نئے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کون ہیں؟


آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی 1960 میں ایران کے شہر مشہد میں پیدا ہوئے آپ کا شجرہ نسب دونوں طرف سے حسینی سادات سے متصل ہے آپ ابھی 5 سال کے تھے کہ والد گرامی کا انتقال ہو گیا، سید ابراہیم رئیسی نے درد یتیمی کے سائے میں اپنی سکول اور دینی تعلیم کا آغاز کیا ساتھ کم سنی میں گزر اوقات کے لیے محنت مزدوری بھی کرتے رہے اور پھر 15 سال کی عمر میں قم تشریف لے گئے اور تیزی سے اسلامی علوم و معارف کی رائج سطوح طے کرنے لگے۔

ابراہیم رئیسی نے دینی تعلیم میں اجتہاد کی ڈگری کے حصول کے ساتھ، رائج یونیورسٹی کے مراحل میں حقوق بین الملل (International law) میں ایم فل اور پھر فقہ و حقوق خصوصی (private law) میں اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ سید ابراہیم رئیسی کے امتیازات میں سے ہے کہ شہید بہشتی اور شہید مرتضی مطھری اور جیسی جید شخصیات آپ کے اساتذہ کی فہرست میں شامل ہیں آپ حقوق (law) کے موضوع پر کئی کتابوں کے مصنف اور ساتھ تہران میں فقہی علوم کی فوق تخصصی سطوح میں درس خارج کے استاد بھی ہیں، ابراہیم رئیسی، ایرانی سپریم لیڈر کو منتخب کرنے والی مجلس خبرگان ( Council of Experts) کے نائب رئیس ہیں آپ کی بیگم، محترمہ جمیلہ علم الھدی، فلسفہ تعلم و تربیت میں پی ایچ ڈی ہولڈر اور ایران کی پہلے درجے کی خاتون اسکالر ہیں۔

1979 میں ایران میں انقلاب کے بعد آیت اللہ ابراہیم رئیسی کو 20 سال کی عمر میں کرج شہر کی عدالت میں ڈسٹرکٹ اٹارنی تعینات کیا گیا۔ آیت اللہ خمینی نے آپ کے کام کی سرعت اور کارکردگی دیکھ کر 27 سال کی عمر میں کئی صوبوں کی عدالتی نگرانی آپ کے حوالے کر دی۔ سید ابراہیم رئیسی کو 2015 میں عدلیہ کی گوناگوں مصروفیات کے باوجود ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے متولی حرم امام رضا ع مقرر کر دیا وہاں ابراہیم رئیسی کی دن رات انتھک کوششوں نے ایران میں ایک غوغا برپا کر دیا۔ حرم امام رضا ع سے کئی تجارتی کمپنیاں، فیکٹریاں، فارمز، سپیشل تربیتی کورس، 2800 ثقافتی فعال گروہ اور دیگر کئی اصلاحات متعارف کروائی گئیں یہاں تک کہ یہ جملہ مشہور ہو گیا کہ شاید ہی ایران میں کوئی ایسا گھر ہو گا کہ جس میں حرم امام رضا ع کی اپنی مصنوعات کی نشانی نہ ہو۔

ابراہیم رئیسی کو 2019 میں ایران کا چیف جسٹس تعینات کیا گیا جہاں انھوں نے عدالتی اصلاحات بروئے کار لاتے ہوئے فوری انصاف کی فراہمی کے لئے کئی نئے شعبے اور ایپس متعارف کروائیں۔ ابراہیم رئیسی کو کامیابی کے بعد بین الاقوامی معاملات میں امریکہ یعنی فائیو پلس ون سے مذاکرات کا مرحلہ درپیش ہو گا اور ان کی قدامت پسند شخصیت کے سبب سے اس میں ایران کا موقف مزید سخت ہو گا اور اگر یہ مذاکرات ناکام ہو گئے تو ایران کی معیشت جو کمزور ہے اس کو سنبھالا دینا مشکل ہو جائے گا۔ ایران کا ایران سے باہر اثر و رسوخ مزید بڑھ جائے گا کیوں کہ اب پاسداران انقلاب اور ایوان صدر ایک صفحہ پر ہوں گے۔ اس سے قبل محسوس یہ ہوتا تھا کہ ان دونوں میں اختلاف موجود ہیں جس کا واضح ثبوت جواد ظریف کا حالیہ واقعہ ہے۔

دو ہزار سولہ میں مقالہ پڑھنے کی غرض سے میں ایران میں موجود تھا تو اس کے بعد مندوبین کی ایک وفد کی صورت میں ابراہیم رئیسی سے ملاقات کروائی گئی تھی اور اس ملاقات میں یہ واضح طور پر محسوس ہوا کہ ان کی عالمی امور پر بھی گہری نظر ہے۔ وہاں یہ بھی مسئلہ ہے کہ حزب اختلاف کو تو وہاں پر موجود رہنے ہی نہیں دیا گیا ہے۔ اعتدال پسند اور قدامت پسند وہاں پر موجود ہیں مگر ان میں سے بھی اعتدال پسندوں کو انتخابات لڑنے سے ہی روک دیا گیا ہیں۔ اور اب تو قدامت پسندوں کے مابین بھی اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔ اور ان تمام معاملات سے نئے صدر کو نبرد آزما ہونا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments