میجر جنرل منظور احمد کی فوج سے ’جبری برطرفی‘ کا معاملہ: ’صدر پاکستان کو خط لکھنے پر انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا گیا‘

اعظم خان - بی بی سی اردو، اسلام آباد


 

اسلام آباد ہائی کورٹ

پاکستان کی بری فوج سے اپنی جبری برطرفی کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چینلج کرنے والے سابق میجر جنرل منظور احمد نے دعویٰ کیا ہے کہ اپنی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے خلاف صدر پاکستان کو لکھے گئے خط کے بعد انھیں فوج کی جانب سے نشانہ بنایا گیا ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے فوج کے اس میجر جنرل کی اُن کی برطرفی کے خلاف درخواست واپس کرتے ہوئے انھیں لاھور ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کا تجویز دی ہے۔

گذشتہ جمعے فوج سے برطرف ہونے والے میجر جنرل منظور احمد نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنی برطرفی کے خلاف درخواست دائر کرتے ہوئے اسے فوجی حکام کا ایک ’غیر قانونی‘ اور ’غیر منصفانہ‘ اقدام قرار دیا تھا۔

اپنی درخواست میں برطرف کیے جانے والے افسر نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ آرمی میں میجر جنرل سے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی کا کوئی واضح اور شفاف طریقہ کار موجود نہیں ہے۔

برطرف ہونے والے افسر نے عدالت میں دائر کردہ اپنی درخواست میں سیکریٹری دفاع، ایڈجوٹینٹ جنرل، ملٹری سیکریٹری اور انسپکٹر جنرل آف آرمز کو فریق بنایا ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اس مقدمے کو ترجیجی بنیادوں پر سُنتے ہوئے ریمارکس دیے کہ یہ درخواست فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) کے ایک فیصلے کے خلاف ہے اسی لیے بہتر ہو گا کہ یہ درخواست بھی لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی جائے۔

عدالت کی آبزرویشن کے بعد برطرف میجر جنرل نے اپنی درخواست واپس لے لی اور یہ اعلان کیا کہ وہ لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ کے سامنے یہ درخواست دائر کریں گے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں میجر جنرل منظور احمد کے ساتھ ان کے وکیل عابد ساقی بھی موجود تھے۔ عدالت نے غور سے میجر جنرل کی استدعا سُنی اور پھر کیس نمٹا دیا۔

فوج

’درخواست میں جو الزامات عائد کیے گئے ان میں کوئی حقیقت نہیں ہے کیونکہ فوج میرٹ پر یقین رکھتی ہے‘

عابد ساقی کے مطابق راولپنڈی بینچ کے سامنے سابق لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی کا بھی کچھ اسی نوعیت کا کیس زیر سماعت ہے۔

فوج کے ترجمان سے اس پر مؤقف حاصل کرنے کے لیے رابطہ کیا گیا مگر انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

تاہم فوجی ذرائع کے مطابق برطرف کیے گئے میجر جنرل کی درخواست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے مسترد کیا ہے۔ اُن کے مطابق درخواست میں جو الزامات عائد کیے گئے ان میں کوئی حقیقت نہیں ہے کیونکہ فوج میرٹ پر یقین رکھتی ہے۔

فوج میں اس حوالے سے میرٹ کے نظام سے متعلق ہم نے سابق اعلیٰ فوجی افسران سے بھی بات کی ہے مگر پہلے ایک نظر برطرف کیے جانے والے میجر جنرل منظور احمد کے کیس پر۔

میجر جنرل منظور احمد کا کیس ہے کیا؟

اپنے مقدمے کی تفصیلات بی بی سی کو بتاتے ہوئے برطرف میجر جنرل منظور احمد نے بتایا کہ انھیں ملٹری سیکریٹری کی طرف سے گذشتہ برس 29 جون کو ریٹائرمنٹ کے احکامات موصول ہوئے جن میں یہ کہا گیا کہ وفاقی حکومت نے ان کی مدت ملازمت پوری ہونے پر ان کی معمول کی ریٹائرمنٹ کی منظوری دے دی ہے۔

اس کے بعد جنرل منظور احمد نے اپنی بھاگ دوڑ شروع کی اور اپنی ’جبری ریٹائرمنٹ‘ کے خلاف وفاقی حکومت کو گذشتہ برس 13 جولائی کو خط لکھا۔ مگر ان کے مطابق اُن کا یہ خط صدر پاکستان کو بھیجنے کے بجائے ملٹری سیکریٹری نے فوج کے ہیڈ کوارٹرز میں ایڈجوٹینٹ جنرل (اے جی) کو انکوائری کے لیے بھیج دیا۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ اے جی سیکریٹریٹ نے انھیں بلا کر دو آپشن دیے: اپنے خط (رپریزنٹیشن ٹو پریذیڈنٹ آف پاکستان) کو واپس لے لو یا پھر برطرفی کے ساتھ کورٹ مارشل کا سامنا کرو۔ اُن کے مطابق جب انھوں وہ ان آپرشنز کو زیر غور نہ لائے تو ڈپٹی ملٹری سیکریٹری نے اُن کی ریٹائرمنٹ اور کورٹ آف انکوائری کو التوا میں ڈال دیا۔

خیال رہے کہ یہ انکوائری کور کمانڈر منگلا لیفٹیننٹ جنرل شاہین مظہر محمود کی سربراہی میں کی جا رہی تھی اور برطرف کیے جانے والے میجر جنرل کو اس کور کے ہی سپرد کر دیا گیا۔

میجر جنرل منظور احمد کے مطابق ان کی وقت سے پہلے جبری ریٹائرمنٹ اور پھر انکار پر برطرفی کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی جو کہ آرمی ایکٹ کے بھی خلاف ورزی ہے اور بدنیتی ظاہر کرتی ہے۔

اُن کے مطابق اس کارروائی کے چھ ماہ بعد رواں برس انھیں نو مارچ کو آئی جی آرمز نے طلب کیا اور ملازمت سے برطرفی کا نوٹیفکیشن تھما دیا مگر اس میں بھی کوئی فرد جرم عائد نہیں کی گئی اور نہ وجہ بتائی گئی کہ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے۔

برطرف میجر جنرل کے مطابق یہی وہ نکتہ تھا کہ انھوں نے نہ صرف وفاقی حکومت بلکہ انصاف کے حصول کے لیے عدالت سے بھی رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔

میجر جنرل منظور احمد کے تحفظات تھے کیا؟

میجر جنرل منظور احمد کے مطابق انھوں نے فوج میں میجر جنرل سے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی کے طریقہ کار پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے موجودہ آرمی چیف کو بتایا تھا کہ اس ترقی کے لیے فوج میں مختلف خطوں یا صوبوں کا خیال نہیں رکھا جاتا، جس کے فوج کے ادارے پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

برطرف کیے گئے جنرل نے وفاقی حکومت کے سامنے بھی فوج میں میجر جنرل سے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے سے ترقی کے معیار پر سوالات اٹھائے اور کہا کہ اس طریقہ کار میں مختلف صوبوں، قومیتوں اور زبانوں کا خیال نہیں رکھا جاتا، جس سے فوج کے ادارے پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

میجر جنرل کے مطابق اُن کی تجاویز کو زیر غور لانے کے بجائے انھیں ملازمت سے ہی فارغ کر دیا گیا۔

میجر جنرل منظور احمد کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی 35 برس کی سروس میں فوج میں اہم ذمہ داریوں پر فرائض سر انجام دیے ہیں، جن میں چھ ماہ تک لیفٹیننٹ جنرل کے معیار کے ایک عہدے آئی جی آرمز کے طور پر بھی فرائض سرانجام دیے مگر بجائے اس کے انھیں اگلے رینک میں ترقی دی جاتی اس بات نے اعلیٰ بااثر افسران کو ان کے خلاف بھڑکا دیا اور انھوں نے پھر ان کی برطرفی کی سازش تیار کی۔

برطرف کیے گئے میجر جنرل ظہور احمد کے وکیل عابد ساقی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے مؤکل کے مطابق ان کے خلاف فوج میں گروپ بندی ہوئی اور انھیں ہدف بنا کر فوج سے نکالا گیا ہے۔ تاہم انھوں نے ابھی ان افسران کے نام نہیں بتائے جنھوں نے، اُن کے مطابق، ان کے خلاف دھڑے بندی کی۔

برطرف میجر جنرل نے الزام عائد کیا کہ تین سال قبل ان کے اور ان کے خاندان کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک منظم مہم چلائی گئی۔

خیال رہے کہ میجر جنرل منظور احمد کو ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید، لیفٹیننٹ جنرلز شمشاد مرزا، شاہین مظہر محمود اور ندیم ذکی منج کے ساتھ سنہ 2015 میں میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی۔

جنرل ظہور کے مطابق ان پر نہ تو کوئی سنگین ضابطہ کار کی خلاف ورزی کا کیس بنا، نہ انھوں نے کوئی اہم ملکی راز فاش کیے۔۔۔ اور نہ کبھی ان کے خلاف کوئی تحقیقات ہوئیں اور پھر بھی انھیں برطرف کر دیا گیا جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اعلیٰ عسکری حکام نے غیر قانونی قدم اٹھایا ہے۔

فوج میں ترقی کا طریقہ کار کیا ہے؟

فوج

عسکری حکام کے مطابق مطابق فوج میں میرٹ کا ایک نظام موجود ہے اور اہم ذمہ داریوں پر ترقی علاقائی بنیادوں پر نہیں دی جاتی بلکہ اوپن میرٹ کا ایک واضح نظام موجود ہے۔

ان کے مطابق صرف میجر جنرل منظور احمد ہی وہ واحد افسر نہیں ہیں کہ جن کو میجر جنرل سے لیفٹننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی نہیں دی گئی بلکہ فوج میں دو درجن سے زائد ایسے میجر جنرلز ہیں جنھیں حالیہ عرصے میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی نہیں دی گئی۔

سابق سیکریٹری دفاع نعیم خالد لودھی نے بی بی سی کو بتایا کہ فوج میں نچلی سطح پر بھرتی میں تو علاقائی (ڈیموگرافک) تنوع کا خیال رکھا جاتا ہے کہ کس علاقے، صوبے اور ضلع سے کتنے لوگ سپاہی، صوبیدار اور حوالدار لیے جائیں مگر ان کے مطابق افسران کی سطح پر معاملہ مختلف ہو جاتا ہے۔

‘سیکنڈ لیفٹیننٹ سے لے کر بریگیڈیئر تک تو ترقی کا ایک تحریری مسودہ موجود ہے مگر میجر جنرل بننے کے لیے بھی ’وار کورس‘ میں ایک خاص حد تک نمبرز حاصل کرنے ضروری ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق میجر جنرل سے لیفٹیننٹ جنرل بننے کے لیے کوئی واضح نظام تو موجود نہیں ہے مگر اس حوالے سے آرمی چیف دیگر اعلیٰ افسران سے مشاورت کے بعد کوئی فیصلہ کرتے ہیں کہ کسے اگلے رینک میں ترقی دی جانی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان میں فوجی افسران کو کیا کیا مراعات ملتی ہیں؟

میرا پلاٹ کب ملے گا: ’عوامی خدمت گار‘ مراعات کی دوڑ میں کیسے شامل ہوئے؟

فوج کا سابق جنرل کے بیٹے کے خلاف کارروائی کا دفاع: ’خطوط‘ عدالت میں پیش

سابق سیکریٹری دفاع کے خیال میں اس طرح ترقی دینے سے قبل بھی دیکھا جاتا ہے کہ جس افسر کو ٹاسک دیا گیا تھا وہ اس نے کس حد تک کامیابی سے حاصل کیا اور اس دوران اس کی کوئی مسائل تو سامنے نہیں آئے ہیں۔ ان کے مطابق فوج نے اب بلوچستان اور سندھ میں اس مقصد کے لیے اکیڈمیاں اور کالج قائم کیے تاکہ ان علاقوں کی بھی فوج میں ہر سطح پر نمائندگی کو بڑھایا جا سکے اور یہی وجہ ہے کہ فوج میں ایک بلوچی افسر نے اعزازی شمشیر حاصل کی ہے۔

جب فوج میں بھرتی ہوا تو والد نے مخالفت کی مگر پھر جنرل تک فوج نے بنایا

آرمی چیف

لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کا کہنا ہے کہ وہ لاہور میں رہتے تھے اور انجنیئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب انھوں نے فوج میں بھرتی ہونے کا فیصلہ کیا تو ان کے والد نے اس فیصلے کی مخالفت کی کیونکہ خاندان اور علاقے میں دور دور تک کوئی فوج میں بھرتی نہیں ہوا۔ ان کے مطابق بھرتی ہونے سے لے کر جنرل بننے تک سارا سفر فوج نے ہی طے کرایا اور یہ سب ایک شفافیت اور میرٹ کے نظام کے تحت ہی ممکن ہو سکا ہے۔

ان کے مطابق کچھ افسران کو بتایا نہیں جاتا مگر ان کے خلاف کچھ ایسی شکایات اور انٹیلیجنس کی اِن پُٹ ہوتی ہے کہ جس کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اب اس کی ترقی کا سفر روک دیا جائے۔ ان کے مطابق مثلاً ایسی شکایات بھی سامنے آتی ہیں کہ کوئی افسر فوج میں منافرت پھیلا رہا ہے۔ بعض دفعہ افسران سے پوچھا بھی نہیں جاتا اور کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے مگر بعض دفعہ بلا کر جواب طلبی بھی کی جاتی ہے۔

سابق ایڈجوٹینٹ جنرل امجد شعیب کے مطابق تجاویز دینے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی ان پر عملدرآمد کی بھی ضد کر بیٹھے کیونکہ عملدرآمد حکام بالا اور وفاقی حکومت کا کام ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32507 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp