زندگی، خوشی اور ابو جان


زندگی کیا ہے؟ پیہم جستجو۔ کائنات کے بھید کے حصول کا تسلسل۔ رجائیت بھرے وجود کے ساتھ خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرداں۔ صبر و تشکر کے جذبات سے معمور دل اور ہر لمحہ خوشیوں کا تعاقب۔ ہر ایک پل سے رنگ ’خوشبو مسکراہٹ‘ قہقہے اور کامرانیاں کشید کرنے کا عمل۔ یہ سب کوئی کتابی باتیں نہیں کائنات میں اپنے وجود کے تعارف کا وہ قرینہ ہے جو میں نے اپنے والد سے سیکھا۔ میرے پیارے ابو جان سرفراز احمد چوہدری ایڈووکیٹ جن کے نام کے ساتھ مرحوم لکھتے ہوئے دل کو ناقابل بیان تکلیف ہوتی ہے۔ سچ ہی تو ہے بیٹیاں باپ کی ہوتی ہیں۔ میرے بہترین دوست ’ہر مشکل میں میرے ساتھ کھڑے ہونے والے۔ بھرپور زندگی کی عملی تصویر۔

زبان و ادب سے میرا تعارف تو اسی وقت ہو گیا تھا جب شعور نے اپنی آنکھ کھولی تھی۔ غالب اور اقبال سے لے کر قتیل شفائی اور پروین شاکر تک اردو کے بڑے بڑے ناموں سے شناسائی ابو جان کے کتب خانے کے ذریعے ہی ہوئی تھی۔ وہ ایک کامیاب وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ شعر و ادب کا اعلی ذوق بھی رکھتے تھے۔ بیڈمنٹن کے چیمپیئن بھی رہے۔ مجھے ہمیشہ کہتے تھے رابعہ پریشان نہیں ہوتے ’مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں

میری ہر کتاب کے سب سے پہلی قاری اور ناقد۔ سچ پوچھیں تو ابو کی میز پر جا کر میری کتابیں اپنی خوش بختی پر رشک کرتی تھیں۔ میری ہر کامیابی پر ایسے شاداں و فرحاں ہوتے کہ خوشی ان کے چہرے سے روشنی کی مانند جھلکتی۔ اپنے حق کی خاطر لڑنا اور اپنے موقف پر ڈٹے رہنا ابو جان نے ہی مجھے سکھایا ہے۔ بیٹیاں بیٹوں سے بھی برتر ہوتی ہیں اس حقیقت کا ادراک ایک روشن ذہن باپ ہی کر سکتا ہے۔ گھر میں ہوتے تو خوب گپیں لگاتے۔ میں یونیورسٹی کے لیے اور ابو جان اپنے آفس کے لیے اکٹھے روانہ ہوتے تو سارے راستے دنیا جہان کے ہر موضوع پر طبع آزمائی ہوتی۔ ابو جان کا آفس پہلے آ جاتا وہ گاڑی سے اترنے سے پہلے مجھ پر سلامتی بھیجتے اور میں خوشی خوشی دعاؤں کے تحفے سمیٹتی جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کی جانب بڑھتی۔

رابعہ آج بہت اچھا رنگ پہنا ہے۔ اس لباس کا سٹائل بہت اچھا ہے۔ یہ دیکھو میں تمہارے لیے نیکلس اور بریسلیٹ لایا ہوں مجھے بہت اچھے لگے اب دیکھیں تمہیں پسند آتے ہیں یا نہیں۔ تم شارٹ شرٹس پہن لیتی ہو نا۔ میں لے کر آیا ہوں۔ یہ میرے ابو جان ہیں۔

بیٹا ملازمت میں مسئلے مسائل آتے رہتے ہیں مگر ہمت اور حوصلہ انسان کا سب سے بڑا ہتھیار ہیں اور تم تو میری بہت قابل بیٹی ہو تمھیں کسی چیز کی فکر نہیں ہونی چاہیے۔ ہم اکثر گھر واپس جاتے ہوئے ڈی گراؤنڈ سے سموسے ’دہی بھلے اور آئس کریم کھاتے تھے۔ میں کچھ عرصے کے لیے بیمار ہوئی تو ابو جان کہنے لگے رابعہ تم گول گپے نہ کھایا کرو تمہارا گلا خراب ہو جاتا ہے۔ چھٹی والے دن مارننگ واک کے لیے جاتے اور واپسی پر ڈی گراؤنڈ کے ناشتے سے لطف اندوز ہوتے۔

ہاں بھئی نیا صدر شعبہ کیسا ہے؟ ابو جان! یہ صدر شعبہ تو بہت اچھا ہے پہلے والے سے کہیں بہتر۔ مسکرا کر جواب دیتے تم ہر دفعہ ایسے ہی کہتی ہو اور پھر چند دنوں بعد ہر ایک اپنے رنگ ڈھنگ دکھانے لگتا ہے۔ وہ سچ کہتے تھے میں انسانوں کی پرکھ میں اکثر دھوکہ کھا جاتی ہوں۔ وہ کہتے تھے میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے رابعہ جیسی بیٹی ملی ہے اور میں کہتی ہوں میں نے ہر سرد و گرم میں سر اٹھا کر جینے کا سلیقہ اپنے ابو جان سے سیکھا ہے۔ میں اب بھی ہر مشکل میں ان سے رہنمائی لیتی ہوں۔ اللہ تعالیٰ میرے پیارے ابو جان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین مقام عطا فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے آمین ثم آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments