تقسیم ہند، نقل مکانی، اور مضمرات


تقسیم سے قبل کے ہندوستان میں صدیوں سے آباد لوگ باوجود مولانا ابوالکلام آزاد، مہاتما گاندھی اور ان کے ہم خیال اکابرین کی بار بار پاکستان نہ جانے کی تلقین پر کان دھرے بغیر کہیں اسلامی مملکت کی چاہ میں، کہیں خوف کے زیر اثر، کہیں بہتر مستقبل کی امید میں تقسیم کے بھیانک عمل کو ترجیح دیتے ہوئے پاکستان چل پڑے، اپنی زمین کو خیرباد کہتے وقت تلقین کرنے والوں کو ہندووں کا ایجنٹ کہا، یہ نہ سوچا کہ وہ مسلمان برادری جو ہندوستان چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے اس پر اس ہجرت کے کتنے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

تقسیم کے اس ہولناک فیصلے کے نتیجے میں لگ بھگ دو کروڑ افراد بے گھر ہوئے، بیس لاکھ سے زائد انسانی جانیں لقمۂ اجل بنیں، لاتعداد خاندان ایسے بکھرے کہ پھر کبھی ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکے۔ ہندوستان کے بطن سے جنم لینے والے پاکستان کی جانب نقل مکانی کرنے والے افراد کی اکثریت انتہائی تکلیف دہ صورتحال سے دو چار ہوئی اور نئی زمین میں آباد ہونے کے لیے بے تحاشا صعوبتوں سے گزرنا پڑا۔

تقسیم کے بعد ہندوستان سے صوبہ سندھ پہنچنے والوں کو بسنے میں کسی بڑی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، باوجود اس کے کہ سندھ کی زمین ان کے لیے مکمل طور پر اجنبی تھی، قدر مشترک صرف مذہب تھا جبکہ زبان، تہذیب، مقامی معاشرت کا ہر پہلو ان کے لیے قطعی مختلف اور اجنبی تھا، نومولود پاکستان کے دیگر صوبوں میں ہندوستان سے آئے قافلوں کو کوئی خاص پذیرائی حاصل نہ ہو سکی، البتہ پنجاب نے مشرقی پنجاب سے آنے والے قافلوں کی مدد کی اور مشرقی پنجاب سے آنے والے لٹے پٹے قافلوں کی اکثریت کو اپنے اندر سمو لیا، جبکہ، موجودہ خیبر پختونخوا نے ہندوستان سے آنے والوں کی آبادکاری میں کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔

تہذیبی اور ثقافتی طور پر نسبتاً جامع اور ترقی یافتہ معاشرے سے ایک ایسے نئے معاشرے میں آ بسنا جو طویل عرصے سے معاشی طور پر مضبوط ہندو اقلیت کے چنگل سے آزادی کے لیے نبرد آزما رہا ہو، جو خود ترقی کی راہ پر گامزن ہونے اور معاشی استبداد اور اس کے جبر سے آزادی کا خواہاں ہو یکایک ایک اجنبی ہجوم کی دیکھ بھال کے بھاری بوجھ تلے آ دبے، یہ سب سندھی معاشرے کے لیے بے حد مشکل مرحلہ ہونے کے باوجود صوبہ سندھ میں کوئی منفی ردعمل سامنے نہیں آیا۔

محمد علی جناح لاہور میں اپنی 30 اکتوبر 1947 کی تقریر میں مہاجرین کی آبادکاری کی ذمہ داری لینے کا اعلان کر چکے تھے، اس روشنی میں مقامی سندھیوں نے ہجرت کر کے آنے والوں کو محبت سے گلے لگایا، نقل مکانی کر کے آنے والوں کی رہائش کے لیے مناسب انتظام میں مدد دی، ان کے کھانے پینے کا بندوبست اور حتی ’کے نقل مکانی کر کے آنے والے ایسے افراد جو غربت اور غربت سے نچلی سطح سے تعلق رکھتے تھے کے پہننے اوڑھنے کا بندوبست بھی اپنے ذمہ لیے رکھا، پاکستان بننے کے چند ماہ میں 22 مئی 1948 کو کراچی ملک کا دارالحکومت قرار دے دیا گیا۔

ہندوستان بھر سے نقل مکانی کر کے آنے والے مسلمان سرکاری افسروں نے دارالحکومت کراچی کو اپنا مرکز بنا لیا، ہندوستان کی بیشتر افسر شاہی کی طرح کراچی پہنچنے والے سرکاری ملازم، انگریز کی اپنے اقتدار کے دوام کے لیے تیار کی جانے والی افسر شاہی کا حصہ تھے لہذا شروع وقت سے خدمت کے بجائے حاکمانہ انداز اپنائے ہوئے تھے۔

صوبہ سندھ جو ہندو آبادی کے نقل مکانی کر جانے سے انتظامی طور پر پسماندہ صوبہ تصور کیا جانے لگا تھا، کراچی کے دارالحکومت بننے کے باعث اور سرکاری مشینری کے لیے ہندوستان سے آئے انسانی وسائل کی فوری دستیابی سے دیگر صوبوں کے مقابلے میں زیادہ فعال ثابت ہوا، وفاق نے ایک مزید قدم یہ اٹھایا کہ مشرقی پنجاب سے آئے مہاجرین کی تعداد کو پاکستانی پنجاب میں آبادکاری کی گنجائش سے زائد بتا کر مزید دس لاکھ سے زائد مہاجرین کو بغیر صوبہ سے مشورہ کیے سندھ روانہ کر دیا، ہندو آبادی کی جگہ جو کہ معاشی طور پر سندھ کی مڈل اور اپر کلاس میں شمار ہوتی تھی ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والی اپر اور مڈل کلاس نے لے لی، امیر و کبیر افراد نے کراچی کے کاروبار، صنعت، خدمات اور انتظامی شعبوں میں قدم جما لیے ، تقسیم سے پہلے کے سندھ میں مسلمان آبادی کا کل % 5 سرکاری اور نجی ملازمت سے متعلق تھا، مسلمان ڈاکٹر، انجینیئر، وکیل، استاد شاذ و نادر دیکھنے میں آتے تھے جبکہ اہم سرکاری عہدوں پر % 95 ہندو تعینات تھے۔

نئے دارالخلافہ کی محدود گنجائش مہاجرین کے لیے جو زیادہ تر بحری جہازوں کے ذریعے کراچی پہنچ رہے تھے اس ہجوم کا وزن اٹھانے سے قاصر ہو گئی، روزگار کے نئے ذرائع پیدا ہو کر معدوم ہونے لگے، روشن اور تابناک مستقبل کے بجائے اندھیرا محسوس کرنے اور بلا غور و فکر نقل مکانی کر لینے کے نتائج محسوس کرتے ہوئے مہاجرین کی خاصی تعداد نے سندھ کے دیگر شہروں کی جانب رخ کرنا شروع کیا جہاں موناباو کی سرحد عبور کر کے راجستھان سے آنے والے پہلے ہی رہائش اختیار کر چکے تھے، کراچی میں کھپت کی گنجائش کے خاتمے اور اندرون سندھ ذریعہ معاش مشکل دیکھ کر سندھ پہنچنے والوں نے ہندوستان واپسی شروع کی، مہاتما گاندھی نے واپس آنے والوں کو ان کے چھوڑے گھروں اور ملازمت پیشہ لوگوں کی دوبارہ آبادکاری اور تعیناتی کی مہم شروع کر دی جو ان کے قتل تک جاری رہی، گاندھی اپنے انتقال سے کچھ دن پہلے نہرو حکومت سے پاکستان سے واپس آنے والوں کی دوبارہ آبادکاری کا وعدہ لے چکے تھے لہذا ہندوستان حکومت نے اس وعدے کی پاسداری کی کوشش کی لیکن انگریز کی چھوڑی ہندوستانی افسر شاہی نے اپنے خمیر مطابق واپس آنے والوں کے لیے حکومت سے ”پرمٹ“ کے حصول کو لازمی قرار دلوا دیا، جس کے باعث قسمت آزمانے والے ”اولوالعزم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے“ کے مصداق شدید پریشانی سے دوچار ہوئے، اس سلسلے میں روزنامہ جنگ کے 27 اور 29 مارچ 1948 کے اداریے اور کارٹون قابل ذکر ہیں جو مہاجرین کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب ہندوستان واپسی کے حوالے سے شائع ہوئے، دوسری طرف سندھ میں مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد نے حکومت سندھ کے لیے شدید پریشانی کے باب رقم کرنا شروع کر دیے، سندھی انتظامیہ سے مشاورت کی عدم موجودگی کے باعث ہجرت کر کے آنے والے سندھ کے باسیوں میں گھل مل کر آباد ہونے کے بجائے شہری علاقوں میں بڑی تعداد میں بس گئے۔

مناسب منصوبہ بندی ہونے کی صورت میں ہجرت کر کے آنے والوں کو چھوٹی ٹکڑیوں میں لیکن صوبے اور ملک کے تمام طول و عرض میں بسایا جاتا تو یقینی طور پر کہیں بہتر ہوتا جو آنے والوں کی مقامی معاشرے میں با آسانی ضم ہونے کا باعث بنتا لیکن بسنے اور بسانے والے دونوں سے ہندوستان سے علیحدگی کے مطالبے کو عملی جامہ پہنانے کے بعد ایک اور غلطی سرزد ہو چکی تھی۔

محترم ایوب کھوڑو کی حکومت نے معاملات کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے وفاقی حکومت سے علم احتجاج بلند کیا کہ ان کی اپنی زمین میں ان سے کوئی مشورہ کیے بغیر مہاجرین کی آبادکاری کا سلسلہ جاری ہے، کراچی ملک کی واحد بندرگاہ ہونے کی وجہ سے ترقی کی نئی راہیں کھولنے والا شہر ہے جس پر مقامی سندھیوں کا جائز حق ہے لیکن یہاں ہجرت کر کے آنے والوں کا غلبہ بڑھتا چلا جا رہا ہے جسے روکا جائے لیکن ان کی کسی نے نہ سنی، یہ کیفیت صرف کراچی ہی نہیں سندھ کے تمام بڑے شہر جو سندھی ہندووں کے چھوڑ جانے سے خالی ہوئے تھے مقامی سندھی مسلمان کے ہاتھوں میں آنے کے بجائے ہندوستان سے نقل مکانی کر کے آنے والوں سے آباد کیے جاتے رہے، یہ وہ مواقع تھے جن کے حصول کے لیے سندھی رہنماؤں نے صدیوں سے آباد ہندو آبادی کو ان کی ابائی زمین چھوڑنے پر مجبور کیا تھا اور ہندو آبادی کی معاشی بالادستی سے آزادی حاصل کی تھی۔

یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ کوششیں جو ہندووں کو دیس نکالا دینے کے لیے کی گئیں اگر تعلیم کے میدان میں کی جاتیں، اپنی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے ہوتیں اور جاگیرداری سے پاک ایک منصفانہ معاشرہ تخلیق کرنے کے لیے ہوتیں تو نہ ہندو کو اپنی زمین چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑتا نہ ہی قیام پاکستان کے وقت منصوبہ بندی میں کوئی کمی ہوتی، مہاجرین کے قافلوں کی سندھ میں آبادکاری کے پیچھے بہتر معاشی مواقع حاصل کرنا ہی نہیں بلکہ مسلم لیگ کی قیادت کی جانب سے ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والوں پر مشتمل افراد کے ذریعے اپنے لیے ایک مضبوط حلقہ انتخاب قائم کرنے کی خواہش بھی تھی کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ ہجرت کر کے آنے والی مسلم لیگی قیادت اپنے لیے مضبوط حلقۂ انتخاب کی تشکیل کی خاطر سندھیوں کو خود ان کی زمین میں اقلیت میں تبدیل کر دینا چاہتی تھی، صوبے کے معاملات خراب کرنے میں دوسری بڑی پیش رفت اردو کو پورے ملک کی قومی زبان کا درجہ دینے کی تھی، نتیجتاً ، قیام پاکستان کے پانچ برس کے اندر ہی مشرقی پاکستان موجودہ بنگلہ دیش کے بنگالی اس فیصلے سے اس قدر بد زن ہوئے کہ 1952 میں انہیں اس فیصلے کے خلاف نہ صرف آواز بلند کرنا پڑی بلکہ اپنے جائز مطالبے کو منوانے کی خاطر جانوں کے نذرانے پیش کیے، بالآخر حکومت کو بنگالی زبان قومی زبان قرار دینے کے جائز مطالبے کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔

بنگال کی طرح سندھ بھی اپنی علیحدہ زبان اپنے علیحدہ رسم الخط کا وارث ہے لیکن مقامی سندھی آبادی مشرقی بنگال کی طرح کسی مناسب ردعمل کا اظہار نہ کر سکی اور سندھی زبان کو پس پشت ڈالے رکھنے جیسے عوامل نے مل کر صوبہ سندھ میں لسانی تفرقے کی شکل اختیار کر لی اردو اور سندھی بولنے والے ایک قوم بن کر ابھرنے کے بجائے ایک دوسرے کے حریف تصور کیے جانے لگے اور ماضی میں تقسیم کی غلطی سے سبق سیکھنے کے بجائے ایک ہی زمین میں بسنے کے باوجود ٹکراو کا باعث بن بیٹھے، اس بات کا ادراک بھی نہ رکھ سکے کہ وقت گزرنے کے ساتھ سندھی بولنے والی مڈل کلاس جو چاہے فی الوقت موجود نہیں مستقبل میں ضرور جنم لے گی، اشد ضرورت اس منصوبہ بندی کی تھی کہ پہلے سے موجود اردو بولنے والی مڈل کلاس میں سندھی بولنے والی مڈل کلاس خوش اسلوبی سے حصہ بن جائے لیکن غلطی کرنے اور اسے بار بار دہرانے کے عادی لوگ ایک دوسرے کا دست و بازو بننے کے بجائے دو متحارب طبقات میں تقسیم ہو گئے، 1956 سے فوج کے اقتدار میں داخلے اور ون یونٹ کے قیام نے تقسیم کرو اور حکومت کرو کی حکمت عملی کو فروغ دینا شروع کیا جس کے نقصانات اردو اور سندھی بولنے والی سندھی عوام نے اٹھائے اور فوائد تقسیم کرنے والوں نے، احساس محرومی اندر ہی اندر بڑھتا رہا، لسانی بنیاد پر تقسیم ہو جانے کا مسلسل فائدہ سندھ میں صدیوں سے اقتدار پر قابض ایک چھوٹے سے جاگیردار طبقہ کو ہوتا رہا جس نے اپنے اقتدار کے دوام کے لیے ملک کی اسٹیبلشمنٹ سے ساز باز کی قیمت وصول کی اور مسلسل کر رہا ہے۔

یہ طبقہ کمال ہوشیاری سے نفاق کے بیج بوتا ہے جسے شکست دینے کے لئے انتہائی زیرک اور ذاتی مفاد سے بالا سوچ اور با عمل قیادت کی اشد ضرورت ہے، تقسیم کی دراڑ ڈالنے والا طبقہ لوئر مڈل اور مڈل کلاس کو اوپر آنے دینے اور اقتدار منتقل کرنے کے لیے قطعی طور پر تیار نہیں، دوسری جانب ستم ظریفی یہ ہے کہ مڈل کلاس سے متعلق ایک بہت چھوٹا سا طبقہ جو تعلیم یافتہ ہونے کا بھی دعویدار ہے اپنے وقتی مفاد کی خاطر جان بوجھ کر اپنی سمت درست کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، اسے اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ اتنا عزیز ہے کہ مستقبل میں پیش آ سکنے والے اجتماعی نقصانات کو محسوس کرنے کے باوجود اپنے رویے تبدیل کرنے کو تیار نہیں ہے، اردو اور سندھی بولنے والے مستقل باشندوں سے یہ توقع قطعی بے جا نہیں ہے کہ وہ ماضی میں سرزد ہونے والی غلطیوں پر بے حد سنجیدگی سے غور کریں، وہ غلطیاں جن کے سرزد ہو جانے سے شدید نقصانات پہنچ چکے ہوں انہیں نہ دہرانے کا عہد کریں، معاشرے کی تقسیم کے اذیت ناک عمل کو دہرانے سے پرہیز کریں اور ایک دوسرے کا جزو لاینفک بنیں، ان تمام قوتوں کو شکست دیں جو لڑاو، تقسیم کرو اور راج کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔

سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا بر سر پیکار رہنے کے اس عمل کو جاری رکھنے کی اجازت دینا کسی بھی طرح فائدہ مند ہے؟ یا صرف اور صرف نقصان کا سودا ہے، کیا ان عناصر پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت نہیں جو در پردہ سندھ کی تقسیم چاہتے ہیں، منصفانہ حقوق سے انکار کا کوئی بھی مصنوعی طریقہ صورتحال کو مزید خراب کر سکتا ہے، وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانے کے علاوہ ترقی کا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔

یہ جاننا ضروری ہے کہ تقسیم سے قبل اندرون سندھ جو غیر ترقی یافتہ صورتحال تھی آج اس سے زیادہ بد تر کیوں ہے؟

شہری علاقے آبادی کے بڑھتے دباو کے باعث اور بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کی خوفناک صورتحال سے دو چار کیوں ہیں؟

پانچ ہزار برس پہلے کا سندھ آج کے سندھ سے بہتر تھا یا نہیں؟
کیا آج کا سندھ ماضی کے موئن جو دڑو سے منصوبہ بندی اور صفائی ستھرائی کے مقابلے میں پیچھے نہیں ہے؟
صوبہ خیراتی اداروں کی مہربانی پر کیوں چل رہا ہے؟
ریاست کہاں چھپی ہوئی ہے؟
ہسپتالوں میں غریب کے لیے دوا کیوں میسر نہیں ہے؟
پولیس سے حفاظت کیوں میسر نہیں ہے؟
پینے کا پانی دور کی بات کچھ علاقوں کے باشندے نہانے دھونے کا پانی دیکھنے سے محروم کیوں ہیں؟
سرکاری اداروں میں کام نہ کرنے کی تنخواہ اور کام کرنے کے لیے عوام سے پیسے کیوں وصول کیے جا رہے ہیں؟

جبکہ کم از کم 70 کی دہائی یا کہیے نصف صدی سے آج تک کسی نہ کسی صورت دونوں فرزندان زمین میں سے کسی ایک کی یا مشترکہ حکومت رہی ہے اس لیے ناکامیوں کی ذمہ داری بھی مشترک ہے۔

غلطیاں کرتے رہنے انہیں دہراتے رہنے اور جز وقتی مفاد کے لیے کروڑوں انسانوں کی زندگیوں، ان کے اور ان کے بچوں کے مستقبل سے کھیلنے کے نا عاقبت اندیشانہ عمل کو اب ختم ہو جانا چاہیے، زبان اور ثقافت کو اپس میں سانجھا بنانے اور محبت کی زبان کو فروغ دے کر غربت اور فاقہ کشی کی بھیانک کیفیت سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے، سندھ میں بسے مستقل باشندوں کے احساس محرومی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، معیشت کی بہتری کے لیے مل کر جدوجہد کی ضرورت ہے اور اس کے ثمرات کو صوبے کے ہر گھر ہر خاندان اور ہر شخص تک پہنچانے کی بھی، نقصان بہت ہو چکا ہے، آج سے پہلے اتنی ضرورت کبھی نہیں تھی کہ سندھی اور اردو بولنے والے ساتھ مل کر ترقی کی منازل طے کریں، موجود وسائل کو باتدبیر اور معاملہ فہمی سے تقسیم کریں اور جو وقت مصلحت کوشی کی نظر ہو چکا اسے عبرت کا نشان جان کر ترقی کے نئے اہداف مقرر کریں، ہندوستان سے ہجرت کر کے سندھ میں آ بسنے والوں کے لیے یقیناً اچھا ہوتا اگر اردو بولنے والے اکابرین سندھی زبان کو آگے بڑھ کر گلے لگاتے جو ہر لحاظ سے اس زمین سے مضبوط رشتہ قائم کرنے کی جانب ایک مثبت قدم تصور کیا جاتا اور خود اردو بولنے والوں کے اپنے علم و آگہی میں اضافے کا باعث بنتا، تاہم، کسی وجہ سے ایسا نہیں ہو سکا ہے تو اس حوالے سے موجودہ اور آنے والی نسلوں کو زبان، تہذیب اور روایات سے مکمل آشنا کرانے کی ضرورت ہے، ایک دوسرے سے اجنبیت کے احساس کو جو 70 اور 80 کی دہائیوں میں قصدا ”پیدا کیا گیا ہمیشہ کے لیے ختم کرنے اور ترقی کی منازل طے کرنے کا وقت ہے، ہمیں یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ انسان انسان کو معاف کر سکتا ہے، ایک قوم کسی دوسری قوم کو معاف کر سکتی ہے لیکن تاریخ گروہوں اور قوموں کی اجتماعی غلطیوں کو معاف نہیں کرتی اور اس کا بھاری تاوان وصول کرتی ہے، کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ تاریخ کی سزا سے بچنے کے لیے اپنی اصلاح کر لی جائے اور مزید تاوان ادا کرنے سے بچا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments