ضامن ادب: شخص اور شاعر


ضامن صاحب اپنے وقت کے بہترین ادبی کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کہنہ مشق شاعر بھی تھے چناں چہ شاعری ان کی شخصیت کا بھر پور حوالہ ہے. انھوں نے نصف صدی پر محیط تخلیقی زندگی گزاری. اردو کے ساتھ فارسی میں بھی طبع آزمائی کی. نمونے کے طور پر یہ اشعار ملاحظہ کیجیے :

بت کافر, ادائے کج کلاہے
حسینے, مہ جبینے, رشک ماہے
بہ شوخی خرامے, کرد مفتوح
دلم بردہ بہ دزدیدہ نگاہے
٭٭٭

حیدرآباد کے شعرا میں فارسی شاعری کا رجحان نہ ہونے کے برابر رہا ہے. جب کہ قیام پاکستان سے پہلے فارسی یہاں کی سرکاری زبان رہ چکی ہے. یہ تو خیر قیام پاکستان سے پہلے کی بات ہے لیکن قیام پاکستان کے بعد بھی ایسے اشخاص تو بہت تھے جو فارسی میں مہارت تھے مثلاً حضور احمد سلیم, علامہ رزی جے پوری, ارتضا عزمی, میر خادم حسین تالپور, تلمیذ حسنین رضوی, ڈاکٹر الیاس عشقی, آغا جواد اور شرافت عباس ناز مگر ان میں سے بیش تر درس و تدریس تک محدود رہے البتہ حضور احمد سلیم, ڈاکٹر الیاس عشقی اور شرافت عباس کے نام نامی یہاں فارسی روایت کے آخری علم برداروں کے طور پر یاد کیے جائیں گے. ان حالات میں جب یہ خیال آتا ہے کہ ضامن صاحب نے بھی فارسی میں شاعری کی ہے تو دل کو بے حد مسرت ہوتی ہے. جہاں تک ان کے اردو کلام کا تعلق ہے تو سب جانتے ہیں کہ انھوں نے مذہبی اور اخلاقی اصناف پر بے حد توجہ دی لیکن اس کے قدم بہ قدم غزل کی طرف سے غافل نہ رہے. ان کی غزل روایتی رنگ سخن کا لطف لیے ہوئے ہے. ان کی غزل دل کشی کی خصوصیات کے ساتھ اصلاح معاشرہ کے نیک مقصد کو بھی پورا کرتی ہے. حیات و کائنات سے متعلق موضوعات بھی ان کی توجہ کا مرکز رہے. مثال کے طور پر ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے :

تری تلاش کے عنواں بدل کے رکھ دوں گا
کبھی جو دیر و حرم آ گئے مری زد میں
کسی کے حسن کی عظمت تھی جن سے وابستہ
کچھ ایسے راز بھی پنہاں تھے عشق سرمد میں

ان اشعار میں گل و بلبل اور گیسو و کاکل جیسے روایتی اور بوسیدہ رجحانات سے بچنے کی شعوری کوشش کے ساتھ ساتھ فکر کی گہرائی ضامن صاحب کی ذہنی سطح کی بلندی کا پتا دیتی ہے جو عام معاشرتی رویوں سے گریز اور بلند فکری کے ساتھ اپنی ذات پر مکمل اعتماد کے بعد ہی ممکن ہے. ان کے کلام کا مطالعہ بے ساختہ یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ ان کے نزدیک شاعری دل کو دماغ پر ترجیح دینے اور خیالی دنیا بسانے کے بہ جائے حقیقی زندگی کو اس کی تلخیوں سمیت قبول کر نے کا عمل ہے. یہ عمل اپنے باطن میں خواب دیکھنے کے بہ جائے تعبیر پر اصرار کرتا ہے چناں چہ جب وہ حسن کی عظمت کے راز ہائے سر بستہ کو عشق سرمد میں گم ہوتے ہوئے محسوس کرتے ہیں تو اپنے جذبے کی صداقت کی طرف سے بھی غافل نہیں ہوتے. ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ تیقن کی اس منزل تک اچانک پہنچنے کے بہ جائے ارتقائی مرحلے طے کرتے ہوئے جاتے ہیں :

کہیں یہ میرا ہی تو پرتو جمیل نہیں
یہ کون جلوہ نما ہے ہر ایک معبد میں

ان کے ہاں تشکیک کا یہ مرحلہ بھی اہم ہے. اسے نظر انداز کر کے ہم ان کے ذہن کی بہ تدریج بلند ہوتی ہوئی سطح کو نہیں سمجھ سکتے. خاص طور پر اس منزل کو جہاں بہ قول خود ان کے ہر جلوہ اپنی تمام تر وسعتوں کے ساتھ ایک اکائی میں تبدیل ہو رہا ہے. اس مقام پر وہ اپنی فکر میں اتنے واضح ہیں کہ رشک آتا ہے. ایک تخلیق کار کی زندگی میں یہ مقام اسی وقت آتا ہے جب اس میں مزید حوصلہ پیدا ہو جائے جو تلاش حق کے عنوان بدل دینے کا حوصلہ رکھتا ہو. آپ دیکھیے کہ وہ دیر و حرم دونوں کو ایک ہی تعبیر کی دو علامتیں تصور کر کے انھیں اس اکائی میں گم کر دینے کے آرزو مند دکھائی دیتے ہیں جو ‘من و تو’کے امتیازات کے خاتمے کی نوید اور وحدت کا لازوال پیغام ہے. اب سوچنا یہ ہے کہ فکر کی اس منزل تک وہ محض اپنے کی رہ نمائی میں پہنچے کہ اس عشق کی انگلی تھام کر جس کی کوئی منزل ہی نہیں ہے. ہو سکتا ہے کہ یہی وہ مرکز ہو جو ان کی توجہ کا محور بن گیا ہے جب ہی تو ایک جگہ رقم طراز ہیں :

منزل ہی نہیں جس کی جہان گزراں میں
دراصل وہ رستہ ہمیں مطلوب ہوا ہے

ضامن صاحب کی غزل پر کوئی کیا رائے دے سکتا ہے. ان کے استاد خود ان کی غزل گوئی کے معترف تھے. وہ چوں کہ پر گو شاعر تھے اس لیے انھوں نے غزل کے ساتھ ساتھ تقریباً ہر صنف سخن مثلاً: تضمین, چہار بیت, رباعی, رخصتی, سلام, سہرا, گیت, منقبت, نعت اور نوحہ وغیرہ میں خوب خوب طبع آزمائی کی. اتنی متنوع اصناف میں ان کی دل چسپی اور توجہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ آخر وہ اتنا وقت کیسے نکال لیتے ہیں کیوں کہ پیشہ ورانہ ذمے داریاں انھوں نے جس احسن طریقے سے نبھائیں وہ اپنی مثال آپ ہیں. ایک مثالی استاد میں جتنی خوبیاں ہونی چاہئیں وہ سب ان کی ذات مجتمع تھیں یہی سبب ہے اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز تمام شخصیات ان کی قدردان اور حسن انتظام کی معترف تھیں. تمام ادبی حلقے بھی اس کی جھلک ‘بزم فروغ ادب'(رجسٹرڈ) کے پلیٹ فارم سے ہونے والے مشاعروں, الیکشن اور کتب کی ترتیب و اشاعت میں دیکھتے تھے. پیرانہ سالی اور ناسازی طبع کے با وجود تھکن کا کبھی احساس نہ ہوا. ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے اپنے آپ کو اپنی بزم کے لیے وقف کر دیا اور بزم کے معاملات میں اس حد تک کھو گئے کہ انھیں اپنی گرتی ہوئی صحت کا خیال بھی نہ رہا. یہی وجہ ہے کہ یہ بزم ان کے نام سے اور وہ اس بزم کے نام سے پہچانے جانے لگے.
یہ حیرت اس وقت خوش گوار کیفیت میں بدل جاتی ہے جب احساس ہوتا وہ نجیب الطرفین سید تھے کہ ان کا تعلق ماں اور باپ دونوں حوالوں سے نہایت برگزیدہ خانوادوں تھا. والد کی طرف ان کا سلسلہ ساتوں پشت میں سید توکل علی سے ہوتا ہوا عبداللہ شاہ اصحابی کے واسطے سے غوث اعظم دستگیر سے ہوتا ہوا حضرت امام حسین سے جا ملتا ہے. اس اعتبار کے علاوہ وہ زمانہ بھی اہم ہے جب انھوں نے ہوش سنبھالا کیوں کہ وہ تحریک پاکستان کے نقطہ عروج کا زمانہ تھا. اس وقت ان کے والد سید صادق علی پبلک ہیلتھ کے محکمے میں داروغہ, مسلم لیگ نیشنل گارڈز کے سالار خوش الحان نعت خواں اور مرثیہ خواں تھے. ان کے پر دادا سید حسن اللہ چوں کہ شاعر تھے اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ شاعری کا ذوق ان کو ورثے میں ملا. تقسیم ہندوستان سے قبل ضامن صاحب تیرہ سال کی عمر میں میٹرک اورمنشی (فارسی) کا امتحان پاس کر چکے تھے. غالباً یہی زمانہ تھا جب وہ شعر گوئی کی طرف متوجہ ہوئے اور اسی زمانے میں محکمہ پولیس میں کانسٹیبل بھرتی ہوئے. اگست 1947ء میں قیام عمل میں آیا. سب کچھ ٹھیک تھا کہ 4 ستمبر 1947ء کو ہندؤں اور سکھوں نے نارنول کے ان محلوں پر دھاوا بول دیا جہاں مسلمان رہائش پذیر تھے چناں چہ ستمبر 1947ء کے دوسرے ہفتے میں 14 ستمبر 1947ء کو ان کی تمام برادری ترک وطن کر کے وارد پاکستان ہوئی. یہاں آ کر کچھ عرصے بعد محکمہ تعلیم میں بہ حیثیت ملازم ہوئے اس کے کچھ عرصے بعد ادبی اور سماجی تقریبات میں شریک ہونے لگے 1958ء میں نیم سماجی اور نیم ادبی ‘تنظیم اخوت’قائم ہوئی تو وہ اس کے صدر منتخب ہوئے بعد ازاں اس بزم کے ساتھ دیگر ادبی محافل میں بھی ان کی دل چسپی بڑھی اور ہوتے ہوتے شاعری کا وہ شوق جو حالات کی ناسازی کے سبب دبا ہوا تھا حیات بخش پانی کے خود رو چشمے کی طرح اچانک ظاہر ہو گیا ابتداً انھوں نے اپنے تایا زاد بھائی سید حشمت حسین نارنولی کی رہ نمائی میں شعر گوئی کا باقاعدہ آغاز کیا چوں کہ درویش صفت حشمت صاحب ویسے ہی دنیا داری سے کنارہ کش تھے اس لیے کچھ ہی عرصے کے بعد انھی کے مشورے پر ضامن صاحب نے اس زمانے کے کامل استاد مولانا انوار الحق نہال اجمیری سے رجوع کیا. بہت کم وقت میں خود کفیل ہو گئے اور نئے آنے والے شعرا کی اصلاح کرنے لگے. یہ عجیب اتفاق ہے کہ ضامن صاحب جتنے باصلاحیت اور فرماں بردار شاگرد تھے ان کا کوئی شاگرد ایسا نہیں ہے جو ان خوبیوں سے متصف ہو بل کہ ان کے شاگردوں میں چند ایک تو ایسے بھی ہیں کہ ضامن صاحب کی شاگردی کا اعلان کرتے ہوئے شرماتے ہیں. ایک ضامن صاحب تھے جو ہر وقت اپنے استاد کے لیے رطب السان رہتے تھے. کم و بیش یہی کیفیت نہال صاحب تھی. ان کے کلام کی اشاعت کی بابت جب بھی کسی نے توجہ دلائی تو جواباً کہتے تھے. ‘میرا نعتیہ دیوان خادمی اجمیری, سلام اور مرثیوں کا مجموعہ عنبر جعفری, نظموں کا مجموعہ خورشید ایلچ پوری اور غزلوں کا دیوان ضامن حسنی ہے’. 1960ء میں جب ‘بزم فروغ ادب’کی بنا رکھی گئی تو نہال صاحب نے انھیں بزم کا سیکریٹری نام زد کیا. ہوتے ہوتے وہ وقت آیا جب ضامن صاحب اس بزم کے جنرل سیکریٹری, نائب صدر, صدر اورتاحیات صدر منتخب ہوئے. حیدرآباد کی اس قدیم ترین بزم کی خدمات علیحدہ سے ایک مضمون کی متقاضی ہیں. اس بزم کا تذکرہ پروفیسر وثیق الرحمان صابر نے اپنے مقالے مطبوعہ بہ عنوان ‘حیدرآباد کی ادبی تنظیمیں اور فروغ ادب میں ان کا کردار’میں بھی کیا ہے.

بزم کی اتنی گوں نا گوں مصروفیات اور تدریسی ذمے داریوں کے باوجود ضامن صاحب نے جس طرح اور جتنی اصناف میں اپنے تخلیقی جوہر کو آزمایا وہ اپنی مثال آپ ہے. اگر ہم ان کی تضامین پر نظر کریں تو ہم پر کھلتا ہے کہ ضامن صاحب ایک وسیع مطالعہ اور اعلیٰ پائے کا شعری ذوق رکھتے تھے. انھوں نے جن شعرا کی تضمین کی ہے وہ سب کے سب اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں اور ان کی جس نعت, غزل یا نظم پر انھوں نے تضمین کی وہ ان کی نمائندہ نعت, غزل یا نظم کہلانے کے لائق ہے. اس انتخاب کو دیکھتے ہوئے ضامن صاحب کے ذوق شعری اور تنقیدی مذاق کا قائل ہونا پڑتا ہے. مثال کے طور پر حالی کی مشہور حمد ‘قبضہ ہو دلوں پر کیا اور اس کے سوا تیرا’کی تضمین بہ رنگ چار بیت کا آخری بند ملاحظہ کیجیے :

بیمار غم الفت جیتا ہے نہ مرتا ہے
ہر نقش وفا ضامن رہ رہ کے ابھرتا ہے
ہر بول ترا دل سے ٹکرا کے گزرتا ہے
کچھ رنگ بیاں حالی ہے سب سے جدا تیرا
اک بندہ نا فرماں ہے, حمد سرا تیرا

حیدرآباد میں کئی شعرا نے پٹھانوں کے اس قدیم فن کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا جن میں واجد سعیدی اور ان کے تلامذہ میں فاروق شاد اور عبدالشکور عاصی کے علاوہ راحت عارفی مہاروی اور ضامن حسنی کے چار بیت نمایاں ہیں. ضامن صاحب خود کفالت کی منزل تک پہنچنے سے پہلے اپنے دوسرے استاد نہال اجمیری کی نگرانی میں دوران تربیت بہت سی کڑی آزمائشوں سے گزر چکے تھے اور مزاجاً خود بھی با اصول اور سخت گیر تھے اس لیے استاد کے گزرنے کے بعد وہ تا عمر اپنے حق میں اتنے ہی سخت رہے چناں چہ کوئی رعائت نہ کبھی خود لی اور نہ اپنے شاگردوں کو دی. اس ریاضت کا تخلیق کی سطح پر انھیں سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوا کہ انھیں کبھی سوچنا نہیں پڑا کس مضمون کے لیے کون سی صنف مناسب ہے اور کون سی نہیں. بس ارادہ کیا اور لکھتے چلے گئے. یہی وجہ ہے کہ وہ رائج الوقت ہر صنف کو کام یابی سے برتنے میں کام یاب رہے. ایک رباعی دیکھیے :

انداز سکون و اضطراب دیکھا میں نے
دنیا کا ہر اک انقلاب دیکھا میں نے
ہر رنج و الم کو میں نے شادی جانا
خوشیوں سے جگر کباب دیکھا میں نے

ضامن صاحب نے بھر پور کوشش کی کہ نئے لوگ شاعری کی طرف آئیں اور جو لوگ آ چکے تھے ان کی کوشش ہوتی کہ ان کا کلام شائع ہو. اسی لیے انھوں نے تذکرہ شعراے حیدرآباد کی ترتیب و تدوین میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا. آج حیدرآباد کی ادبی تاریخ کا وہی سب سے مستند ماخذ ہے. ان تمام خدمات کے بعد وہ اپنے کلام کی اشاعت کی طرف سے بھی غافل نہ تھے لیکن ‘ضامن حقیقت’جو ان کی منتخب نعت و مناقب کا مجموعہ ہے اور ‘بزم فروغ ادب’کے اہتمام سے 6891 ء میں شائع ہوا. اس وقت ان کی ایک یہی نشانی اہل ادب کے پاس ہے. آخر میں غزل کے چندا شعار ملا حظہ کیجیے :

اشکوں سے بھی بجھتی ہے کہیں آتش الفت
پانی کے تصادم سے تو اٹھتا ہے دھواں اور
٭٭٭
موت کیا ہے ترے جلوؤں سے گریزاں ہونا
زندگی کیا ہے تری یاد میں مر جانا ہے
٭٭٭
ہاتھ بے ساختہ بڑھتے ہیں گریباں کی طرف
بیٹھے بیٹھے مجھے کیا جانیے کیا ہوتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments