مدارس میں جنسی استحصال کی چار بنیادی وجوہات


یہاں تک یہ بات تو واضح ہو گئی کہ مدارس اپنی ساخت میں محض طاقت کے مراکز اور سیاسی نرسریاں ہیں جہاں مسلک اور فقہ کے تحفظ کے لیے ایک ایسی فوج تیار کرنا ہے جو فرسودہ ہوتے افکار کے تحفظ کے لیے ایک زومبی کی طرح مدارس کے کرتا دھرتاؤں کے اشارے پر چلنے کو تیار ہوں۔ ایک سادہ، غیر پیچیدہ اور فطرت سے قریب تر مذہب کو مخالف تشریحات کے اس جمعہ بازار سے اصولاً کوئی سروکار ہونا ہی نہیں چاہیے اور وہ بھی ایسے علوم پر مبنی تفاہیم جن کا وجود نہ رسول کے دور میں تھا نہ ان کے خلفائے راشدین کے دور میں۔ یہ بات بھی سامنے کی ہے کہ ان علوم کے فروغ کے ساتھ ساتھ مسلم معاشرے مسلسل زوال کا شکار ہوتے چلے گئے۔ علم کی دینی اور دنیاوی تخصیص نے ہمارے سوشل فیبرک سے لے کر ہماری عصری ترقی تک سب پر ایک جان لیوا ضرب لگائی ہے۔

برین واشنگ یا شعوری ارتقاء جسے انگریزی میں کوگنیٹو ڈویلپمنٹ کہا جاتا ہے، کے لیے ایک کچے ذہن کی ضرورت ہے۔ یہ وہ ذہن ہے جو پانچ سے بارہ تیرہ سال کی عمر تک کسی بھی سانچے میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے مدارس کا زور کبھی بھی اختصاصی مذہبی تعلیم کے لیے جامعات کا قیام نہیں رہا۔ جامعات کا کردار اس منصوبے میں ہمیشہ ثانوی تھا۔ آج دنیا بھر میں اس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ کم ازکم ابتدائی دس سے بارہ برس کی تعلیم ریاضی، زبان، آفاقی اخلاقیات، شہری ذمہ داریوں اور سائنس کی ہونی چاہیے۔ اس کے بعد ہر طالب علم کو یہ اختیار ہونا چاہیے کہ وہ اپنے رجحان کے مطابق اختصاصی شعبے میں قدم رکھے جو طب، مہندسی، کمپیوٹر یا پھر مذہب کا ہو سکتا ہے۔ مذہبی متن آفاقی اخلاقیات کا داعی نہیں ہوتا بلکہ عقیدے کی بنیاد پر انسانوں میں تفریق کا قائل اور بلحاظ اقدار کا پرچار کرتا ہے۔ مذہبی سوچ اصولی طور پر ایک اختیاری سوچ ہے جس کے انتخاب کا حق ایک بالغ ذہن کو ہی کرنا چاہیے۔ تاہم اس اصول کو ماننے کی صورت میں مذہبی مدارس کے وجود کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔

مذہبی فلسفہ اور علوم بہرحال اہم ابحاث کو جنم دیتے ہیں اور طب، قانون، مہندسی یا سائنسز کی طرح اس کی اعلی تعلیمی اداروں میں باقاعدہ فیکلٹیز ہونی چاہئیں تاکہ اس موضوع پر بہتر گفتگو بھی ہو سکے اور ہمیں اس حوالے سے بہتر ذہن بھی میسر آ سکیں جو روح عصر سے ہم آہنگ ہوں۔ تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ ابتدائی تعلیم یا ایلیمنٹری ایجوکیشن آفاقی موضوعات پر ہو، معروضی ہو اور سب کے لیے ایک جیسی ہو۔ یہ تو ہو گئی مثالی صورت حال لیکن حقیقت اس کے بالکل برخلاف ہے۔ مذہبی تنظیموں اور مذہبی اکابرین کا زور ہمیشہ سے اس بات پر رہا ہے کہ مدارس ابتدائی تعلیم سے شروع ہوں گے یعنی بچے کا فطری رجحان لایعنی ہے اور یہ فیصلہ کچی عمر میں ہی ہو جانا ہے کہ اس نے عالم دین ہی بننا ہے۔

نصاب کے حوالے سے اگر ہم اپنے سکولوں اور مدارس کو ایک ٹوکری میں بھی رکھ لیں تو ان سے نکلنے والے بچے جاپان، سنگاپور یا ناروے کے بچے کے مقابلے میں انتہائی کمتر صلاحیتوں کے حامل ہوں گے۔ اس کی وجہ ضیاء صاحب کے دور میں کی گئی بے دریغ اسلامائزیشن ہے جس میں اخلاقیات کی جگہ اسلامیات، علاقائی زبانوں کی جگہ عربی اور خالص سائنس کے بجائے اسلامی سائنس رکھ دی گئی ہے۔ اس سب کے باوجود بھی ایک عام سکول کا بچہ کسی حد تک عصری علوم کی اہمیت کو سمجھتا ہے اور یہ انتخاب رکھتا ہے کہ وہ اپنے رجحان کے مطابق اپنی زندگی اور اپنے پیشے یا اعلی تعلیمی ڈگری کا انتخاب کر سکے۔ یہ انتخاب ایک مدرسے کے بچے کے پاس نہیں ہوتا اور اس سے بڑی محرومی ممکن نہیں۔

ہمارے یہاں خلط مبحث کے لیے مدارس کا موازنہ اعلی تعلیم کے لیے مخصوص جامعات سے شروع کر دیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں ہمیں کوئی اعتراض نہیں اگر ایک مذہبی جامعہ کا موازنہ ایک یونیورسٹی سے کیا جائے لیکن مدارس کا موازنہ پرائمری اور سیکنڈری سکولوں سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم اپنے موضوع پر لوٹتے ہیں جو کہ مدارس میں ہونے والا جنسی استحصال ہے اور اس استحصال کی بنیاد میں کارفرما چار اہم عوامل کا ایک مختصر تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس میں سب سے بڑا کردار اس معلم کا ہے جو بچوں کو پڑھاتا ہے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ چھوٹے بچوں کو بالعموم اور مونٹیسوری میں بلا استثناء خواتین اساتذہ کو پڑھانے کی لیے بہتر خیال کیا جاتا ہے۔ چھوٹے بچوں کو نفسیاتی اور جسمانی لحاظ سے قربت، محبت اور شفقت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس معاملے میں صدیوں کی فہم یہ طے کر چکی ہے کہ عورت مرد سے نہ صرف بہتر ہے بلکہ اس پر جنسی حوالے سے کہیں زیادہ اعتماد کیا جا سکتا ہے۔

ہم کسی بھی عام گھر میں خواتین کے بچوں کو چھونے پر عام حالات میں معترض نہیں ہوتے لیکن مردوں کو یہ اجازت دینے پر تیار نہیں ہوتے۔ چھوٹے بچوں اور بچیوں والے گھر میں اگر ملازم رکھنا ہو تو بھی ایک خاتون کو ترجیح دی جاتی ہے۔ تعلیم میں بھی یہی روایت مناسب سمجھی جاتی ہے۔ عصری تعلیم کے ابتدائی اداروں میں نوے فی صد خواتین اساتذہ ہیں جبکہ مدارس میں یہی تناسب بالکل الٹ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم معاشرتی، عمرانی اور نفسیاتی تحقیق کے بالکل برعکس بچوں کو ایسے معلمین کے سپرد کر دیتے ہیں جو ان کو درکار محبت اور شفقت مہیا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے اور جنسی حوالے سے بھی وہ ایک محفوظ اور با اعتماد انتخاب نہیں ہیں۔

مدارس اور عام سکولوں میں دوسرا فرق مخلوط تعلیم سے گریز ہے۔ ہماری عمومی سوچ کے برعکس جنسی گھٹن کا ایک بڑا سبب مرد اور عورت کو ایک معاشرے میں برابر اظہار اور رسائی کے مواقع نہ دینا ہے۔ چھوٹے بچوں کی شعوری تربیت میں مخلوط طرز تعلیم کی وجہ سے صنفی امتیاز میں کمی ہوتی ہے۔ جنس ایک چبھتا ہوا سوال نہیں رہ جاتا۔ عورت سے تعارف محض فحش جنسی لطیفوں کے ذریعے نہیں ہوتا۔ ورنہ مردوں کے لیے عورت محض ایک خواہش اور ہوس بن جاتی ہے۔ وہ عورت کو اپنے جیسا ایک انسان نہیں سمجھ پاتے۔ اسے عام نظر سے دیکھنا بھی ان کے لیے ممکن نہیں رہتا۔ مرد اور عورت کے بیچ گھر کی حرمت کے باہر سوائے جنسی رشتے کے کوئی اور رشتہ ممکن نہیں رہ جاتا۔ جنس کو ایک شجر ممنوعہ اور گناہ بنانے سے اس کی کشش میں اضافہ ہوتا ہے، کمی نہیں ہوتی۔

کیا وجہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل سے لے کر سب سے زیادہ بکنے والے کالم نگار عورت کے بارے میں صرف جنسی زاویہ آواز لگا کر بیچتے ہیں۔ معلمین بھی اسی چھلنی سے گزر کر اپنے عہدے پر فائز ہوتے ہیں جہاں انہوں نے محض جنسی گھٹن کی تربیت پائی ہوتی ہے۔ اسی تربیت کا شاخسانہ اور خمیازہ کبھی ان کے زیر تسلط مدرسے کے بچے بھگتتے ہیں، کبھی بچیاں بھگتتی ہیں۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ بہت سے عام سکول بھی غیر مخلوط ہیں اور اس میں یورپ کی قدیم روایتوں کے امین کچھ سکول بھی شامل ہیں۔ میں ان کو بھی درست خیال نہیں کرتا۔ پدر سری معاشروں کی سب روایات نے ابھی انتہائی ترقی یافتہ معاشروں میں بھی دم نہیں توڑا۔ جو غلط ہے، وہ ہر جگہ غلط ہے۔ تاہم جہاں سارے مدارس غیر مخلوط ہیں وہاں سکولوں میں یہ تعداد بمشکل دس فی صد ہے اس لیے مسئلے کی سنگینی بھی مدارس کے لیے کئی گنا ہے۔ غیر مخلوط اداروں میں جنس کی غیر متوازن نفسیاتی تربیت کا نتیجہ بھی اغلام کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔

تیسرا اہم مسئلہ مدارس کا رہائشی ہونا ہے۔ میں ذاتی طور پر کسی بھی طرز تعلیم میں، خواہ وہ عصری ادارے ہوں یا مدارس، ابتدائی درجوں کے بچوں بلکہ ثانوی درجوں میں بھی بورڈنگ سکول کا حامی نہیں ہوں۔ بچوں کو عاقل اور بالغ ہونے سے پہلے ایسے منتظمین کو کلی طور پر دن رات کے لیے سونپ دینا جن سے ان کے رشتے کی کوئی حرمت ہو نہ ان سے محبت اور شفقت کا کوئی تعلق ہو، صرف ظلم ہی نہیں، جرم بھی ہے۔ مدارس میں جنسی استحصال کی یہ سب سے بڑی وجہ ہے اور اس کا تدارک اس لیے ممکن نہیں کہ مدرسے میں پڑھنے والے بچوں کی اکثریت وہ ہے جسے والدین مذہبی روایت کی پاسداری کے ساتھ ساتھ معاشی مجبوریوں کی وجہ سے بھی مدرسے میں چھوڑنے پر راضی ہوتے ہیں کہ سر پر چھت اور پیٹ میں روٹی کا خرچ انہیں بچ جاتا ہے۔ اگر آج مدارس کو ڈے سکول میں بدل دیا جائے تو جنسی زیادتی کے واقعات بہت کم رہ جائیں گے۔

تاہم ان سب عوامل سے زیادہ چوتھا اہم ترین محرک وہ نفسیاتی کجی ہے جو ہمارے پورے معاشرے کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔ میں اس کو مدارس سے مخصوص نہیں کر رہا لیکن اس کا سب سے اثر انگیز مظہر مدارس میں ہی دیکھنے کو ملتا ہے تو کیا کیجیے۔ عصری تعلیم کے ادارے اخلاقی تعمیر و تطہیر کے دعوے پر استوار نہیں ہیں۔ ایک سپیس سائنسز کی ڈگری میں خلا بازی سکھائی جاتی ہے اور اس کا معلم بھی خلابازی کا ہی ماہر ہوتا ہے۔ طب سے لے کر آثار قدیمہ کی پڑھائی تک، ہر جگہ یہی معاملہ ہے۔ تاہم مدارس مذہب کو اخلاق کی اساس سمجھتے ہوئے یہ دعوی رکھتے ہیں کہ مدارس کی تعلیم بہترین اخلاقی وجود اور برتر اسوہ تشکیل دیتی ہے۔

یہ کہنے کے بعد وہ قبائلی معاشرت، رجعت پسندی اور ناقابل عمل اور ناقابل قبول اخلاقی قدروں پر اپنے نصاب اور تعلیم کے ذریعے مصر رہتے ہیں۔ ایسے کسی دعوے کی نظیر کسی عصری ادارے میں نہیں ملتی۔ عصری اداروں کے معلم انبیاء کے وارث نہیں ٹھہرائے جاتے۔ ان کو کوئی پاکیزگی اور تقدس کا لبادہ نہیں اوڑھاتا لیکن اس کے باوجود ان کے لیے معیار اس قدر سخت ہے کہ صرف سوشل میڈیا پر جنسی ہراسانی کے الزام میں ایک جامعہ کا استاد آٹھ سال کے لیے جیل بھیج دیا جاتا ہے اور اس کی پوری برادری میں سے کوئی ایک اس کی تاویل نہیں دیتا۔

دوسری طرف مدارس کا مقدمہ تاویل در تاویل اور عذر در عذر پر کھنچتا چلا جاتا ہے۔ مدارس میں موجود اخلاقی گراوٹ کو انفرادی معاملہ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ مدارس اسی اخلاق کی لاٹھی ٹیکے ہی تو کھڑے ہیں۔ یہ بھی نہ ہو تو ان کے وجود کی آخری دلیل بھی دم توڑ دے۔ مذہبی تعلیم میں اخلاقی جرائم اتنے عام ہو چکے کہ اب انہیں شاید کوئی جرم سمجھتا ہی نہیں، رہا ان کے گناہ ہونے کا سوال تو وہی تعلیم یہ بھی بتاتی ہے کہ شرک کے علاوہ ہر گناہ معاف ہو جائے گا خواہ ریپ ہی کیوں نہ ہو۔ نہیں تو وظائف اور عبادات کے راستے توبہ کا در ہمیشہ کھلا ہی رہتا ہے۔ لیجیے کوتوال کا ڈر پہلے ہی نہیں تھا، خوف خدا کا بھی علاج کر لیا گیا۔ اب کوئی کیا اس پر بحث کرے۔ رہی عوامی جواب دہی کا خوف تو وہ شاید ہے اسی لیے جہاں ہر سکول میں سی سی ٹی وی کیمرے بھی موجود ہیں اور ہر کوئی موبائل بھی لیے پھرتا ہے وہاں یہی دونوں اشیاء اکثر مدارس میں شجر ممنوعہ کیوں ہیں؟

پیو کا سروے آپ کے سامنے ہے۔ ایک کے بعد ایک مثال روز اخبار میں لپٹی چلی آتی ہے۔ ہم یہ مان کیوں نہیں لیتے کہ خرابی کی جڑ مدارس کے نظام، نصاب اور فکر میں پوشیدہ ہے۔ کہانی کہیں اور بگڑی ہے، ہم سرا کہیں اور ڈھونڈ رہے ہیں۔ ہم جنس پرستی کو گناہ کہنے والے بعض لوگ سدومیت کے بغیر ایک دن نہیں گزار پاتے۔ عورتوں کی عزت کے دعوے کرنے والے بینگن اور بستر کی مثالیں منبر پر دیتے ہیں۔ مخلوط سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی تہذیب نفس کا ماتم کرنے والے صبح شام اغلام کے عادی نکلتے ہیں۔ جنسی رویوں کی تشریح اب سائنس اور نفسیات سے ہوتی ہے۔ اس کی تفہیم بلکہ قانون سازی تک مذہب سے کرنے پر بضد رہیں گے تو نتیجہ وہی نکلے گا جو نکل رہا ہے۔

ایک مہذب اور باشعور معاشرے میں مدارس جیسے ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے اختصاصی ادارے صرف بگاڑ، محرومی اور استحصال کے کارخانے ہیں۔ مذہب کی تعلیم اعلی تعلیمی اداروں کا مضمون ہے اور وہیں پڑھایا جانا چاہیے۔ یہ حقیقت ہم جتنی جلدی سمجھ لیں، اتنا اچھا ہے۔ کتنی نسلیں برباد ہو چکی ہیں۔ اپنی اگلی نسل کو تو بچا لیجیے۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments