ایف اے ٹی ایف: ایف آئی اے تعمیراتی شعبے میں مبینہ ممنوعہ ذرائع سے سرمایہ کاری کی تحقیقات کیوں کر رہی ہے؟

شہزاد ملک - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


رئیل اسٹیٹ

پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ملک کے نجی تعمیراتی شعبے میں ممنوعہ ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدن سے کی گئی سرمایہ کاری سے متعلق تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔

ایف آئی اے نے گذشتہ چند ماہ کے دوران نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے والے ایسے افراد کے کوائف اکھٹے کرنے شروع کر دیے ہیں جن کا ماضی میں اتنے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔

وزارت داخلہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ اقتصادی امور کی وزارت نے وزارت داخلہ کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرتے ہوئے آگاہ کیا تھا کہ ایف اے ٹی ایف کے ارکان نے یہ معاملہ اٹھایا ہے کہ پاکستان کے نجی تعمیراتی شعبے میں ان افراد نے بھی سرمایہ کاری کی ہے جن کے مبینہ طور پر کالعدم تنظیوں کے ساتھ بلواسطہ یا بلاواسطہ تعلقات رہے ہیں۔

وزارتِ داخلہ کو یہ بھی بتایا گیا کہ یہ افراد شدت پسند تنظیموں کو ممکنہ طور پر ہنڈی کے ذریعے مالی معاونت بھی فراہم کرتے رہے ہیں۔

اہلکار کے مطابق وزارت داخلہ کے حکام نے ایف آئی اے کے سربراہ کو اس معاملے کی تحقیقات کر کے رپورٹ جمع کروانے کا حکم دیا ہے۔ اُن کے مطابق ایف آئی اے کے حکام کو اس بارے میں رپورٹ جلد از جلد مکمل کر کے پیش کرنے کا کہا گیا ہے تاکہ اس رپورٹ کو اس ماہ کے آخر میں ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں پیش کیا جا سکے۔

اہلکار کے مطابق تعمیراتی شعبے میں ممنوعہ ذرائع سے سرمایہ کاری کرنے کے معاملے میں اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور اور کراچی پر زیادہ توجہ دی گئی ہے کیونکہ زیادہ تر تعمیراتی سرگرمیاں ان شہروں میں جاری ہیں۔

ان شہروں میں تعینات ایف آئی اے کے ڈائریکٹرز کو تفتیش کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔

ایف آئی اے کے ذرائع کے مطابق ایف بی آر اور محکمہ مال کے افسران اس معاملے میں ایف آئی اے کی معاونت کر رہے ہیں اور اس ضمن میں مختلف نجی ہاوسنگ سوسائٹیز میں گذشتہ دو، تین ماہ کے دوران بڑے پیمانے پر خریدے گئے رہائشی اور کمرشل پلاٹس کی تفصیلات بھی معلوم کی جا رہی ہیں اور جن افراد نے یہ رہائشی اور کمرشل پلاٹس خریدے ہیں ان کے کوائف بھی حاصل کیے گئے ہیں۔

پاکستان سیمنٹ

اسلام آباد اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی میں نجی تعمیراتی شعبے سے وابسطہ امجد جاوید کا کہنا ہے کہ چند روز قبل ایف آئی اے کی ٹیم ان کے پاس آئی تھی اور ان سے ان افراد کے بارے میں معلومات حاصل کی تھیں جنھوں نے ان کے توسط سے مختلف ہاؤسنگ سوسائٹیز میں رہائشی اور کمرشل پلاٹس خریدے تھے۔

ایف آئی اے کے ایک اہلکار کے مطابق تحقیقات کے دوران کچھ ایسے نام سامنے آئے ہیں جنھوں نے اس سے پہلے اتنے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری نہیں کی تھی اور اس کے علاوہ ایف بی آر کے پاس بھی ان کا ریکارڈ موجود نہیں ہے۔

اہلکار کے مطابق ان افراد کو تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہونے کے بارے میں کہا گیا ہے تاہم جب ان سے افراد کے ناموں کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ جب تک تحقیقات مکمل نہ ہو جائیں تو اس وقت تک ان افراد کے نام ظاہر نہیں کیے جا سکتے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان منتقل ہونے والی رقوم میں اضافہ: کیا ہنڈی، حوالہ میں کمی آئی ہے؟

ایف اے ٹی ایف: کیا پاکستان گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیاب ہو پائے گا؟

راولپنڈی رنگ روڈ منصوبہ تعمیر سے قبل ہی متنازع کیوں ہو گیا ہے؟

سیمنٹ کی فروخت میں اضافہ کیا تعمیراتی شعبے میں تیزی کا مظہر ہے؟

انھوں نے کہا کہ راولپنڈی رنگ روڈ سے متصل ہاؤسنگ سوسائٹیز میں جو حالیہ سرمایہ کاری ہوئی ہے اس کی بھی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے کہ کہیں ان میں ان افراد یا تنظیموں نے سرمایہ کاری تو نہیں کی جن پر شدت پسند تنظیموں کو مالی معاونت فراہم کرنے کا الزام ہے۔

ایف آئی اے کے اہلکار کے مطابق اس معاملے کو بھی دیکھا جارہا ہے کہ ان پلاٹوں کی خریداری کے لیے ٹرانزیکشن ہنڈی یا غیر قانونی ذرائع سے تو نہیں کی گئی۔

وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ جرائم کا پیسہ ہاؤسنگ سمیت کسی بھی سیکٹر میں لگے گا تو اس کی تحقیقات ضرور ہوں گی اور ایف آئی اے بھی یقینی طور پر اس نقطے کو سامنے رکھتے ہوئے تحقیقات کر رہی ہو گی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اگر اداروں کو یہ معلوم ہو جائے کہ غیر قانونی ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی دہشت گردی یا ملک دشمن سرگرمیوں میں استعمال ہو گی تو ادارے ان معاملات کی چھان بین کرنے کے پابند ہیں۔

رئیل اسٹیٹ

انھوں نے کہا کہ حکومت نے سنہ 2019 میں جو ٹیکس ایمنسٹی کا اعلان کیا تھا اس میں یہ واضح طور پر کہا گیا تھا کہ جرائم سے حاصل کی جانے والی آمدن کو کسی طور پر بھی تحفظ حاصل نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس سکیم سے مستفید ہو سکتے ہیں۔

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف کے معاملات کو دیکھنے کے لیے ایک سیکریٹریٹ بنایا گیا ہے جس میں تمام معاملات کی نگرانی کی جاتی ہے، انھوں نے کہا کہ ایف آئی اے بھی اپنی تحققیات مکمل کر کے رپورٹ اسی سیکریٹریٹ میں جمع کروائے گی۔

انھوں نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں اس تنظیم کی جانب سے پاکستان کے بارے میں جو ریمارکس یا آبزرویشن دی جاتی ہیں وہ زیادہ تر اخباری خبروں سے ہی لی جاتی ہیں۔

واضح رہے کہ ایف اے ٹی ایف کا اجلاس رواں ماہ کے آخر میں پیرس میں ہونے جا رہا ہے جس میں ایف اے ٹی ایف کی جانب سے مجوزہ 27 نکات میں سے تین پر ہونے والی پیش رفت کو دیکھا جائے گا۔

اقتصادی امور پر نظر رکھنے والے صحافی خلیق کیانی کا کہنا ہے کہ یہ تین نکات پراسیکیوشن یعنی مقدمات کے فیصلوں سے متعلق ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اگرچہ عدالتی نظام اور سنگین نوعیت کے جرائم کے جلد از جلد فیصلوں سے متعلق کوئی قانون سازی تو نہیں ہوئی لیکن اس کے باوجود ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان نے شدت پسندوں کی مالی معاونت فراہم کرنے کو روکنے کے معاملے پر کافی پیش رفت کی ہے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان کا عدالتی نظام افغانستان سے بہت بہتر ہے جبکہ انڈیا سے کسی طور پر کم نہیں ہے لیکن یہ معاملہ غور طلب ہے کہ افغانستان اور انڈیا گرے لسٹ میں نہیں ہیں جبکہ پاکستان کو کافی عرصے سے اس لسٹ میں رکھا ہوا ہے۔

فیڈریشن آف رئیلٹرز آف پاکستان کے صدر سردار طاہر محمود کا کہنا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے خدشات کو سامنے رکھتے ہوئے نجی تعمیراتی شعبے سے وابستہ 17 ہزار افراد نے خود کو ایف بی آر میں رجسٹرڈ کروایا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس شعبے سے وابستہ افراد نے حکومت کو اپنے تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔ انھوں نے کہا کہ نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز میں اگر کوئی مشکوک ٹرانزیکشن ہو تو اس بارے میں ایف بی آر کے حکام پہلے ہی آگاہ ہوتے ہیں کیونکہ کسی بھی پلاٹ کی خرید و فروخت کے سلسلے میں ایڈوانس ٹیکس جمع کروایا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ کیش ٹرانزیکشن رپورٹ یعنی (سی ٹی آر ) کے بارے میں متعلق حکام آگاہ ہوتے ہیں۔

سردار طاہر محمود کا کہنا تھا کہ ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کے معاملات کو دیکھتے ہوئے رئیل سٹیٹ کے کاروبار سے منسلک افراد ایف بی آر کے حکام کو ہر ماہ دعوت دیتے ہیں جو انھیں کسی بھی ممکنہ مشکوک ٹرانزیکشن سے بچنے کے بارے میں آگہی دیتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ایف بی ار کے حکام ریئل سٹیٹ کے کاروبار سے وابستہ افراد کے علاوہ سونے کے کاروبار سے منسلک افراد سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل بھی ریئل سٹیٹ اور سونے کے کاروبار سے وابستہ افراد نے ایف اے ٹی ایف کے ایشا پیسفک کے نمائندوں سے بھی ملاقاتیں کی تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp