شاہ فیصل: وہ کیا حالات تھے جن میں سعودی عرب کے شاہ کو اُن کے بھتیجے فیصل بن مساعد نے قتل کیا؟

عارف شمیم - بی بی سی اردو، لندن


شہزادہ فیصل اور شہزادہ خالد امریکہ کے دورے کے دوران

اُس برس 12 ربیع الاول کو پیغمبرِ اسلام کی پیدائش کے دن سعودی عرب کے شاہ فیصل لوگوں سے مل رہے تھے اور انتظار گاہ میں کویتی وفد بھی ان سے ملنے کا منتظر تھا۔

شاہ فیصل کے بھتیجے فیصل بن مساعد اس کویتی وفد سے بات چیت میں مصروف تھے۔ جب وفد کی ملاقات کا وقت آیا تو شاہ فیصل اپنے بھتیجے فیصل بن مساعد کو بوسہ دینے کے لیے آگے بڑھے۔ اُسی وقت بھتیجے نے اچانک اپنے حبے سے ریوالور نکالا اور شاہ فیصل کو دو گولیاں مار دیں۔ قاتل نے پہلی گولی ان کی تھوڑی اور دوسری کان پر ماری۔

کہا جاتا ہے کہ ایک تیسری گولی بھی چلی تھی جو انھیں نہیں لگی۔ شاہ کے ایک محافظ نے فیصل بن مساعد پر تلوار کا وار کیا، جو کہ ابھی میان میں ہی تھی۔ وہاں پر موجود ملک کے وزیر پیٹرولیم نے گارڈ سے چلا کر کہا کہ شہزادے کو ہلاک نہ کرنا۔ فیصل بن مساعد اس دوران اطمینان سے وہیں کھڑے رہے اور گارڈز نے انھیں گرفتار کر لیا۔

شاہ فیصل کو ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ زخموں کی تاب نہ لا سکے اور ہلاک ہو گئے۔

سعودی عرب میں دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک صحافت کرنے والے تجزیہ کار راشد حسین کی ایک ایسے شخص سے اچھی خاصی واقفیت تھی جو اُس وقت شاہ فیصل کے بہت قریب کھڑے تھے جب یہ واقعہ پیش آیا۔ وہ شخص تھے اُس وقت کے تیل کے وزیر احمد زکی یمانی جو اوپیک کے وفد کو جس میں کویت کے وزیر بھی شامل تھے، شاہ فیصل سے ملوا رہے تھے۔

راشد حسین کہتے ہیں کہ ’ممکن ہے کہ وہ جو سکیورٹی سکریننگ ہوتی تھی وہ نہیں ہو سکی ہو۔ جب گولی چلی تو لوگوں نے سمجھا کہ یہ احمد زکی یمانی کو بھی لگی ہے۔ کیونکہ انھوں نے ہی پہلے فیصل بن مساعد کو جا کر پکڑا تھا۔‘

شاہ فیصل بن عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن السعود کے قاتل فیصل بن مساعد کا سر اسی سال 18 جون کو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے سب سے بڑے چوراہے پر سرِعام قلم کر دیا گیا تھا۔

فیصل بن مساعد کی اپنی امریکی گرل فرینڈ کے ساتھ ایک تصویر
فیصل بن مساعد کی اپنی امریکی گرل فرینڈ کے ساتھ ایک تصویر

فیصل بن مساعد کون تھے؟

فیصل بن مساعد شاہ فیصل کے سوتیلے بھائی مساعد بن عبدالعزیز کے بیٹے تھے۔

فیصل بن مساعد چار اپریل 1944 کو پیدا ہوئے اور شاہ فیصل کے قتل میں انھیں 18 جون 1975 کو سزائے موت سنائی گئی اور کچھ ہی گھنٹوں کے بعد ریاض کے مرکزی سکوائر میں اُن کا بھرے مجمعے کے سامنے سر قلم کر دیا گیا۔

فیصل مساعد کی زندگی کے بارے میں بہت زیادہ نہیں لکھا گیا۔ فیصل بن مساعد تعلیم حاصل کرنے امریکہ گئے جہاں انھوں نے سان فرانسسکو سٹیٹ کالج میں داخلہ لیا۔ وہ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اور یونیورسٹی آف کولیراڈو میں بھی زیرتعلیم رہے۔

شاہ فیصل کے قتل کے بعد ابتدائی طور پر کہا گیا تھا کہ وہ ’دماغی طور پر عدم توازن‘ کا شکار ہیں۔ قتل کے بعد شاہی کابینہ کی جانب سے ایک بیان میں انھیں باقاعدہ طور پر ’پاگل‘ قرار دے دیا گیا۔ لیکن ڈاکٹروں نے معائنے کے بعد سرٹیفیکیٹ دیا کہ فیصل بن مساعد دماغی طور پر بالکل ٹھیک ہیں۔

اُن کے ساتھ منشیات کے واقعات بھی جوڑے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ جب وہ سعودی عرب واپس آئے تو ان کا پاسپورٹ ضبط کر لیا گیا تھا کیونکہ وہ بیرون ممالک سعودی عرب کے لیے بے عزتی کا باعث بن رہے تھے۔

ڈیلی نیوز
ڈیلی نیوز

شاہ فیصل کو کیوں قتل کیا گیا؟

سعودی عرب میں اکثر تحقیقات کو منظرِ عام پر نہیں لایا جاتا اور بات جب شاہی خاندان کی ہو تو معاملہ اور بھی حساس ہو جاتا ہے۔ قتل کے وقت کئی افواہوں اور قیاس آرائیوں نے جنم لیا لیکن تحقیقات کے بعد یہ کہا گیا کہ قاتل اکیلا تھا اور اس کے ساتھ اس عمل میں کوئی اور شریک نہیں تھا۔

تجزیہ کار راشد حسین کہتے ہیں کہ 25 مارچ 1975 کو کیا ہوا اسے مکمل سیاق و سباق کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے۔

فیصل بن مساعد کے بھائی کی ہلاکت

ابتدائئ طور پر تو یہی قیاس آرائیاں ہوئیں کہ شہزادے نے اپنے بھائی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے شاہ فیصل پر گولی چلائی۔

جب شاہ فیصل نے ملک میں ٹیلی ویژن کی نشریات شروع کروائیں تو ان کے سوتیلے بھائی اور فیصل بن مساعد کے والد مساعد بن عبدالعزیز دوسرے مذہبی رہنماؤں کے ہمراہ شاہ کے فیصلے کے خلاف کھل کر بولنے لگے اور احتجاجی مظاہرے بھی کیے۔ اسی طرح کے ایک مظاہرے میں جب مظاہرین ٹی وی سٹیشن پر حملہ کرنے لگے تو پولیس اہلکاروں نے گولی چلا دی جس میں مساعد بن عبدالعزیز کے بڑے بیٹے خالد مساعد ہلاک ہو گئے۔

راشد حسین کہتے ہیں کہ ’سعودی عرب میں حکمرانوں نے مذہبی علما پر بہت زبردست کنٹرول کیا ہوا تھا اور وہ آج تک ہے۔ جب ان کو کوئی تحریک پھیلانی ہوتی ہے وہ مولویوں سے زبردستی کہلوا دیتے ہیں۔ غالباً سنہ 65 یا 66 کی بات ہے جب وہاں ریڈیو اور ٹیلیویژن کی ابتدا کرنے کی کوششیں ہو رہی تھیں تو علما نے وہاں کوشش کی کہ اُن کی مرضی کے بغیر کچھ نہ ہو اور ہر چیز ان کے کنٹرول میں رہے کیونکہ یہ غیر اسلامی ہے وغیرہ وغیرہ۔‘

’شاہ فیصل اپنے دور کے حوالے سے ذرا ترقی پسند تھے۔ انھوں نے خواتین کی تعلیم کا سلسلہ بھی شروع کروایا اور اسی طرح انھوں نے وہاں ریڈیو اور ٹیلی ویژن بھی شروع کروایا۔ اور جب یہ ہوا تو ریاض میں ایک مظاہرہ ہوا اور فیصل بن مساعد کے والد (مساعد بن عبدالعزیز) اس کی سربراہی کر رہے تھے اور وہ شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔‘

’اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر وہ کامیاب ہو جاتے تو وہ شاہ فیصل کی حکومت کا تختہ الٹ سکتے تھے۔ اسی طرح کے ایک مظاہرے میں مظاہرین نے ریاض میں ٹی وی سینٹر میں گھسنے کی کوشش کی اور اس میں فیصل بن مساعد کے بڑے بھائی پولیس والوں کی گولی لگنے سے ہلاک ہو گئے۔‘

تاہم اس کے بعد بھی شاہ فیصل نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا کہ ٹی وی نشریات مکمل طور پر بند کر دی جائیں۔

شاہ فیصل کی حکمرانی اور خاندانی اختلافات

راشد حسین کہتے ہیں کہ شاہی خاندان میں ہمیشہ ایک دوسرے کے خلاف رقابتیں اور اختلافات پائے جاتے ہیں اور شاہ فیصل کے خلاف رقابت کی ایک بڑی وجہ تو یہ بھی تھی کہ شاہ فیصل بذاتِ خود شاہ سعود کو ہٹا کر بادشاہ بنے تھے۔

’فیصل سے پہلے شاہ سعود جو شاہ عبدالعزیز کے سب سے بڑے بیٹے تھے اور ولی عہد تھے وہ بادشاہ بنے تھے۔ لیکن فیصل ایک طرح سے انقلاب لائے کہ شاہ سعود سے ملک نہیں چل رہا ہے اور انھیں تخت چھوڑنے پر مجبور کیا۔ سو لامحالہ شاہی خاندان کے اندر اختلافات تو موجود ہی تھے۔ مساعد صاحب نے ان اختلافات کو بھی استعمال کرنے کی کوشش کی اور انھیں استعمال کر کے شاہ فیصل کے خلاف ایک تحریک پیدا کرنے کی کوشش کی، جس سے شاہ فیصل بہت سختی سے نمٹے۔ مساعد نے وہاں کی مذہبی فورسز یعنی متوؤں کو اپنے ساتھ ملایا ہوا تھا کہ اگر وہ ساتھ ہوں گے تو وہ یہ جنگ جیت سکتے ہیں۔ اس وقت تو یہ کچھ نہ کر سکے لیکن ان کے دل میں کانٹا چبھا رہا۔‘

شاہ فیصل کی حکمرانی کیسے قائم ہوئی

فیصل بن عبدالعزیز کے حوالے سے دستیاب معلومات کے مطابق وہ 14 اپریل 1906 کو ریاض میں پیدا ہوئے۔ وہ شاہ عبدالعزیز کے تیسرے بیٹے تھے۔ ان کی ماں طرفہ بنت عبداللہ کا تعلق عبدالوہاب کے مذہبی گھرانے سے تھا اور ان کی شادی شاہ عبدالعزیز کے ریاض کو فتح کرنے کے بعد ہوئی تھی۔ فیصل ابھی چھ ماہ کے تھے کہ ان کی والدہ وفات پا گئیں۔ ان کی پرورش ان کے نانا نانی نے کی اور ابتدائی تعلیم بھی ان ہی کی ذمہ داری رہی۔

سنہ 1919 میں برطانوی حکومت نے شاہ عبدالعزیز کو لندن مدعو کیا تو وہ ذاتی مصروفیات کی وجہ سے نہ جا سکے لیکن فیصلہ یہ ہوا کہ ان کی جگہ ان کے بڑے بیٹے شہزادہ ترکی جائیں گے لیکن سپینش فلو کی وجہ سے شہزادہ ترکی کی وفات ہو گئی تھی۔ سو اب قرعہ شہزادہ فیصل کے نام نکلا اور وہ سعودی خاندان کے پہلے فرد بنے جنھوں نے انگلینڈ کا دورہ کیا۔ ان کا یہ دورہ پانچ ماہ جاری رہا اور اسی دوران انھوں نے فرانس بھی دیکھا۔

ملکہ برطانیہ اور شاہ فیصل

سنہ 1967 میں ایک دورے کے دوران شاہ فیصل اور ملکہ برطانیہ الزبتھ دوئم فوجی تقریب دیکھنے کے لیے ہائیڈ پارک جاتے ہوئے

ان کے والد انھیں اکثر اہم ذمہ داریاں سونپ دیتے تھے اور سمجھتے تھے کہ فیصل ان ذمہ داریوں کو بالکل احسن طریقے سے نبھانے کے قابل ہیں۔ انھیں سنہ 1922 میں اسیر صوبے کے کنٹرول کے لیے مسلح دستوں کے ساتھ بھیجا گیا جو ایک کامیاب حکمتِ عملی تھی، 1926 میں انھیں حجاز کا وائسرائے بنایا گیا اور اس کے علاوہ وہ وزیرِ داخلہ بھی رہے۔

سنہ 1953 میں شاہ عبدالعزیز کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے سعود کو شاہ بنا دیا گیا جبکہ فیصل ولی عہد بنے۔

شاہ سعود کی گرفت امورِ سلطنت پر اتنی نہیں تھی جتنی ان کے والد کی تھی اور نہ ہی وہ داخلی اور خارجہ پالیسی کا کوئی قابل ذکر تجربہ رکھتے تھے۔ شاہی خاندان کو جلد ہی اس کا احساس ہو گیا اور یہی وجہ تھی کہ شاہ سعود پر دباؤ ڈالا گیا کہ شہزادہ فیصل کو وزیرِ اعظم بنا کر انھیں زیادہ اختیارات دیے جائیں۔ اس وقت تک قریبی ہمسایہ ملک مصر میں جمال ناصر بادشاہ کا تختہ الٹ کر حکمران بن چکے تھے اور ڈر تھا کہ کہیں یہاں بھی ایسا ہی نہ ہو جائے۔

تاہم شاہ سعود اور شاہ فیصل کے درمیان طاقت کی کشمکش جاری رہی اور دسمبر 1960 میں شہزادہ فیصل نے وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیا، لیکن وہ ولی عہد تو تھے ہی۔ کچھ عرصہ بعد انھیں پھر خاندانی حمایت ملی اور وہ دوسری مرتبہ وزیرِ اعظم بنے۔

آخر کار انھوں نے شاہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اقتدار ان کے حوالے کر دیں۔ علما نے ان کے حق میں ایک نہیں بلکہ دو دو فتوے دیے کہ شاہ سعود ملک کی بھلائی کے لیے ان کے حق میں اقتدار سے علیحدہ ہو جائیں۔ شاہی خاندان نے فتوے کی حمایت کی اور دو نومبر 1964 کو فیصل کو سعودی عرب کا فرمانروا بنا دیا گیا۔ ان کو شاہ بنوانے میں سدیری برادرز (بھائیوں) کا بہت ہاتھ تھا، اگرچہ شاہ فیصل خود سدیری خاندان سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔

سدیری برادرز کون تھے؟

کہا جاتا ہے کہ شاہ عبدالعزیز کی سب سے زیادہ پسندیدہ بیوی سدیری قبیلے سے آنے والی حسہ بنت احمد السدیری تھیں اور ان سے ان کے سب سے زیادہ بیٹے پیدا ہوئے تھے اور سبھی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔

بااثر سدیری بھائیوں کے اس گروہ کو ’سدیری سیون‘ بھی کہا جاتا تھا۔

شاہ فیصل اگرچہ خود سدیری ماں کی اولاد نہیں تھے لیکن انھوں نے اقتدار میں آنے کے لیے ساتوں سدیری بھائیوں سے حمایت حاصل کی تھی اور شاہ سعود کو اقتدار سے ہٹوانے میں ان کا بہت کردار تھا۔ شاہ فیصل نے اقتدار سنبھالتے ہی ان بھائیوں کو بڑے بڑے اہم عہدے دیے۔

فیصل بن مساعد کے والد مساعد بن عبدالعزیز کا تعلق اسی طاقتور اور بااثر سدیری قبیلے سے تھا جس نے شاہ فیصل کے اقتدار میں آنے میں ان کی بہت مدد کی تھی۔ تاہم مساعد بن عبدالعزیز شاہ فیصل کی ماڈرنائزیشن کی پالیسی سے اختلاف رکھتے تھے۔

شاہ فیصل کی موت کے بعد ان کے سوتیلے بھائی شاہ خالد سعودی عرب کے فرمانروا بنے اور ان کی سنہ 1982 میں موت کے بعد سعودی عرب کی بادشاہت دو مرتبہ سدیری خاندان کے پاس جا چکی ہے۔ پہلے شاہ خالد کے بعد شاہ فہد بادشاہ بنے، جن کا اقتدار 2005 تک رہا۔ اس کے بعد شاہ عبداللہ فرمانروا رہے جو کہ سدیری نہیں تھے اور ان کی 2015 میں موت کے بعد ایک مرتبہ پھر سدیری خاندان کے شاہ سلمان حکمران ہیں لیکن ضعیف ہونے کی وجہ سے اب بھی ایک اور سدیری یعنی ان کے بیٹے ولی عہد محمد بن سلمان ہی سارا کاروبارِ سلطنت سنبھالتے ہیں۔

شاہ فیصل اپنے وزیرِ داخلہ شاہ فہد اور کابینہ کے دورے اراکین کے ہمراہ
شاہ فیصل اپنے وزیرِ داخلہ شاہ فہد اور کابینہ کے دورے اراکین کے ہمراہ

شاہ فیصل ایک ’ترقی پسند‘

شاہ فیصل نے بادشاہ بنتے ہی پہلے تو خاندان کے لوگوں کو ساتھ ملا کر مستقبل میں بادشاہ چننے کے لیے کونسل بنائی تاکہ یہ مسئلہ مستقل طور پر ہی حل ہو جائے کہ کسے اگلا بادشاہ بنانا ہے اور اس کے بعد اس میں شاہی خاندان کے اہم لوگوں کو اہم عہدوں پر تعینات کیا، جن میں ان کے سگے سوتیلے سبھی بھائی بھی شامل تھے۔

انھوں نے کئی پاپولر فیصلے کیے جن سے ان کو عوام میں بڑی پذیرائی ملی۔ ان ہی میں سے ایک یہ تھا کہ سعودی شہزادے اپنے بچوں کو باہر بھیجنے کی بجائے ملک کے سکولوں میں ہی تعلیم دلوائیں۔ اسی طرح انھوں نے لڑکیوں کی تعلیم پر زور دیا، ملک کی پہلی وزارتِ انصاف قائم کی اور پہلے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھا۔

1962 میں بھی انھوں نے ایک حکمنامہ جاری کر کے ملک میں غلامی یا غلام رکھنے کے رواج کو بالکل ختم کر دیا۔ یاد رہے کہ اس وقت تک یہ کسی نہ کسی شکل میں جاری تھا۔

شاہ فیصل نے کوشش کی کہ معاشی ترقی اور مذہبی سوچ ساتھ ساتھ چلے۔ ایک طرف وہ کوئی ایسا فیصلہ نہ کرتے جس میں مذہبی علما کی حمایت شامل نہ ہوتی لیکن دوسری طرف وہ ہر اس قسم کی مخالفت کو کچل دیتے جس کے بارے میں شبہ بھی ہوتا کہ اس سے ترقی یا ان کی حکمرانی کو مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔

شاہ فیصل اور ان کا وفد برطانیہ کے ایک دورے پر

انھوں نے ریڈیکل علما کو کنٹرول کیا اور جب انھیں مشیروں نے مشورے دیے کہ ملک میں خواتین کی تعلیم جیسے انقلابی فیصلے کرنے سے ان کے خلاف مذہبی برادری کی نفرت بڑھ سکتی ہے تو انھوں نے اسے ماننے سے انکار کیا۔

لیکن اس کے برعکس جب انھیں کہا گیا کہ ملک کا کوئی آئین بنائیں تو انھوں نے کہا کہ قرآن ہی ہمارا آئین ہے۔ وہ کمیونسٹوں کے بہت خلاف تھے اور ان کی خارجہ پالیسی کا ایک بہت بڑا حصہ اسلام ہی تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ اسلام اور کمیونزم ایک دوسرے کی ضد ہیں اور ان میں کبھی مطابقت نہیں ہو سکتی۔ شاید اسی وجہ سے وہ روس سے دور تھے اور امریکہ کے زیادہ قریب۔

مصنف کریگ انگر اپنی کتاب ’ہاؤس آف بش، ہاؤس آف سعود‘ میں لکھتے ہیں کہ شہزادہ بندر بن سلطان السعود نے ایک مرتبہ اخبار نیو یارک ٹائمز کو بتایا تھا کہ شاہ ایران نے اپنا تختہ الٹے جانے سے پہلے ایک مرتبہ شاہ فیصل کو ایک خط لکھا، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’میرے بھائی، مہربانی فرما کر جدت لاؤ (ملک کو جدید بناؤ)۔ اپنے ملک کو کھولو۔ سکولوں میں مخلوط تعلیم لاؤ، عورتیں اور مرد (ساتھ ساتھ)۔ عورتوں کو منی سکرٹس پہننے دو۔ ڈسکو بناؤ۔ ماڈرن بنو، ورنہ میں اس بات کی گارنٹی نہیں دے سکتا کہ تم زیادہ دیر تک اپنے تخت پر براجمان رہو گے۔‘

اس کا جواب شاہ فیصل نے کچھ یوں دیا: ’جہاں پناہ، میں آپ کی نصیحت کی قدر کرتا ہوں۔ کیا میں آپ کو یاد دلاؤں کہ آپ فرانس کے شاہ نہیں ہیں۔ آپ ایلیسی میں نہیں ہیں، آپ ایران میں ہیں۔ آپ کی نوے فیصد آبادی مسلمان ہے۔ مہربانی فرما کر یہ کبھی نہ بھولیں۔‘

شہزادہ بندر نے کہا کہ تاریخ نے شاہ فیصل کو سچ ثابت کیا۔ ’کہیں اور سے درآمد کیے ہوئے غیر مادی معاشرتی اور سیاسی ادارے خطرناک ہو سکتے ہیں۔۔۔ شاہ ایران سے ہی پوچھ لیں۔۔۔ ہمارے لیے اسلام صرف ایک مذہب نہیں ہے، بلکہ زندگی گزارنے کا ایک طریقہ ہے۔ ہم سعودی لوگ جدید طرز زندگی لانا چاہتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ وہ مغربی طرزِ زندگی ہو۔‘

شاہ فیصل اور تیل کی قیمتیں

شاہ فیصل کے قتل کے بعد افواہوں اور قیاس آرائیوں میں سے ایک امریکہ کے بارے میں تھی جہاں سے واپس آنے کے بعد فیصل بن مساعد نے شاہ فیصل کا قتل کیا تھا۔ چند عرب اخبارات نے اس کی طرف اشارہ بھی کیا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ مبینہ طور پر 1973 کے تیل کی پابندی کا ایک بدلہ ہو جس میں مغرب کو بہت نقصان ہوا اور سعودی تیل کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ گئیں۔

اسرائیل نے 1967 کی چھ روزہ جنگ میں مصر اردن اور شام کے بڑے حصوں پر قبضہ کر لیا اور غربِ اردن مکمل طور پر اردن کے کنٹرول سے نکل کر اسرائیل کے قبضے میں چلے گئے۔ ویسے تو اس جنگ میں عربوں کا بہت نقصان ہوا تھا اور اسرائیل مغربی طاقتوں کی مدد سے مشرقِ وسطیٰ میں ایک بڑی طاقت بن کر ابھرا تھا لیکن فلسطینیوں نے اگلے کئی سال اسے گوریلا جنگ کے طور پر جاری رکھا جو کہ کسی نہ کسی شکل میں آج تک چل رہی ہے۔

تاہم 1973 کی عرب اسرائیلی جنگ میں شاہ فیصل کا کردار کھل کر سامنے آیا۔ جب امریکہ اور مغرب نے اسرائیل کا ساتھ دیا اور انھیں عربوں سے لڑنے کے لیے کھل کر اسلحہ اور مدد فراہم کی تو شاہ فیصل نے بطور احتجاج دنیا کو تیل بیچنے پر پابندی لگا دی۔ ان کے اس فیصلے کی وجہ سے دنیا میں تیل کی کھپت یکدم کم ہوئی اور اس کی قیمتیں ایک دم بڑھ گئیں۔

راشد حسین کہتے ہیں کہ سنہ 73 کی تیل کی پابندی نے جو شاہ فیصل نے شروع کی تھی ایک دم سب کچھ بدل دیا۔ ان کے مطابق ’سنہ 1973 میں تیل کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے سے مغرب میں بڑا کہرام مچا۔ وہاں یہ بات ہونے لگی کہ فیصل کس قسم کا آدمی ہے اور کیا کر سکتا ہے۔‘

شاہ فیصل اور امریکی صدر نکسن
شاہ فیصل اور امریکی صدر رچرڈ نکسن ہاتھ ملاتے ہوئے۔ دونوں کے درمیان کھڑے ہنری کسنجر بھی دیکھے جا سکتے ہیں

کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاہ فیصل مذہبی قدامت پسندی سے ملک کو نکال کر تیل کے دولت سے ایک جدید ریاست میں بدلنا چاہتے تھے جو ترقی یافتہ اور ماڈرن بنیادوں پر بنی ہو۔ اس وقت ولی عہد محمد سلمان بھی کچھ اسی قسم کے اقدامات کر رہے ہیں تو کیا اگر درمیان کی نصف سے زیادہ صدی نکال دی جائے تو شاید دونوں کی سوچ ایک ہی طرح کی ہے؟

راشد حسین اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ شاہ فیصل جدت لانا چاہتے تھے، لڑکیوں کی تعلیم کے حامی تھے، اور انھوں نے ملک میں ٹی وی اور ریڈیو متعارف کرایا تھا لیکن پھر بھی سوچ بہت مختلف تھی۔ وہ 1973 کے عرب اسرائیل بحران کے دوران شاہ فیصل اور امریکی سیکرٹری خارجہ کسنجر کے درمیان بات چیت میں ایک جملے کا ذکر کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ شاہ فیصل نے سیکریٹری خارجہ کسنجر کو کہا تھا کہ ’ہمیں اتنا تنگ مت کرو۔ اگر تم ہمیں زیادہ تنگ کرو گے تو ہم اپنے تیل کے کنوؤں کو آگ لگا دیں گے اور خیموں میں واپس چلے جائیں گے۔‘

راشد حسین سمجھتے ہیں کہ ’صرف شاہ فیصل میں یہ جرات تھی کہ وہ یہ کہہ سکتے کہ ہم خیموں میں واپس چلے جائیں گے۔ اب شاید کوئی ایسا کہنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ دونوں الگ الگ شخصیات ہیں اور ان کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ ’فیصل میں مغرب کے سامنے ڈٹ کے کھڑے ہونے کا حوصلہ تھا، جو محمد بن سلمان کے پاس نہیں ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ انھوں نے ملاؤں کو کافی کنٹرول کیا ہوا ہے اور سعودی معاشرے کو کھلا کرنے کی بات کر رہے ہیں پر ان کا ویژن شاہ فیصل سے بالکل مختلف ہے۔ وہ سب کچھ دباؤ میں کر رہے ہیں جبکہ شاہ فیصل دباؤ ڈالنے کے لیے کر رہے تھے۔‘

Published on Jun 21, 2021


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp