جیسے دوستوں کی غلطیاں معاف کرتے ہیں، اپنی غلطیاں معاف کرنا بھی سیکھیں


میری دوستوں کا کہنا ہے کہ میں پر امید تو رہتی ہوں لیکن احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتی۔ میں کچھ بھی نیا کرنے سے پہلے ماضی میں غوطہ زن ہو جاتی ہوں اور ماضی میں کی گئی غلطیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اگلا قدم اٹھاتی ہوں۔ لیکن جتنا چوکس رہتی ہوں اتنا ہی خوشیوں سے فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ جب اہم فیصلوں کا وقت آتا ہے تو فیصلہ کر لینے کے بعد بھی میں چوائسز کا تجزیہ کرتی رہتی ہوں۔ اگر مطلوبہ نتائج نہ ملیں یا پھر وہ فیصلے درد کا باعث بننے لگیں تو میں قسم کھا لیتی ہوں کہ میں پھر سے خود کو اس اذیت میں مبتلا نہیں کروں گی۔ خود کو ممکنہ تکلیف سے بچانے کے لئے پہلے پہل تو یہ اقدام ٹھیک رہا لیکن آہستہ آہستہ اس نے مجھے دنیا سے دور کر دیا، میری نمو کا سفر رک سا گیا۔ اگر کسی رشتے نے میرے لئے تکلیف کا سامان پیدا کیا تو میرا لوگوں سے اعتماد ہی اٹھ گیا۔ میں نے ایک ملاقات کے بعد لوگوں کو دوسری ملاقات کا موقع دینا ہی چھوڑ دیا۔ کیونکہ میری اندر کی گھنٹی بجتی ہی رہتی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں کی گئی غلطیوں سے سیکھنا اچھی بات ہے، لیکن میں شاید حد سے زیادہ محتاط ہو چکی تھی۔ میں نے سوچا بجائے اس کے میں بعد میں ندامت محسوس کروں، میں نے حقیقی زندگی میں خطرات مول لینا ہی چھوڑ دیے۔ میری نیت صاف تھی لیکن میں ایک خود ساختہ حفاظتی حصار میں قید رہنے لگی تھی۔ اگر میں ایک لمحے کے لئے بھی خود کو اس سے باہر نکالتی تو ماضی کے پچھتاوے مجھے آن گھیرتے۔ میرا کوئی بھی فیصلہ غلط نہ ہو، اس لئے میں ممکنہ خطرات کی کھوج میں لگی رہتی، حالانکہ بعض اوقات کوئی حقیقی خطرہ موجود بھی نہیں ہوتا تھا۔ میں چونکہ ماضی کی تکلیفوں کی گرفت میں رہتی ہوں، اسی لئے حال میں میسر آنے والے مواقعوں کو قبول نہیں کر پاتی۔

جو بھرپور انداز میں جیتے ہیں، ان کے لئے مواقعوں اور انتخابات کی کمی نہیں ہوتی۔ ان میں سے کچھ ہمارے لئے اچھے ثابت ہوتے ہیں اور کچھ سازگار نہیں ہوتے۔ لیکن اکثرو بیشتر کچھ لوگ میرے جیسے ہوتے ہیں جو ماضی کی غلطیوں پر خود کو معاف نہیں کر پاتے ؛ ”اگر میں نے اس جاب ٹیسٹ کی تیاری مزید اچھی طرح کی ہوتی تو وہ نوکری آج میرے پاس ہوتی،“ اگر میں نے فلاں کام کیا ہو تا تو یہ ہو جاتا، وہ ہو جاتا۔

تاسف، افسوس، ندامت بعض اوقات انسان کو تھکا دیتے ہیں۔ میرے حالیہ دنوں کی چاشنی بھی کہیں کھو کر رہ جاتی ہے جب میں ماضی کی الجھنوں میں الجھی رہتی ہوں۔ اس سب سے کیا ہو تا ہے، ذہنی صحت بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ حال ہی میں ہونے والی تحقیقات سے بھی یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ جب انسان ماضی کی تلخیوں کو بھلاتا نہیں ہے اور ان پر نادم رہتا ہے تو اس کی سیلف اسٹیم بری طرح متاثر ہوتی ہے، ہمیں یہ بات سمجھنا ہو گی کہ ہر کسی کا ماضی ہو تا ہے۔ ہمارے اچھے برے تجربات ہی تو ہمیں، ”ہم“ بناتے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ ماضی کی تلخیوں اور تجربات کا ہنس کر مقابلہ کیا جائے اور انہیں اپنے حال اور مستقبل کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے دیا۔

بعض اوقات جب حالات ساز گار نہیں ہوتے تو ہم پیچھے دیکھنے لگتے ہیں ؛میں یہ کر سکتی تھی، مجھے یہ کرنا چاہیے تھا۔ میری دوست کی شادی کو بارہ سال ہو چکے ہیں، دو بچے ہیں، شوہر کے ساتھ حالات اتنے بدتر ہو چکے تھے کہ اب خلع کا کیس چل رہا ہے۔ شوہر نے رات بارہ بجے تشدد کر کے گھر سے نکال دیا۔ فیس بک پر پرانی تصویریں دیکھتی ہے تو افسوس اسے آن گھیرتا ہے، پریشان ہو جاتی ہے کہ اگر اس نے ایک اور موقع دیا ہوتا، اگر اس نے فلاں حکمت عملی اپنائی ہو تی، اگر اس نے فلاں وقت میں فلاں کام کیا ہوتا تو حالات مختلف ہو سکتے تھے۔ دراصل ہم یہ تصور کر لیتے ہیں کہ ہم نے ہی غلط راستے کا انتخاب کیا اگر دوسرا چنا ہو تا تو زندگی اس وقت کسی اور ہی ڈگر پر ہوتی۔

زندگی کو بھی یوں ہی سمجھیں، جیسے شاہد آفریدی ہر بال پر چھکا نہیں لگا سکتا۔ راہ میں ٹھوکریں کھانا، ہماری نمو کا حصہ ہیں۔ میری زندگی میں اک نیا موڑ تب آیا جب میں خود کو پچھتاوؤں سے نکال لیا اور خود کو غلطیاں کرنے کی اجازت دے ڈالی۔ ایک دن میں نے خود سے سوال کیا: میں اپنی زندگی میں جو کچھ چاہتی ہوں، اگر اس کے حصول کے لئے اگر ہمت باندھوں تو بدترین صورت حال کیا ہو سکتی ہے؟ زیادہ سے زیادہ کیا ہو جائے گا؟ مجھ پر یہ بات کھل گئی ہے کہ میں آنے والی زندگی میں جو بھی فیصلہ کروں گی اس کے منفی مثبت نتائج ہو سکتے ہیں، زندگی میں نشیب و فراز آتے رہیں گے، میں ڈر کر خود کو ایک حصا ر میں بند کر کے نہیں رکھ سکتی۔ ایسا کوئی طریقہ نہیں جس سے میں زندگی میں آنے والے نشیب و فراز سے خود کو بچا سکوں، ہم اپنے بچے کو جب وہ نومولود ہو تا ہے ایک لمحے کے لئے خود سے جدا نہیں کرتے، جب وہ چلنے لگتا ہے تو اس کا سایہ بنے رہتے ہیں کہ اسے چوٹ نہ لگ جائے، پھر وہ سکول جانے لگتا ہے، ہم ہر طرح سے اس کی حفاظت کرتے ہیں لیکن پھر وہ اپنی من مانی کر تا ہے۔ پارک میں گر کر ہی دوڑنا سیکھتا ہے۔ اگر اسے ہم گود میں اٹھائے رکھیں گے تو اسے اپنی ٹانگوں پر اعتماد کیسے آئے گا؟

زندگی نے آج تک جو کچھ سکھایا ہے، اسے قبول کرنا سیکھیں۔ پچھتاوؤں میں گھرے رہنے کی بجائے مطمئن رہنا سیکھیں۔ دل سے تاسف اور افسوس کی گٹھریوں کو اتار پھینکیں۔ نمو کا سفر یوں ہی تو طے نہیں ہو جاتا، بار بار گر کر اٹھنا پڑتا ہے۔

آپ بتائیے، آپ کی نمو کا سفر کیسا رہا؟ آپ نے پچھتاوؤں سے کیسے پیچھا چھڑوایا؟ ماضی میں ہو جانے والی غلطیوں سے کیا سیکھا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments