ڈو مور سے نو مور اور پھر ایبسلوٹلی ناٹ تک


روس کی افغانستان پر یلغار سے نمٹنا ہو یا پھر نائن الیون کے بعد افغانستان پر چڑھائی کرنی ہو امریکہ پاکستان کا استعمال کرتا آیا ہے۔ پہلے روس ٹوٹا اور افغانستان سے بھاگا مگر پاکستان کے حصہ میں کلاشنکوف کلچر آیا اسی طرح سے امریکہ کی افغانستان کو تباہ و برباد کرنے کی کوشش تو کامیاب نہ ہوئی، مگر پاکستان کو اس جنگ کی قیمت دہشتگردی کی عفریت کے ہاتھوں دینا پڑی۔ جس میں 70 ہزار سے زائد جوان اور عام شہریوں کی شہادت کی صورت میں ادا کرنا پڑی، مالی نقصان بھی الگ کیونکہ امریکا کو اڈے دینے، افغانستان میں رسد کے لئے اپنے راستے دینے سے حاصل ہونے والے فنڈز سے زائد کا نقصان ہوا۔ اب چونکہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو 20 سال کی لاحاصل جنگ، ہزاروں فوجیوں اور اربوں کے وسائل جھونکنے کے بعد ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا یا یوں کہئیے کہ دم دبا کر بھاگنا پڑ رہا ہے تو ایک بار پھر پاکستان کا کندھا استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔

مگر ہماری سیاسی و عسکری قیادت نے اس دفعہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت یا پھر افغانستان میں کسی بھی قسم کی کارروائی کے لئے پاکستان کی سرزمین کے استعمال کے خام خیال کو بھی رد کر دیا۔ وزیراعظم پاکستان کے امریکی ٹی وی کو دیے جانے والے انٹرویو میں اینکر کے امریکہ کو اڈے دینے یا سی آئی اے کو پاکستانی سرزمین سے کارروائیوں کی اجازت دینے کے سوال کا دو ٹوک جواب ”ایبسولوٹلی ناٹ“ قطعاً نہیں کی صورت میں دیا۔ اینکر نے ایک حیرت کا اظہار کرتے ہوئے جب سوال دہرایا تو وزیراعظم پاکستان نے ایک بار پھر واضح طور پر ایسے کسی امکان کو بھی رد کر دیا۔ بلاشبہ امریکہ کی ڈکٹیشن کو نہ کرنے اور اپنی سرزمین کو استعمال نہ کرنے دینے کے حوالے سے دو ٹوک انکار کو سفارتی حلقوں اور پاکستانی قوم کی جانب سے سراہا جا رہا ہے۔

ایک سینئر سفارتکار نے وزیراعظم عمران خان کے اس انٹرویو کو پالیسی بیان قرار دیتے ہوئے سراہا کہ آزادی کے بعد سے پہلی دفعہ پاکستانی قیادت کی جانب سے امریکا کے مفادات کے ہاتھوں کھیلنے سے انکار کیا گیا ہے۔ اس سوال پر کہ کیا اس انکار سے امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں کوئی منفیت آ سکتی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پہلے ہی امریکا کی جنگ لڑتے ہوئے جانی اور مالی نقصان برداشت کرچکا ہے جس کا اب دنیا کو ادراک ہو چکا ہے۔ اب جبکہ امریکہ کو افغانستان میں امن برقرار رکھنے اور افغان طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کیے رکھنے کے لئے پاکستان کی ضرورت ہے تو امریکن حکومت ایسا کوئی بھی اقدام نہیں کرے گی جس سے پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات خراب ہوں

ماہر افغان امور اور سینئر تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی نے کہا کہ افغان طالبان اور افغان حکومت کے مابین کسی بھی معاہدے تک پہنچنے سے پہلے امریکا کا انخلاء افغانستان کے لئے کسی خطرے سے خالی نہیں ہوگا۔ ان کے مطابق بین الاقوامی فوجوں کے انخلاء کے عمل کو افغان طالبان کی جانب سے اپنی فتح قرار دیا جا رہا ہے اور بغیر کسی سیاسی حل کے افغانستان ایک بار پھر خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے۔ رحیم اللہ یوسفزئی کے مطابق پاکستانی قیادت سے نہ صرف بیانات بلکہ عملی طور پر خود کو افغانستان کے سیاسی عمل اور افغان طالبان کی کارروائیوں سے دور رکھا ہے۔ جس کا مقصد یہ واضح پیغام دینا تھا کہ پاکستان اب کسی بھی محاذ آرائی کا حصہ بھی نہیں بنے گا۔

خلفشار کا شکار اشرف غنی حکومت ایک متنازعہ انتخاب کے ذریعے عمل میں آئی جس پر خود افغانستان کی قیادت میں تحفظات پائے جاتے ہیں۔ ایسے میں وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بلاشبہ مدبرانہ بیان دیتے ہوئے بین الاقوامی دنیا خصوصاً امریکا کو عقل و دانش کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کرتے ہوئے مذاکرات اور سیاسی حل پر زور دیا بلکہ افغان پناہ گزینوں کی طرف بھی توجہ مبذول کروائی ہے۔ وزیراعظم نے دوسرے الفاظ میں امریکہ کو اپنا پھیلا گند خود صاف کرنے کا مشورہ دیا ہے کہ بھئی اب ہم امن چاہتے ہیں محاذ آرائی نہیں چاہتے، ہم اب کسی بھی قسم کی محاذ آرائی کا حصہ بننا نہیں چاہتے، اب آپ کو انخلا سے قبل افغان مسئلے کا سیاسی حل نکالنا ہوگا۔

وزیراعظم نے مغربی دنیا کو منافق قرار دیتے ہوئے مسئلہ کشمیر پر بھی امریکا اور یورپ کی خاموشی کو افسوسناک قرار دیا۔ وزیراعظم نے مغربی ممالک سے ڈومور کا مطالبہ کرتے ہوئے اسلامو فوبیا، مسئلہ کشمیر اور فلسطین کے حل کے لئے اقدامات پر زور دے دیا۔ عمران خان نے مغربی ممالک کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سوال کیا کہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں لاکھوں کشمیری شہید ہو چکے، کشمیریوں کو کیوں نظرانداز کیا جا رہا ہے؟

عمران خان کی جانب سے بلاشبہ اسلامو فوبیا کے بعد افغان امن عمل اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو بھرپور اجاگر کرتے ہوئے پہلی دفعہ ریاست پاکستان کی جانب سے باقی دنیا سے ڈومور کا مطالبہ کیا ہے۔ وگرنہ ہماری قربانیوں کو تسلیم کیے جانے کے بجائے ہمیشہ انڈین پروپیگنڈا اور لابیز کے زیراثر مغربی ممالک میں منفی تاثر ہی پایا جاتا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments