مجھے اپنی طالب علمی کی یاد سے ڈر کیوں لگتا ہے؟


کچھ عرصہ قبل ایک دوست جو کہ پرائمری سکول میں بطور استاد اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں، بتایا کہ وہ ہفتے میں ایک دن بچوں کو اپنے خیالات لکھنے کا موقع دیتے ہیں۔ بچے خوشی خوشی چھوٹی چھوٹی کہانیاں یا پھر اپنے خیالات کا برملا اظہار کرتے ہیں اور ذہنی مسرت پاتے ہیں۔ یہ جان کر مجھے بہت خوشی ہوئی کہ وہ دوست ایک استاد کا فرض ہی نہیں بلکہ محبت کا اظہار کر رہا ہے، محبت کا فلسفہ سکھا رہا ہے اور تیار ہونے والی نسل کتنی خوش نصیب ہے کہ انسانیت کے باغ میں محبت کے پھول اگائے گی۔

اس کے برعکس کچھ عرصہ پہلے ہی کی بات ہے کہ مجھے اپنے ایک استاد نظر آئے۔ چاہت ان کی بھی تھی اور میری بھی کہ جا کے ان سے ملوں، محبت کا اظہار کروں مگر۔ مجھے تعلیم کے نام پر وہ زمانہ یاد آ گیا جب تعلیم کے نام پر ذہنی غلامی اور جبر سہنا ہر ایک طالب علم پر فرض تھا۔ کبھی یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی تھی کہ ایک طالب علم کن دردناک مرحلوں سے گزرتا تھا یہاں تک کہ اپنا آپ بھی کھو بیٹھتا تھا۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں اخلاقیات، ادب و احترام، اچھائی، برائی، انسانیت اور محبت جیسے الفاظ سے ہمارے آبا و اجداد واقعی واقف بھی تھے کہ یا بس محض خواب و خیال کی تسکین تھی۔

یہ سفر شروع ہوتا ہے، ہر صبح موسم کی پرواہ کیے بغیر کتاب مقدس کو جب معلم مدرسہ، ڈنڈوں تھپڑوں کے زور پر ہدایت کے نام پر سکھاتا، منطق تو یہ تھی کہ دنیا کے بعد کی زندگی میں جنت ملے گی استاذ کی ایک لاٹھی سے واجب جہنم سے چھٹکارا ملے گا مگر والدین سمیت کوئی نہیں جانتا تھا کہ ہمارے لیے یہ صبح کی ٹھنڈی ہوائیں بھی کسی جہنم سے کم نہیں۔ نازک جسم پر پڑھتے ڈنڈے جہنم کے عذاب سے کم نہیں۔ بہرحال ہدایت تھی جو ہر صورت قبول کرنے تھی۔

دوسرے مرحلے میں دن بھر سکول کا قید خانہ۔ بظاہر یہ درسگاہ تھی مگر ایسا لگتا تھا کہ جبری مشقت لی جا رہی ہے۔ طالب علم ریس کے گھوڑے اور استاذ۔ ایک ایسی ریس جو والدین کی عزت میں ہم نے جیتنی تھی۔ الفاظ سکھائے نہیں بلکہ ٹھونسے جاتے تھے۔ اور دلیل تھی کہ محبت، عزت و احترام، علم اور انسانیت سکھائی جا رہی ہے۔ کبھی کبھی سوچتا تھا کہ کیا جبر سے محبت، احترام اور انسانیت سیکھی جا سکتی ہے؟ مگر یہاں تو سوال گستاخی تھی ایک سنگین جرم تھا، اور سزا ایک طاقتور آنا۔

انا در انا۔ جب کہا جاتا ہے کہ تعلیم ہی اشرف المخلوقات بناتی ہے، تو مجھے بازار میں پھرنے والا وہ بے بس چار پایا یاد آ جاتا۔ جس میں اور مجھ میں صرف جسمانی ساخت کا فرق تھا۔ اس کے جسم پر بھی زخم اور میرے جسم پر بھی۔ اس کی آنکھوں میں بھی احساس اور میری آنکھوں میں بھی۔ وہ جانور ہو کر انسانوں میں اکیلا اور میں انسان ہو کر بھی انسانوں میں اکیلا۔ میں تو شاید اس سے بھی بد قسمت تھا وہ بے زبان اور میرے منہ میں زبان۔

کم سے کم اس کی روح تو آزاد تھی مگر میری۔ یہاں درد کو سمجھنے والا کوئی نہ تھا اور یہی درد مجھے اندر ہی اندر سے دیمک کی طرح چاٹ رہا تھا تھا۔ عجیب تضادات اور ہولناک گھٹن تھی۔ سچ بولنے کا کہا تو جاتا مگر سننے کو کوئی تیار نہیں۔ سچ نہ بولو تو سزا اور بولو تو گستاخی۔ نماز اللہ سے محبت کم اور فرض زیادہ۔ روزہ تو اللہ کے لیے مگر احسان انسانوں کے لیے۔ ادب و احترام کے نام پر نہ نظر آنے والی زنجیریں۔ محبت کے نام پر تعصب اور نفرت۔

بات تو انصاف کی جاتی مگر ظلم دیکھ، سن کر بھی اندھے اور گونگے۔ ہدایت کے نام پر غلامی اور تنگ نظری۔ اور رشتے۔ مفادات کا ایک گورکھ دھندا۔ یہاں قابلیت پر خوشامد بھاری تھی، علم و ادب پر پیسہ۔ درس تو سادگی اور اخوت کا تھا مگر ہر کوئی سماجی مفادات چاہتا تھا۔ کہا کچھ جاتا اور عمل۔ سمجھ نہ آتا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ اور سمجھنے کی کوشش کروں تو۔ میری قابلیت کو دوسروں کے ترازو میں تولا جاتا۔ میرے سوالوں کو گستاخی جانا جاتا۔

میرے عزت اور احترام کو میری عقیدت نہیں بلکہ غلامی جانا گیا۔ بحیثیت انسان میرے وقار اور اور عزت نفس کی تذلیل کی جاتی۔ میری سادگی کو بے وقوفی، میری محبت کو مجبوری سمجھا گیا۔ ڈر اور خوف اتنا کہ میں اپنے آنسو بھی ضبط کر لیتا۔ مجھے آج بھی خوف اور ڈر ہے۔ مجھ سے میری ذات چھنی گئی۔ مجھ سے سوال کا حق چھینا گیا مگر سوال آج بھی ہیں۔ سوال ہے میری کچلی ہوئی خواہشات کا۔ سوال آج بھی ہے ان نفرت انگیز رویوں کا جو آج بھی میرے لاشعور میں بیٹھے ہیں۔

سوال آج بھی ہے اس درد کا جو میں نے سہا۔ سوال آج بھی ہے اس احساس کا جس نے مجھے تاریک تنہائیاں دی۔ سوال آج بھی ہے میرے ضبط کیے ہوئے آنسوؤں کا جو آج ہولناک تباہی چاہتے ہیں۔ آج میری نفرت دردناک چیخیں اور سسکیاں چاہتی ہے۔ میری انا انسانیت کی سولی چاہتی ہے اور اخلاقیات جیسی منافقت کی بربادی۔ مجھے آج بھی ڈر اور خوف ہے کہ نہ جانے کب میری وحشت ابل پڑے۔ مجھے نفرت ہے محبت سے۔ مجھے نفرت ہے دلیل سے۔ جب مجھے دلیل سکھائی ہی نہیں گئی تو میں دلیل کیوں دوں۔

مجھے محبت دی ہی نہیں گئی تو میں محبت کیوں دوں۔ مجھے اخلاقیات کا فلسفہ کب پڑھایا گیا۔ مجھے انسانیت کا درس کب دیا گیا۔ آج میں محبت، علم، معاشرت مذہب اور انسانیت بیزار ہوں۔ مجھے ڈر لگتا ہے علم سے۔ مجھے ڈر لگتا ہے محبت، سے مجھے ڈر لگتا ہے انسانیت سے۔ مجھے خوف آتا ہے انسانوں سے۔ مجھے خوف آتا ہے آپ نے آپ سے۔ مجھے ڈر لگتا ہے۔ کہ میں بھی انسان ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments