نے بڑا قیمتی ہار تحفے میں دیا تھا وہ اس وقت کے ہنگاموں میں انہیں نہ مل سکا۔ وہ اسے چھوڑ کر چل دیں۔ معزول حکمران اور ان کی اہلیہ کو ایک چھوٹے طیارے میں کوئٹہ روانہ کیا گیا اور وہاں سے انہیں ایک اور طیارہ پہلے ایران اور اس کے بعد برطانیہ لے گیا۔

کرنل مجید ملک جب یہ تفصیلات سنا چکے تو کہنے لگے کہ اس میں سے جو خبر بنے گی وہ مجھ سے پوچھ لینا۔ میں نے تمہیں آج کے ڈرامے کی تفصیل اس لیے سنا دی ہے کہ آج رات میری طرح تم بھی خراب ہوئے ہو۔

کلفٹن کے بیچ سے تھوڑی دور ہم لوگ ایک بینچ پر بیٹھے رہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments