کیا ہر جھگڑے پر فردوس عاشق کو شاباش ملتی ہے؟


اداکارہ نرما خان نے پنجاب کی کل مختار، غیر منتخب اور بڑی سفارش پر بھرتی کی گئیں معاون اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان کے لیے کہا کہ فردوس عاشق اعوان مجھے رشتے کروانے والی آنٹی لگتی ہیں، یہ اداکارہ کی ذاتی رائے ہے، ویسے رشتے کروانے یا دو دلوں کے ملانے والے کاروبار میں کون سی برائی ہے؟ لیکن ہمارا موضوع آنٹی، رشتہ یا کاروبار نہیں، فردوس عاشق کا رویہ، ان کا مزاج، ان کی رسائی، اختیارات اور ان کا تھپڑ ہے جو انہوں نے پیپلز پارٹی کے نو منتخب ایم این اے عبدالقادر مندوخیل کے منہ پر رسید کیا تھا۔

اب وہ بات تھانے تک جا پہنچی ہے، عبدالقادر مندوخیل نے کراچی کے ایک تھانے میں فردوس عاشق کے خلاف درخواست دی ہے، لیکن پولیس کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ وقوعہ اسلام آباد میں ہوا، اس لیے خاتون کے خلاف درخواست بھی اسی شہر میں دینی چاہیے۔ اسلام آباد کے جس پروگرام میں یہ سارا غل غپاڑہ، مار کٹائی اور ہاتھا پائی ہوئی وہ علاقہ اسلام آباد کے آبپارہ تھانہ کی حدود میں آتا ہے، اور آبپارہ ملک کی قسمت کے فیصلے کرنے والا علاقہ ہے یہ سب کو معلوم ہے۔

آبپارہ ہو یا بنی گالا، اسلام آباد کا کوئی بھی تھانیدار فردوس عاشق اعوان کے خلاف پرچہ درج کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا، کیوں کہ فردوس کوئی بے سہارا، بے پہنچ اور لاوارث نہیں اور نہ ہی وہ حکومت مخالف کسی تنظیم میں ہیں ان کا تعلق تنظیم یوتھ سے ہے۔ اسلام آباد میں اوپر عمران خان اور نیچے شیخ رشید صاحب بیٹھے ہیں، وزارت داخلہ ہے ماتحت پولیس کے کسی صوبیدار کو کیا مجال کہ وہ آنٹی کے خلاف پرچہ کاٹے۔ اگر مندوخیل صاحب درخواست دینے میں کامیاب بھی ہوجائیں تو اس کی حیثیت کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ نہیں ہوگی اور اس ٹکڑے کی جگہ کسی ردی کی ٹوکری ہی ہوگی، یہ بھی ممکن ہے کہ پیپلز پارٹی قیادت مندوخیل صاحب کو مزید کارروائی سے روک لے، اس کے دو اسباب ہیں، ایک تو فردوس عاشق پیپلز پارٹی میں رہ چکی ہیں دوسری وہ خاتون ہیں، ممکن ہے پیپلز پارٹی قیادت احساس پاس رکھ لے۔

پرچہ درج نہ ہونے کا ایک سبب خاتون کی رسائی بھی ہے، ہر جماعت میں رہنے کا تجربہ، پھر ان جماعتوں میں بڑے عہدوں پر پہنچ جانا کوئی مذاق کی بات نہیں مزے کے بات یہ کہ اگر منتخب ہوں تو بھی وزارت اور غیر منتخب ہوں تو بھی بڑا عہدہ ان کے پاس چل کر آتا ہے۔ وہ پہلے وفاق میں وزیراعظم کی معاون کی حیثیت میں وہ اطلاعات و نشریات وزارت کی کل مختار وزیر تھی، پھر بڑے صوبے میں ان کی نوکری لگ گئی۔

رپورٹ ہوا کہ عمران خان نے مولوی فیاض الحسن چوہان کی تعریف بھی کی اور دوسرے دن ان کو ہٹا کر جیلوں کی دیکھ بھال تک محدود کر دیا گیا ان کی جگہ فردوس عاشق اعوان نے لے لی۔ چوہان صاحب کو بھی اپنی زبان پر کنٹرول کم ہی تھا، بات کس طرح کرنی ہے؟ خالی چٹکلی، مذاق، گالم گلوچ، طنز، تبرے یا غلیظ زبان سے وزارت نہیں چلائی جا سکتی، کچھ عقل، فہم، فراست اور دانش کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ اب فردوس نے تو بزدار صاحب کی نیکیاں کر کے، ان کی ناکامیوں کو کامیابیاں گنوا کر ان کی قربت حاصل کر لی ہے۔

ہم بات کر رہے تھے عبدالقادر مندوخیل کی درخواست بنام فردوس عاشق اعوان، بات یہ ہے کہ اکیلے مندوخیل صاحب نہیں جو فردوس عاشق سے اسی طرح متاثر ہوئے ہیں اس راہ میں اور بھی متاثرین ہیں، فردوس عاشق اعوان اپنے اوپر لگنے والے کرپشن کے الزامات پر تپ گئیں اور ایک شریف آدمی کو تھپڑ دے مارا لیکن یہ حقیقت ہے کہ فردوس عاشق پر کرپشن کے الزامات انکوائری بھی بیٹھی تھی یہ انکوائری ان کی تحریک انصاف میں شمولیت تک چلی تھی۔

دوسروں کو کرپشن کنگ، راج کماری، شہزادہ وغیرہ وغیرہ کے لقب دینی والے محترمہ میں اتنا تو دل گردہ رکھنا چاہیے کہ اگر ان پر کوئی الزام لگے تو رد عمل میں تھپڑ رسید نہ کریں۔

کہاں تک سناؤں کہاں تک سنو گے؟ مندوخیل سے لڑائی سے پہلے یہ غیر منتخب خاتون سیالکوٹ کی اسسٹنٹ کمشنر سے الجھی ہی نہیں تھی اس کی بیچ بازار تضحیک کی تھی، یہ سب کچھ آن ائر ہوا اور حکومت کے صادق امین سب کچھ دیکھتے رہ گئے، وہ سہمی سہمی لڑکی برداشت کر کے آخر میں چلی گئیں۔ شاید فردوس سیالکوٹ کی رانی اور ضلعے کے تمام افسران ان کے غلام ہیں، کسی نے کہا فردوس کے ساتھ فرسٹریشن، ڈپریشن، پرفیکشن کا سنجیدہ مسئلہ ہے۔

بات یہاں تک نہیں رکتی مجھے ماضی کے کچھ اور واقعات بھی یاد آ رہے ہیں، لگے ہاتھ ان کا بھی ذکر کردیں، 25 دسمبر 2011 ع کو یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس جاری تھا، چلتے اجلاس میں فردوس عاشق دھاڑیں مار کر رونے لگیں، یہ بالکل اسی طرح تھا جس طرح الطاف حسین عمران فاروق کے قتل کے بعد ٹی وی کیمروں کو بلا کر روئے تھے، فردوس عاشق نے کابینہ میں رونے سے پہلے یہ ڈرامہ براہ راست پی ٹی وی پر چلانے کا بھی پورا بندوبست کر لیا تھا تاکہ اس کی مظلومیت پر لوگ یقین کر لیں۔

ایک واقعہ اس سے پہلے بھی ہوا اس کا بھی میں عینی گواہ ہوں، جب وہ ق لیگ کی ایم این اے تھیں، یہ 2002 ع کی اسمبلی اور پرویز مشرف کی حکومت کی بات ہے۔ ایک دن قومی اسمبلی میں ان کا اسپیکر چوہدری امیر حسین سے جھگڑا ہو گیا، بڑی تلخ کلامی ہوئی۔ امیر حسین کو خاتون نے وہ باتیں سنائیں جو کبھی حزب اختلاف کے ممبران بھی نہیں کہی ہوں گی۔

جاوید چوہدری کے پروگرام میں کشمالہ طارق کے لیے کو الفاظ فردوس عاشق اعوان نے استعمال کیے تھے وہ تو اب بھی تازہ تازہ محسوس ہوتے ہیں، اینکر منصور علی خان ایک پروگرام میں بتا رہے تھے اس خاتون نے مسلم لیگ نواز کے رہنما میاں جاوید لطیف کو بھی ایک پروگرام میں جوتا مارنے کی پیشکش کی تھی۔ اب کی بار وہ جس مقام یا پارٹی میں ہیں ایسے کاموں پر انہیں گبر سنگھ کی شاباش ملتی ہوگی اور ہر جھگڑے پر موگیمبو خوش ہوتا ہو گا۔

ابراہیم کنبھر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابراہیم کنبھر

ابراھیم کنبھرموئن جو دڑو کی وارث سندھ دھرتی کے مٹی جیسے مانھو ہیں۔ کل وقتی صحافی ہیں۔ پیشہ ورانہ فرائض کے ضمن میں اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این نیوز کے لئے کام کرتے ہیں اور سندھی روزنامے کاوش میں کالم لکھتے ہیں۔

abrahim-kimbhar has 57 posts and counting.See all posts by abrahim-kimbhar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments