عثمان کاکڑ: کمزور جمہوریت کی توانا آواز ہمیشہ کے لئے خاموش


”مجھے اشارے مل رہے۔ میں اس فلور پر ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں۔ مجھے کچھ ہوا تو کوئی بات نہیں۔ میرے بچوں اور میرے خاندان کو کچھ ہوا، کوئی پرواہ نہیں۔ مگر اس کے ذمہ دار دو ریاستی ادارے ہوں گے۔ بس گم کھاتے میں یہ سب نہ ہو۔“ یہ باتیں سینٹ کے اجلاس سے الوداعی خطاب کرتے ہوئے عثمان خان کاکڑ نے کہیں۔ ٹھیک تین مہینے کے بعد عثمان کاکڑ گھر میں زخمی حالات میں پائے گئے۔ اور ان کے اہل خانہ نے انہیں کوئٹہ کے نجی ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں ان کا آپریشن ہوا۔ لیکن ان کی حالت نہیں سنبھل نہیں پائی۔ جس کی وجہ سے ایئر ایمبولینس کے ذریعے انہیں کراچی کے نجی ہسپتال منتقل کیا گیا۔ بدقسمتی سے عثمان کاکڑ زخموں سے جانبر نہ ہو سکے اور مالک حقیقی سے جا ملے۔

پہلے پہل کہا گیا کہ برین ہیمرج کے باعث عثمان کاکڑ گر کر زخمی ہوئے۔ لیکن اس کے بعد پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سینیئر رہنماؤں عبدالرحیم زیاتوال اور رضا محمد رضا نے بیان دیا کہ پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی واقعے کی تحقیق کر کے وجوہات کارکنان کے سامنے لائے گی۔ پارٹی کے بیان میں باقاعدہ طور پر انہیں شہید قرار دیے دیا گیا۔ اور یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ عثمان کاکڑ کو برین ہیمرج نہیں ہوا تھا بلکہ ان پر حملہ کیا گیا۔ اور اس بات کو بلوچستان کے مشہور نیور سرجن ڈاکٹر صمد ہائنزئی نے بھی رد نہیں کیا۔

یاد رہے کہ عثمان کاکڑ کا واقعہ رونما ہونے کے بعد بلوچستان سوگ میں ڈوب گیا۔ ژوب سے لے کر گوادر تک اس کے لئے قرآن خوانی ہوئی اور ان کی صحت یابی کے لئے اجتماعی طور پر دعائیں مانگی گئیں لیکن بدقسمتی سے وہ جانبر نہیں ہو سکے۔

بلوچستان کے لوگوں سے اور اپنی قوم سے عثمان کاکڑ کا گہرا رشتہ تھا۔ جس کے لئے وہ ہمیشہ بولے اور بولے ایسے کہ در و دیوار ہلا دیے۔ انہوں نے اپنی زندگی اپنی قوم کے لئے وقف کر رکھی تھی۔ وہ اس ملک میں اصل جمہوریت کی بحالی چاہتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ جمہوریت تلے محکوم قوموں کو اس کے جائز حقوق مل سکتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے جمہوریت کے بحالی کے لئے دن رات ایک کر رکھا تھا اور مزاحمت کے لئے جمہوریت کے راستے کا انتخاب کیا تھا۔

عثمان کاکڑ کون تھے؟

عثمان کاکڑ مسلم باغ میں سردار عبدالقیوم خان سرگڑھ کے ہاں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ اور بہاولپور سے حاصل کی۔ اور اس کے بعد جامعہ بلوچستان سے معاشیات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے 1980 میں پشتونخوا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا۔ اور انہوں نے سیکٹری اول کے حیثیت سے ملک بھر کے تعلیمی اداروں کا دورہ کیا اور تنظم کو فعال بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ طلبا سیاست کے بعد انہوں نے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی سے اپنی سیاست جاری رکھی۔ اور جلد ہی وہ پارٹی کے صوبائی سیکرٹری اور اس کے بعد صوبائی صدر بنے۔ اس کے بعد وہ 2013 میں سینیٹر منتخب ہوئے۔

عثمان کاکڑ کس قسم کے شخصیت کے مالک تھے؟

عثمان کاکڑ کے قریبی دوست اور ممبر بلوچستان اسمبلی نصراللہ خان زیرے کے مطابق، “میرا تعلق 1983 سے عثمان کاکڑ کے ساتھ رہا۔ میں نے 38 برس میں ہمیشہ اسے بااصول پایا۔ کبھی بھی انہوں نے اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا۔ پارٹیوں اجلاسوں میں گھنٹوں پر محیط اجلاس کو منظم طور پر وہ چلاتے تھے۔ وہ ایک اچھے منتظم تھے۔ زیرے کے بقول “عثمان ایک سادہ زندگی گزارنے والے شخص تھے۔ وہ خود نمائی سے دور رہتے تھے۔ حالانکہ وہ اپنے علاقے کے سردار تھے۔ لیکن انہوں نے کبھی بھی اپنے ساتھ سردار نہیں لکھا اور نہ کسی کو یہ بتایا۔ وہ کارکنوں کے ساتھ بڑے نفیس انداز میں پیش آتے تھے۔

یاد رہے سینٹ میں اپنے منفرد لہجے اور کاٹ دار تقاریر کی وجہ سے ملک بھر میں جانے گئے۔ سینیٹ میں وہ محکوم قوموں اور کمزور جمہوریت کی ایک توانا آواز تھے۔ جو اب ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments