آٹو مینوفیکچررز کی دیہاڑیاں اور حکومت


عمران خان کی حکومت نے آٹو انڈسٹری کو تین سال بعد کچھ ریلیف دیدیا ہے، اگلے مالی سال 2021۔ 22 کے بجٹ میں 850 سی سی تک کی کاروں پر ٹیکس کم کر دیا ہے جس سے 850 سی سی تک کی کاروں کی قیمت میں آئندہ ماہ جولائی میں 70 ہزار روپے سے ایک لاکھ 5 ہزار روپے تک کمی ہوگی اگرچہ عوام کو یہ ریلیف فوری طور پر نہیں ملے گا مگر 4 سے 6 ماہ بعد مل جائے گا کیونکہ اس وقت کوئی بھی کمپنی بکنگ کے 4 ماہ سے پہلے کار نہیں دے رہی، اس وقت کاروں کی ڈیلیوری 6 سے 8 ماہ سے زائد میں ہو رہی ہے

عمران حکومت بننے کے بعد ڈالر کی پرواز بہت اوپر تک گئی، اس وقت ڈالر 156.85 پیسے ہے، چند ماہ قبل ڈالر 168 روپے تک چلا گیا تھا، جیسے ہی ڈالر مہنگا ہوتا ہے کارساز کمپنیوں کی لاٹری نکل آتی ہے، ایک منٹ سے قبل کاروں کی قیمت ہزاروں روپے بڑھا دی جاتی ہے، اس وقت جو کاریں مارکیٹ میں فروخت ہو رہی ہے ان کی قیمت ایک ڈالر 168 روپے کے حساب سے وصول کی جا رہی ہے، جبکہ مارچ میں ڈالر 152.76 روپے تھا جس کا ریلیف عوام کو آج تک نہیں دیا گیا

ڈالر کی قیمت گزشتہ 6 ماہ میں دس سے بارہ روپے کم ہو گئی ہے مگر اس کا فائدہ بھی عوام کو نہیں مل سکا، تین سال عوام کا بھرکس نکالنے کے بعد حکومت نے اگلے الیکشن کی تیاری کرنے کے سلسلہ میں چھوٹی کاروں پر عائد ٹیکسز میں کمی کا اعلان کیا مگر وہ بھی 850 سی سی تک کی گاڑیوں تک

ملک میں 850 سی سی کی کاریں صرف تین کمپنیاں تیار کر رہی ہیں جس سے عوام کو خاطر خواہ ریلیف نہیں مل پائے گا، ہفتہ کو وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کی زیرصدارت اجلاس ہوا جس میں وفاقی وزیر صنعت و پیداوار خسرو بختیار نے نئی آٹو پالیسی پر تفصیلی بریفنگ دی، خسرو بختیار نے بتایا کہ نئی آٹو پالیسی 850 سی سی سے لے کر ایک ہزار سی سی تک سستی چھوٹی کاریں مہیا کرے گی، اس وقت ملک میں 850 سی سی سے کم کی کاریں بہت کم ہیں اور اس گنجائش کو 1000 سی سی تک بڑھانا صنعت کے ساتھ ساتھ صارفین کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہوگا، اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ایف بی آر اور آٹو انڈسٹری کے درمیان حتمی تصفیے کے لیے معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کی ضرورت ہے

کاریں سستی کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ایف بی آر ہے، جس کو خطرہ ہے کاروں پر ٹیکس کم کرنے سے ان کا ٹیکس جمع کرنے کا ہدف پورا نہیں ہو سکے گا، آٹو انڈسٹری پر ٹیکس لگا کر ایف بی آر حکام بغیر محنت کیے اربوں روپے ٹیکس اکٹھا کر کے اپنی کارکردگی پر حکومت سے مفت میں شاباش وصول کرلیتے ہیں مگر عوام کا تیل نکل جاتا ہے

سینیٹر طلحہ محمود کے زیرصدارت ہونے والے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں کمیٹی نے ایک ہزار سی سی سے اوپر والی گاڑیوں پر ٹیکس تجاویز کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا، قائمہ کمیٹی خزانہ نے 1000 سی سی تک کی گاڑی فروخت کرنے پر 50 ہزار ٹیکس اور ایک ہزار ایک سے 2000 سی سی تک گاڑی فروخت کرنے پر 1 لاکھ ٹیکس جبکہ 2001 سی سی سے بڑی گاڑی کی فروخت پر 2 لاکھ روپے ٹیکس عائد کرنے کی تجاویز کا مزید جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

اجلاس میں گاڑیوں کی قیمتوں کی مانیٹرنگ سے متعلق بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا، اراکین کمیٹی کا کہنا تھا کہ آٹو مینوفیکچررز مراعات تو لے لیتے ہیں لیکن اس کا فائدہ لوگوں تک منتقل نہیں ہو پاتا، ٹیکسوں میں کمی کے فائدے کی عوام تک منتقلی کے لیے گاڑیوں کی قیمتوں کی مانیٹرنگ کا میکنزم ہونا چاہیے

ایک خبر کے مطابق انجنیئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگلے مالی سال کے بجٹ میں 1300 سی سی گاڑی سستی نہ ہونے میں ایف بی آر رکاوٹ بن گیا، بجٹ 2021۔ 22 میں 1300 سی سی گاڑی کی قیمت کم کرنے کی تجویز دی گئی تھی تاہم محصولات متاثر ہونے کی وجہ سے ایف بی آر نے یہ تجویز مسترد کردی

ایف بی آر اگر اس تجویز کو مان لیتی تو 1300 سی سی کار 4 لاکھ روپے تک سستی ہونے کا امکان تھا تاہم ایف بی آر نے 1300 کی بجائے 850 سی سی گاڑی سستی کرنے کی تجویز مانی تاہم 1300 سی سی کاریں سستی کرنے کے لیے تجاویز ابھی بھی زیرغور ہے جن کا جائزہ بجٹ کے بعد بھی لیا جاسکتا ہے

قائمہ کمیٹی خزانہ بھی کہہ رہی ہے کہ آٹو مینوفیکچررز مراعات تو لے لیتے ہیں لیکن اس کا فائدہ عوام کو نہیں پہنچاتے، اس وقت دو اہم ایشوز ہیں جن پر قابو پانے میں حکومت بری طرح ناکام ہو چکی ہے، پہلی یہ کہ ڈالر سستا ہونے کے باوجود حکومت کاریں سستی نہ کرا سکی بلکہ یہ قربانی بھی حکومت کو ہی دینا پڑی کہ ٹیکس کم کر دیے جس سے اس کا ریونیو کم ہوگا

اس وقت اہم اور بڑا مسئلہ کاروں کی بروقت ڈیلیوری کا ہے، آٹو مینوفیکچررز 4 سے 6 ماہ کا کہہ کر کاریں 8 سے 12 ماہ میں دے رہے ہیں، اس وجہ سے آئے روز کار ڈیلرز کے شوروم میں لڑائی جھگڑے دیکھنے کو ملتے ہیں، آٹو مینوفیکچررز نے آج کوئی کوئی سسٹم ہی نہیں بنایا کہ جس صارف کی گاڑی بک ہوئی ہو تو وہ صارف یا انویسٹر کو بذریعہ خط، ای میل یا ایک ٹیکسٹ میسیج کے ذریعے صارف کو اطلاع دے

دوسرے مرحلے میں کار کی ڈیلیوری سے ایک ماہ قبل کار کی بقیہ رقم صارف نے جمع کرانا ہوتی ہے، صارف وقت پر رقم جمع کرا دے تب بھی صارف کو کوئی اطلاع نہیں دی جاتی کہ اس کی رقم مل گئی ہے، تیسرے مرحلے میں جب کار کی تیاری فیکٹری میں شروع ہوتی ہے تب بھی صارف کو خوشخبری نہیں سنائی جاتی کہ آپ کی گاڑی ”پھٹے“ لگ گئی ہے چند دنوں میں تیار کرلی جائے گی اور پھر ڈیلیوری کے لئے آپ کو اطلاع کردی جائے گی

آٹو مینوفیکچررز کی اس مجرمانہ غفلت کا فائدہ ڈیلر اٹھا تا ہے، جہاں سے پیسے زیادہ مل رہے ہوں اس صارف کی کار بیچ دیتا ہے اور صارف کو مزید ایک ماہ انتظار کا کہہ دیا جاتا ہے، صارف کے پاس ایسی کوئی رسائی نہیں ہوتی جہاں سے وہ چیک کرسکے کہ اس کی کار کا کیا سٹیٹس ہے؟ ، حکومت ٹیکس وصول کرے جس کے بغیر ملک نہیں چلایا جاسکتا مگر آٹو مینوفیکچررز کی ”دیہاڑیاں“ تو بند کرے جس کا فائدہ حکومت کو نہیں ہوتا بلکہ صارف کو اضافی پیسے دینا پڑتے ہیں جو سیدھے اور پورے کے پورے آٹو مینوفیکچررز کے جیبوں میں جاتے ہیں

حکومت آٹو مینوفیکچررز کو اس بات کا پابند بنائے کہ وہ اپنی ویب سائٹ پر صارفین کی جانب سے بک کرائی جانے والی کاروں کا سٹیٹس دیکھ سکیں، صارف اپنا بکنگ نمبر ویب سائٹ پر ڈالے تو وہاں کار کا سٹیٹس معلوم ہو جائے، یہ معلومات کار کی بکنگ، تیاری اور ڈیلیوری تک صارف کو ملنی چاہیے جس سے صارفین کو کاروں کی بروقت ڈیلیوری ممکن ہو سکے گی

حکومت کو اس بات کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ جب ڈالر دس روپے سے زیادہ سستا ہو گیا ہے تو کاریں کیوں سستی نہیں ہوئیں یا پھر کب تک کاریں سستی ہوں گی، یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ عوام کو آگاہ کرے، ڈالر سستے ہونے پر جس تاریخ کو کاروں کے سپیئر پارٹس درآمد کیے گئے اس وقت کیا قیمت ہے اور صارف کو یہ کار اب کتنی سستی ملے گی

اب وزارت صنعت و پیداوار ایک ہزار سی سی تک کاریں سستی کرانے کی کوشش کر رہی ہے اس میں زیادہ فائدہ وزارت کے حکام اور آٹو مینوفیکچررز کو ہی ملے گا، عوام کا جوس حکومت تو نکالتی ہی رہتی ہے ایسے میں آٹو مینوفیکچررز کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں، حکومت اپنے نا اہل وزیروں سے عوام کو نجات دلائے اور اس معاملے پر ایکشن لے کر کاریں مزید سستی کرائی جا سکتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments