مفتی معصوم کی صفائی اور فیمنسٹ شیلا حامد کی ہٹ دھرمی


مفتی معصوم نے فیمنسٹ شیلا حامد کو غصے سے دیکھا اور پھر لال پیلے ہو کر بولے

دیکھیں آپ یہ کیوں یہ غلط بات اچھال رہی ہیں کہ میں نے اپنے طالب علم کا ریپ کیا ہے۔ آپ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ لبرل ہمسایوں کے لڑکے نے بھی تو سکول میں اپنی کلاس فیلو کو آنکھ ماری تھی؟ غضب خدا کا، اس کی عمر دیکھیں اور حرکتیں دیکھیں۔ ابھی تین سال کا ہے اور یہ لچھن دکھا رہا ہے۔ بڑا ہو کر تو نہ جانے کیا غضب نہیں ڈھائے گا۔ مجھے ہرگز حیرت نہیں ہو گی اگر وہ یورپ چلا جائے اور ادھر کھلم کھلا بدکرداری پر اتر آئے۔

یورپ کے لوگ تو سیکس کے دیوانے ہیں۔ راہ چلتے ہی اس مذموم حرکت میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ نہ انہیں رشتوں کا پاس ہے نہ اخلاقیات کا، بس ہر وقت سر پر سیکس سوار رہتی ہے۔ قریبی رشتوں تک کا احترام نہیں کرتے، استاد شاگرد کا رشتہ تک پائمال کر دیتے ہیں حالانکہ استاد روحانی باپ ہوتا ہے اور شاگرد روحانی بیٹا۔

آپ لوگ اس لڑکے کے سنگین جرم کو تو نظرانداز کرتے ہیں مگر مجھے ایک معمولی سی بات پر یوں مطعون اور بدنام کرتے ہیں۔ لگتا ہے کہ آپ کو مقدس لوگوں سے کوئی دشمنی ہے اور آپ اپنے بغض کا اظہار کرنے سے باز نہیں آ پاتے۔

جہاں تک اس لڑکے کی بات ہے جس کے ریپ کا الزام لگایا جا رہا ہے، تو سچ بات یہ ہے کہ میں نے اس کا نہیں بلکہ اس نے میرا ریپ کیا ہے۔ بلکہ یہ ملعون تو مجھے بھارتی ایجنٹ لگتا ہے جسے ابھی نندن نے تربیت دی ہو گی۔ اسی وجہ سے اس نے مجھے چائے کا فنٹاسٹک کپ دیا جس کی وجہ سے میں نشے میں آ گیا تھا اور پھر مجھے اب ڈھائی سال بعد پتہ چلا کہ اس لڑکے نے مجھے مدہوش کر کے میرا ریپ کر دیا ہے۔

یہ لڑکا ہے ہی ایسا۔ اس کی بے شمار شکایات ملتی ہیں۔ ابھی تین برس پہلے ہی اس نے کرکٹ کے میدان میں پہلے تو میرے بڑے بیٹے کو اپنا بیٹ بال دکھا کر للچایا۔ پھر زبردستی وہ بیٹ بال چھنوا کر جھگڑا کرنے لگا۔ اور بات اس حد تک بڑھا دی کہ پہلے اپنا رخسار میرے بیٹے کے تھپڑ پر مارا، پھر اپنا پیٹ میرے بیٹے کے مکے پر پوری قوت سے دے مارا، پھر اپنی جانگھیں اس کے گھٹنے پر زور سے رسید کر دیں، اس ظالم نے نازک اعضا کا خیال بھی نہیں کیا اور میرے بیٹے کا گھٹنا اب بھی سردیوں میں درد کرنے لگتا ہے۔ اور آخر میں اپنا سر میرے بیٹے کے ہاتھ میں موجود اینٹ پر دے مارا اور اپنا خون اس کے کپڑوں پر پھینک کر انہیں ناپاک کر دیا۔

اور اب اس کے حوصلے اس قدر بڑھے ہیں کہ مجھے چائے پلا کر اپنی غرض پوری کرنے لگا ہے۔ اور دیدہ دلیری دیکھیں کہ وہ یہ مذموم حرکت جمعۃ المبارک کی صبح دس گیارہ بجے کرتا تھا اور مجھے اتنا زیادہ نشہ دیتا تھا کہ مجھے خبر تک نہیں ہوتی تھی کہ میں کیا کر رہا ہوں اور اتنا مزا کیوں آ رہا ہے۔ اب تو مجھے یہ فکر ہو گئی ہے کہ اس کے دو گھنٹے بعد جمعے کے خطبات میں خدا جانے میں اپنے معتقدین کو کیا کیا بتاتا رہا ہوں گا۔ ایسی کوئی ریکارڈنگ سامنے آ جائے تو یاد رکھیں کہ اس کی وجہ وہ نابکار لڑکا ہے۔ بہرحال ان ڈھائی تین سالوں میں کسی نے نوٹ نہیں کیا کہ میں نشے کی کیفیت میں خود فراموشی کی حالت میں تھا اور صرف مجھے ہی اس بات کا پتہ تھا۔

اب تعجب تو اس ملعون میڈیا پر ہے۔ بجائے اس کے کہ حق کا یعنی میرا ساتھ دے، اس نابکار لونڈے کی حمایت کر رہا ہے جس نے اس بات تک کا خیال نہیں کیا کہ استاد کے عیب کو چھپانا چاہیے۔ کیا شاگرد ایسے ہوتے ہیں؟ میری بات لکھ لیں کہ اس نے ایسا مغرب کے ویزے کے حصول کے لیے کیا ہے۔ پرچہ تو اس نے پہلے ہی کٹا دیا ہے کہ اسے جان کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں، ڈھائی سال پرانی بات کا ذکر کر کے وہ کم عمری کا بہانہ بھی کرے گا، اور پھر وہ یورپ جا کر رنگ رلیاں منانے اور ہم جنس پرستی میں مشغول ہو جائے گا۔ یاد رکھیں کہ اس جرم کی معافی نہیں ہے، وہ دنیا میں بھی ایڈز کا شکار ہو گا اور جہنم کی آگ میں بھی جلے گا۔

اور اگر اسے ایسی ہی آگ لگی ہوئی تھی تو یوں استاد کو یوں اپنے نشے میں مبتلا کرنے کی بجائے جائز راستہ اختیار کر لیتا۔ ہم اسی لیے تو کہتے ہیں کہ کم عمری میں شادی کر دینی چاہیے اور آپ جیسے مغرب زدہ لوگ ہی اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ اگر اس کی شادی ہوئی ہوتی تو وہ گناہ و بدکاری میں نہ پڑتا۔ مجھے ہی دیکھ لیں، میں نے جلدی شادی کر لی تھی اور مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے کبھی بقائمی ہوش و حواس ایسا گناہ کیا ہو۔ آپ ہنس کیوں رہی ہیں؟ میں تیسری بار قرآن پر ہاتھ رکھ کر حلفاً یہ بات کہتا ہوں کہ میں نے بقائمی ہوش و حواس ایسا کچھ نہیں کیا۔ اور یقین مانیں کہ اس نابکار لڑکے کو دیکھ کر اگر میں ہوش و حواس کھو بیٹھا تو یہ اسی کی غلطی ہے۔ آخر وہ اتنا خوبصورت کیوں ہے؟

بہرحال شکر ہے کہ دنیا نیک لوگوں سے خالی نہیں ہے۔ جہاں آپ لبرلوں فیمنسٹوں کی وجہ سے مجھے عزت بچانے کے لیے اپنا مدرسہ چھوڑ کر فرار ہونا پڑا تو وہیں لاہور سے لے کر میانوالی تک ایسے مدارس بھی موجود ہیں جنہوں نے مجھے اور میرے بیٹوں کو پناہ دی۔ افسوس پولیس آپ کے دباؤ میں آ کر مجھے پکڑنے میں کامیاب ہو گئی لیکن آپ دیکھ لیں کہ آخر میں مجھ پر کچھ ثابت نہیں ہو سکے گا اور میں باعزت بری ہونے میں کامیاب ہو جاؤں گا۔ لیکن آدمی زندگی میں سبق سیکھتا ہے، آئندہ میں دیکھ بھال کر شاگرد منتخب کروں گا کہ دوبارہ کوئی ایسا فاسق و فاجر مجھے بدنام نہ کرے اور آئندہ میں چائے کی بجائے صرف شربت روح افزا پیا کروں گا۔

آپ یوں ہنس کیوں رہی ہیں؟ یاد رکھیں کہ آپ کے کپڑے درست نہیں ہیں۔ ان کی وجہ سے کوئی بھی شریف آدمی بہک سکتا ہے۔ اس کا دل مچل اٹھے گا۔ وہ شیطان کی باتوں میں آ جائے گا۔ شکر ہے کہ میں کردار کا اور ازار بند کا پکا ہوں اور بقائمی ہوش و حواس غلط کام نہیں کرتا ورنہ غضب ہو جاتا۔ ویسے تمیز تہذیب تو آپ کو چھو کر نہیں گزری۔ انٹرویو کے لیے بلایا ہے، اتنا بھی نہ ہوا کہ مہمان کو چائے کا ایک کپ ہی پلا دیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments