لاہور مدرسے کے طالب علم سے جنسی زیادتی: 'ملزم نے معاملہ جرگے میں لے جانے کی کوشش کی ہے'


پاکستان کے شہر لاہور میں ایک مدرسے کے طالب علم کے ساتھ مبینہ ریپ کے الزام میں مطلوب معلم کو پولیس نے حال ہی میں گرفتار کر لیا ہے تاہم پولیس کے مطابق مدرسے کے سابق مفتی گرفتاری سے قبل جرگے کے ذریعے معاملہ ختم کروانے کی کوششیں کر رہے تھے۔

پولیس کے تفتیشی افسران کے خیال میں یہی وجہ ہے کہ مفتی طالب علم کے ساتھ مبینہ ریپ کی ویڈیوز منظرِ عام پر آنے کے بعد فرار ہو گئے تھے تا کہ انھیں وقت مل سکے اور مختلف ذرائع سے ‘معافی تلافی اور معاملے کو ختم کروانے کی کوشش کر رہے تھے۔’

تا حال انھیں کامیابی حاصل ہونے سے پہلے ہی پولیس ان تک پہنچ گئی تھی۔

کرمنل انویسٹیگیشن ایجسنی لاہور کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی سی آئی اے) شعیب خرم نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس نے ایک طویل تعاقب ک بعد ملزم کو لاہور سے گرفتار کیا تھا۔

‘ملزم گرفتاری سے بچنے کے لیے مسلسل اپنی لوکیشن تبدیل کرتا رہا تھا اور مختلف شہروں میں پناہ لینے کی کوشش کی تھی مگر اسے کامیابی نہیں ہوئی تھی۔’ یاد رہے اس سے قبل پولیس کا کہنا تھا کہ ملزم کو ان کے ایک بیٹے سمیت میانوالی سے گرفتار کیا گیا تھا۔

ایس ایس پی سی آئی اے شعیب خرم نے بتایا کہ لاہور کے مدرسہ منظور الاسلامیہ کے معلم مفتی نے مخلتف شہروں میں اپنے شاگردوں اور عزیزوں کے پاس پناہ لینے کی کوشش کی تھی تاہم انھوں نے ملزم کو پناہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ملزم نے ابتدائی تفتیش کے دوران پولیس کے سامنے اعتراف کیا کہ انھوں نے طالبِ علم کا ریپ کیا تھا جس کی ویڈیو بنا لی گئی تھی۔

انھیں اس بارے میں علم تھا کہ طالبِ علم کے پاس ویڈیو موجود تھی اور ان کے بیٹوں نے طالبِ علم کو ڈرا دھمکا کر وہ ویڈیو جاری نہ کرنے کا کہا تھا۔ تاہم ویڈیو سوشل میڈیا پر آنے کے بعد وہ ‘بدنامی کے خوف سے مدرسے سے فرار ہو گئے تھے۔’

ملزم مفتی کا تعلق خیبر پختونخوا کے علاقے لکی مروت سے ہے جبکہ ان پر ریپ کا الزام عائد کرنے والے طالب علم کا تعلق خیبر پختونخوا ہی کے علاقے سوات سے ہے۔ پولیس کے مطابق مفتی نے ابتدائی تفتیش کے دوران پولیس کو بتایا کہ انھوں نے جرگے کے ذریعے طالب علم کے خاندان سے رابطہ قائم کیا تھا اور معاملے کو جرگے کے ذریعے ختم کرنے کا کہہ رہے تھے۔

تاہم پولیس نے اس سے قبل انھیں گرفتار کر لیا۔

عدالت نے ملزم مفتی کو پیر کے روز چار روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دے دیا تھا۔ تاہم پولیس ملزم تک پہنچی کیسے اور معاملے کو جرگے میں لے جانے کی کوشش کس طرح اس ملزم کو عدالت سے سزا دلوانے کے عمل پر اثر انداز ہو سکتی ہیں؟

موبائل

پولیس نے ملزم کو کیسے گرفتار کیا؟

ایس ایس پی سی آئی اے لاہور شعیب خرم نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزم نے لاہور میں مدرسے سے فرار ہونے کے بعد اپنے بیٹوں کی مدد سے لاہور ہی کے اندر مختلف جگہیں تبدیل کر کے رکنے کی کوشش کی۔

پولیس کو ان کے اور ان کے بیٹوں کے موبائل فون کی مدد سے ان کی لوکیشن کا اندازہ ہو جاتا تھا تاہم پولیس کے پہنچنے سے پہلے وہ وہاں سے نکل جاتے تھے۔

‘ہم نے ایک تو ان کے فون کی لوکیشن سے مدد لی اس کے علاوہ ان کے بیٹوں کی طرف سے سوشل میڈیا کے استعمال سے بھی ہمیں معلوم ہو جاتا تھا کہ وہ کس علاقے میں تھے۔’ شعیب خرم کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ پولیس مخبری نظام سے بھی مدد لے رہی تھی۔

‘کسی نے اسے پناہ نہیں دی’

پولیس کے مطابق ملزم نے لاہور کے بعد لکی مروت کا رخ کیا۔ تاہم انھیں ڈر تھا کہ آبائی علاقہ ہونے کی وجہ سے وہاں پولیس با آسانی ان تک پہنچ سکتی تھی۔ اس لیے وہ زیادہ دیر وہاں نہیں رکے۔

لکی مروت سے وہ میانوالی اور اس کے گرد و نواح کے مختلف علاقوں میں بھی رکتے رہے مگر کہیں بھی زیادہ دیر کے لیے نہیں رکتے تھے۔ ‘ان علاقوں میں انھوں نے اپنے شاگردوں یا اپنے بیٹوں کے دوستوں کے پاس پناہ لینے کی کوشش کی مگر کوئی انھیں پناہ دینے پر راضی نہیں ہوا۔’

ایس ایس پی سی آئی اے لاہور شعیب خرم کے مطابق ان تمام علاقوں میں گھومنے کے بعد ملزم مفتی دوبارہ واپس لاہور آ گئے تھے جہاں سے انھیں گرفتار کیا گیا۔ تاہم اگر انہیں پناہ نہیں مل رہی تھی تو وہ لاہور میں کہاں رکے۔

ایس ایس پی سی آئی اے کے مطابق ‘وہ اپنے کسی عزیز کے پاس رکے ہوئے تھے اور لاہور میں ان کی لوکیشن کا پتہ چلانے کے لیے پولیس نے خفیہ اداروں سے بھی مدد حاصل کی۔ انسانی مخبروں کے نظام کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کی مدد سے ہم انھیں گرفتار کرنے میں کامیاب ہوئے۔’

‘معاملہ جرگے کے پاس لے گیا تھا’

ایس ایس پی سی آئی اے لاہور شعیب خرم نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزم نے خود ہی پولیس کو بتایا تھا کہ وہ اس معاملے کو جرگے میں لے کر جا چکے تھے۔ انھوں نے پولیس کے سامنے دعوٰی کیا کہ جرگے نے سوات میں الزام عائد کرنے والے طالب علم کے گھر والوں سے رابطہ قائم کیا تھا تاہم تاحال انھوں نے معاملے کو جرگے کے ذریعے حل کرنے کی حامی نہیں بھری تھی۔

‘ان علاقوں میں عموماً مقامی کسی شہری کے لیے جرگے کے فیصلے کو قبول نہ کرنا یا اس کی پاسداری نہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ تاہم ابھی تک ہمارے پاس مدعی مقدمہ کی طرف سے ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے۔’ ایس ایس پی سی آئی اے شعیب خرم نے بتایا کہ ملزم نے تفتیش کے دوران ملزم نے اس بات سے انکار نہیں کیا تھا کہ انھوں نے طالب علم کو زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ انھوں نے یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ ‘ویڈیو میں طالب علم کا جنسی استحصال کرتے ہوئے وہی نظر آ رہے تھے۔’

ان تمام شواہد کی موجودگی میں علاقے کا جرگہ معاملے کو کیسے ختم کروا سکتا تھا؟ کیا پولیس اس کے باوجود ریاست کی مدعیت میں تحقیقات کر کے ملزم کو سزا دلوا سکتی تھی؟

کیا جرگہ پولیس کی تحقیقات پر اثرانداز ہو سکتا تھا؟

پیر کے روز لاہور میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے لاہور کے ڈی آئی جی انویسٹیگیشن شارق جمال نے بتایا کہ اس واقعے کے رپورٹ ہونے سے ملزم کے گرفتار ہونے تک پاکستان کے وزیرِاعظم مسلسل آئی جی پنجاب کے ساتھ رابطے میں تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس معاملے کی سائنسی بنیادوں پر تحقیقات کر رہی تھی اور پوری کوشش کی جا رہی تھی کہ ملزم کو عدالت سے سزا دلوائی جائے۔ اہم اس میں پولیس کے سامنے دو چیلنجز ہیں۔ معاملہ جرگے کے پاس جانے اور اس کا فیصلہ اس میں ہونے کی صورت میں عدالتی کارروائی پر اثر پڑ سکتا ہے۔

ایس ایس پی سی آئی اے لاہور شعیب خرم کے مطابق دفعہ 377 جس کے تحت ملزم کے خلاف مقدمہ درج کیا گی تھا وہ ناقابلِ دست اندازی پولیس تھا یعنی پولیس اپنے طور پر اس میں ملزم کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتی تھی اگر مدعی ملزم کو معاف کر دے یا کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کرے۔

ملزم کے خلاف شواہد کس قسم کے تھے؟

ایس ایس پی سی آئی اے لاہور شعیف خرم کے مطابق پولیس تمام تر شواہد کو فرانزک یعنی سائنسی طریقے سے اکٹھا کر رہی تھی۔ اس بات کا خیال رکھا جا رہا تھا کہ اکٹھے کیے جانے والے شواہد عدالت کے لیے قابلِ قبول ہوں۔

‘ایک تو جو ویڈیوز ہیں ان کا تصویری تجزیہ اور معائنہ سائنسی طریقے سے کیا جاتا ہے۔ اسی طرح طبی معائنے اور ڈی این اے ٹیسٹنگ کی مدد سے بھی ملزم کے خلاف جرم ثابت کیا جائے گا۔’ ویڈیو کے تصویری تجزیے کی مدد سے یہ ثابت کرنے میں آسانی ہوتی ہے کہ ویڈیو میں نظر آنے والا شخص ملزم خود ہے۔ اسی طرح ڈی این اے ٹیسٹنگ کی مدد سے بھی یہ معلوم کیا جائے گا کہ مدعی مقدمہ کو جنسی زیادتی نشانہ بنانے والا بھی ملزم ہی تھا۔

شواہد کا فرانزک تجزیہ کیوں ضروری تھا؟

پولیس کو ان تمام اقدامات کی ضرورت اس لیے پیش آ رہی ہے کہ اس مقدمہ میں تاحال سامنے آنے والے شواہد اور ثبوت زیادہ تر ویڈیوز اور آڈیو پیغامات اور کالز کی ریکارڈنگ پر مشتمل ہیں۔

پاکستان میں یہ عام طور پر عدالت کی صوابدید ہے کہ وہ ان شواہد کو تسلیم کرے یا نہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس کے لیے ان شواہد کا فرانزک تجزیہ کروانا لازم ہے۔ ایسی صورت میں ماضی میں عدالتیں فرانزک ثبوتوں ہی پر ملزمان کو سزائیں دے چکی ہیں۔

قصور کی کمسن بچی زینب سمیت 12 دیگر بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد قتل کے واقع میں عدالت نے فرانزک شواہد کو تسلیم کرتے ہوئے ملزم کو سزائے موت سنائی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

لاہور: مدرسے میں طالب علم کا مبینہ ریپ کرنے والا ملزم استاد گرفتار

اسلام آباد کی یونیورسٹی میں نوجوان کا مبینہ گینگ ریپ: پولیس اب تک ایف آئی آر کیوں نہیں درج کر سکی

’ریپ کی ذمہ داری ریپ ہونے والے کے بجائے ریپ کرنے والے پر عائد کرنا ہوگی‘

‘گواہان بھی تلاش کیے جا رہے ہیں’

تاہم ایس ایس پی سی آئی اے لاہور کا کہنا تھا کہ پولیس فرانزک شواہد جمع کرنے کے علاوہ موقعے کے گواہان کو بھی تلاش کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔

‘ایسے لوگ ضرور تھے جنھوں نے یہ ہوتے ہوئے دیکھا ہو گا مگر خاموش رہے تھے۔ اس کے علاوہ ہم مدعی مقدمہ سے مزید ویڈیوز حاصل کرنے کی بھی کوشش کر رہے تھے۔’ ان کا کہنا تھا کہ جلد پولیس گواہان سمیت شواہد عدالت میں پیش کر کے ملزم کو سزا دلوانے کی کوشش کرے گی۔

پولیس نے یہ اپیل بھی کر رکھی ہے کہ اگر کوئی طالب علم ملزم مفتی کے ہاتھوں جنسی استحصال کا نشانہ بنا تھا تو وہ رازداری میں پولیس سے رابطہ قائم کر سکتا تھا یا اپنی شکایت درج کروانے کے لیے سامنے آ سکتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp