نہ چھیڑ ملنگاں نوں


اندھی نفرت اور عقیدت کا حقیقی اظہار ان دنوں سوشل میڈیا کے ذریعے ہوتا ہے۔ میری ذات بھی اس کی زد میں آئی۔ 2016 سے وطن عزیز میں سیاست وصحافت کو ’’چور اور لٹیروں‘‘ اور ’’لفافوں‘‘ سے پاک کرنے والی تحریک کا آغاز ہوا تو میں نے خودکو ’’لفافوں‘‘ کی صف میں کھڑا ہوا پایا۔ فیس بک پر پوسٹ ہوئی میری کچھ تصاویر ڈھونڈ کر انہیں یہ تاثر دینے کے لئے پھیلایا گیا کہ میں اوباش ہوں،ہر نوع کی غیر اخلاقی سرگرمی میں ملوث رہا ہوں۔ حکمرانوں سے ملاقات ہوجائے تو میری باچھیں کھل جاتی ہیں۔

میں فطرتاَ ڈھیٹ ہڈی ہوں۔ مجھ پر دشنام طرازی کا آغاز ہوا تو جان بوجھ کر ’’مزید‘‘ کے لئے اُکساتا رہا۔ بعدازاں مگر احساس ہوا کہ میں نے چند کتابیں بھی پڑھنا ہیں۔ کچھ فلمیں بھی اپنے لیپ ٹاپ پر جمع کررکھی ہیں۔ ’’آبیل مجھے مار‘‘ کی تمنا میں الجھا رہا تو یہ کتابیں اور فلمیں کھولنے کی نوبت بھی نہیں آئے گی۔

میری مشکلات آسان کرنے کو ربّ کریم نے اپنے فضل سے اگست 2018میں عمران خان صاحب کو وزارتِ عظمیٰ کے منصب تک پہنچادیا۔ انہیں اقتدار سنبھالے ابھی تین ماہ بھی مکمل نہیں ہوئے تھے کہ جس ٹی وی چینل کے لئے میں تین برسوں سے کام کررہا تھا اس نے مجھ کو خود پر ’’مالی بوجھ‘‘ ٹھہراتے ہوئے فارغ کردیا۔

ابتداَ اس چینل کے ساتھ میرا دو سال تک پروگرام کرنے کا معاہدہ ہوا تھا۔ میں بہت خلوص سے خواہش مند تھا کہ دو برس گزرجانے کے بعد کچھ عرصہ کے لئے ٹی وی سکرین اور اخبار کے لئے صفحے سے رخصت لی جائے۔ ٹی وی پروگرام کرتے ہوئے دو سال گزرے تو مجھے کم ازکم مزید ایک سال کے لئے اسے جاری رکھنے کو رضا مند کیا گیا۔ وہ سال ابھی مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ ’’مالی بوجھ‘‘ والی حقیقت دریافت ہوگئی۔ میں صحافی سے ٹی وی سکرین پر رونما نہ ہونے کے باعث ’’غیر صحافی‘‘ ہوگیا۔ اپنی شناخت کھودینے کی وجہ سے تھوڑی ذلت یقینا محسوس ہوئی۔ بتدریج مگر شاہ حسین کے ’’چنگا ہویا گڑ…‘‘والے مصرعہ نے قلب کو اطمینان سے بھردیا۔ سوشل میڈیا پر میری بھداڑانے والے بھی اس کی بدولت مجھے بھول بھال گئے۔

ہفتے کے روز مگر احساس ہوا ہے کہ نفرت سے بھرے دل ابھی تک مجھے بھولے نہیں ہیں۔ ہفتے کی صبح اٹھ کر اخبارات پڑھنے کے بعد قومی اسمبلی کا رخ کیا۔ بجٹ پر عام بحث کی وجہ سے اس کا اجلاس ہفتے کے روز بھی صبح سے شام تک جاری رہا۔ پریس گیلری میں بیٹھے ہوں تو آپ کے فون جام ہوجاتے ہیں۔ ویسے بھی پارلیمان میں موجود ہوتے ہوئے صحافی’’ خبر‘‘ کی تلاش میں مصروف رہتے ہیں۔ دوپہر کے کھانے کے لئے گھر لوٹا تو قیلولہ سے قبل اپنا ٹویٹر اکائونٹ دیکھا۔

ایک صاحب نے مجھے Tagکرکے ایک ویڈیو کلپ بھیجی تھی۔ میں ان صاحب کا پورا نام جان بوجھ کر نہیں لکھ رہا ہوں۔ انہیں البتہ ’’عباسی صاحب‘‘ پکارا جاسکتا ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنے فرمودات کے فروغ کے لئے جو IDبنارکھی ہے اس پر اعتبار کریں تو وہ دوبئی میں مقیم ہیں۔ ان کا اکائونٹ انتہائی عجلت میں بنایا دکھائی دیتا ہے کیونکہ ہفتے کی دوپہر تک انہیں فقط دس افراد Followکررہے تھے۔

بہرحال انہوں نے جو پوسٹ لکھی اس کا عنوان اگرچہ انگریزی میں تھا مگر اس کے ذریعے ’’پٹواریوں‘‘ اور ’’لفافوں‘‘ کو حقارت بھرا پیغام دینا مقصود تھا۔ ان کی پوسٹ درحقیقت ایک وڈیو کلپ کی تشہیر تھی جس میں عمران خان صاحب کسی امریکی صحافی کو انٹرویو دے رہے ہیں۔ 1980کی دہائی سے میں امریکہ کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا مستقل ومستعد قاری اور ناظر ہوں۔ جس امریکی صحافی کو ہمارے وزیر اعظم نے انٹرویو دیا ان کا نام البتہ میں نے آج تک نہیں سنا تھا۔ وہ یقینا بہت دھانسو صحافی ہوں گے کیونکہ عمران خان صاحب سے انٹرویو سے قبل راولپنڈی سے ابھرے کرکٹ کے ایک مشہور کھلاڑی جناب شعیب اختر صاحب نے ان کے اعزاز میں باربی کیو دعوت کا اہتمام کیا تھا۔ سوشل میڈیا پر اس دعوت کی تصاویر بھی لگائی گئیں۔ وزیر اعظم کے انتہائی متحرک مشیر اطلاعات جناب شہباز گل صاحب بھی ان کے اعزاز میں دی اس بار بی کیو دعوت میں نمایاں نظر آئے۔

’’عباسی صاحب‘‘ نے جو کلپ پوسٹ کی اس کے ذریعے مجھ جیسے ’’لفافہ‘‘ صحافی کو شرم دلانا مقصود تھا۔ کیونکہ جو کلپ انہوں نے چسپاں کی تھی اس میں وزیر اعظم صاحب امریکی صحافی کو واضح الفاظ میں آگاہ کررہے تھے کہ امریکہ کو پاکستان میں فوجی اڈہ قائم کرنے کی سہولت فراہم نہیں کی جائے گی۔ ہماری سرزمین سے امریکی افغانستان میں کسی فوجی آپریشن کے لئے داخل بھی نہیں ہوں سکیں گے۔

میں واقعتا بہت حیران ہوا کہ دوبئی میں قیام پذیر ہونے کے دعوے دار ’’عباسی صاحب‘‘ مذکورہ انٹرویو کی کلپ کے ذریعے مجھ ’’لفافہ‘‘ کو شرمسار کیوں کرنا چاہ رہے ہیں۔ اس کالم میں تواتر کے ساتھ میں اپنے ہم وطنوں کو بتاتا رہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان سے اپنی افواج نکالنے کو بالآخر تیار ہوگئے ہیں۔ اس ملک پر کڑی نگاہ رکھنا مگر اب بھی لازمی تصور کرتے ہیں۔ اس تناظر میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک میں امریکہ کسی فوجی اڈے کے قیام کی کاوشوں میں بھی مصروف ہے۔

یہ بیان کرنے کے بعد بھی تواتر سے یہ بھی اصرار کرتا رہا کہ وزیر اعظم عمران خان صاحب پاکستان میں امریکی اڈے کے قیام پر رضا مند ہوہی نہیں سکتے۔ افغانستان میں امریکہ کی مسلط کردہ ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف ’’جنگ‘‘ جب اپنے عروج پر تھی ان دنوں بھی عمران خان صاحب انتہائی استقامت اور ثابت قدمی سے ہمارے ان دنوں کے ’’قبائلی علاقوں‘‘ پر ڈرون حملوں کی مخالفت کرتے رہے۔ اس ملک میں موجود غیر ملکی افواج کے لئے پاکستان کے زمینی راستوں کے ذریعے رسد روکنے کے لئے انہوں نے پشاور میں طویل دھرنے بھی دئیے تھے۔ پاکستان کی وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوجانے کے بعد ان کے لئے اپنے رویے میں تبدیلی لانا ممکن ہی نہیں۔ امریکہ لہٰذا افغانستان کے کسی اور ہمسایہ ملک سے فوجی اڈے کے لئے رجوع کرے۔

پاکستان میں امریکہ کے فوجی اڈے کے قیام کا امکان تاہم محض عمران خان صاحب کی دیرینہ سوچ کے باعث ہی ممکن نہیں۔ جوبائیڈن جب سے وائٹ ہائوس گیا ہے ہمارے یار چین کو اپنا ’’مرکزی حریف‘‘ پکاررہا ہے۔ امریکہ کے ’’مرکزی حریف‘‘ نے مگر پاکستان میں سی پیک کے عنوان سے ترقی وخوشحالی کے کئی میگاپراجیکٹس کا آغاز بھی کررکھا ہے۔ پاکستان میں اگر امریکہ کو افغانستان پر نگاہ رکھنے والی سہولت میسر ہوگئی تو اس کی ’’نگرانی‘‘(آپ جاسوسی بھی کہہ سکتے ہیں)کرنے والے طیارے اور دیگر آلات چین کی مدد سے بنائے منصوبوں پر ہوئی پیش رفت سے بھی غافل نہیں رہیں گے۔ چین اس کی وجہ سے ہم سے ناراض بھی ہوسکتا ہے۔

امریکی صحافی کو عمران خان صاحب نے جو انٹرویو دیا ہے اس نے میرے خیالات کو درست ثابت کیا۔ ’’عباسی صاحب‘‘ مگر اس انٹرویو کی کلپ بھیج کر مجھ ’’لفافہ‘‘ کو شرمسار کرنے کی اذیت میںمبتلا ہوگئے۔ ان کی اذیت نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ سوشل میڈیا پر حاوی ہوئے ’’عباسی صاحب‘‘ جیسے محبان وطن نے چند صحافیوں کو غیر صحافی ہوجانے کے بعد بھی ’’نشان زد‘‘ کررکھا ہے۔ وہ ان کے لکھے کالم پڑھے بغیر ہی اندھی نفرت سے مغلوب ہوئے ان کی بھد اڑانے میں مصروف رہتے ہیں۔ ’’عباسی صاحب‘‘ جیسے جنونیوں کو کو ن سمجھائے کہ ’’نہ چھیڑ ملنگاں نوں‘‘۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments