منی سکرٹ میں ریپ ہونے والی عورتیں


مرد روبوٹ نہیں ہوتا۔ درست ہے، پر عورت بھی تو انسان ہوتی ہے، یا نہیں؟

مرد پر شہوت طاری ہوتی ہے، کون کم بخت انکار کرتا ہے پر عورت کیا برف کی سِل ہوتی ہے؟

مرد ایک عورت سے مطمئن نہیں ہوتا۔ اچھا، مان لیا پر کون سی جنسی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ عورت کو ساری عمر ایک ہی مرد کافی ہوتا ہے؟

مرد کے جنسی اشتعال پر پہرے بٹھانا ضروری ہے۔ ٹھیک ہے کوتوال صاحب پر عورت کی جنسی خواہش کو کبھی کوئی اشتعال سے تشبیہ کیوں نہیں دیتا؟

مرد کچھ بھی پہن لے، کیا فرق پڑتا ہے۔ مان لیتے ہیں حضور، پر یہی آزادی عورت کے لیے کیوں موجود نہیں ہے؟

چلیے وکٹم بلیمنگ والا اعتراض ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ یوں بھی میریٹل ریپ کی طرح ایسی مغربی اصطلاحات ہمارے معاشرے کے لیے اب بھی اجنبی ہیں یا وہ ابھی انہیں سمجھنے کو تیار نہیں۔

پورنوگرافی، فحش میڈیا، ان کا کلچر، ہماری ثقافت۔ لڑکوں اور چھوٹے بچوں کا ریپ۔ یہ ساری بحث بھی فی الحال انگریزی محاورے کے مطابق ہلکی آنچ والے چولہے پر رکھ دیتے ہیں ۔ ذرا ابال آ جائے تو ادھر توجہ دیں گے۔

ابھی کا سوال ذرا سادہ ہے گرچہ جواب پیچیدہ بھی ہے اور شاید نامانوس بھی لگے کہ ہم نے ابھی اس زاویے سے سوچنا سیکھا نہیں ہے۔

دنیا میں لگ بھگ مرد اور عورتیں برابر ہیں۔ ہم جنسیت کو ایک طرف رکھ دیں تو کسی بھی جبری یا اختیاری جنسی تعلق کے لیے دونوں فریقین کی موجودگی ضروری ہے۔ اچھا پھر کیا وجہ ہے کہ ساری احتیاط عورت کے لیے اور ساری تلقین مرد کے لیے مخصوص ہے؟

یہ سوال ہمیشہ عورت کے لیے ہی کیوں اٹھتا ہے کہ اس نے کیا پہنا ہوا ہے۔ اگر عورت کی بکنی یا منی سکرٹ سے مرد کو جنسی تحریک ملتی ہے تو کیا مرد کے شارٹس یا شفاف دھوتی پہننے سے عورت کے جنسی جذبات برانگیختہ نہیں ہوتے؟

دیکھیے، میں بربنائے بحث آپ کی بات مان لیتا ہوں کہ کپڑوں کا تعلق جنسی ہیجان انگیزی سے ہے لیکن پھر آپ یہ بھی مان لیجیے کہ یہ ہیجان، یہ جنون ، یہ اشتعال کسی بھی ایک جنس کی ملکیت نہیں ہے۔

تو پھر بار بار یہ بات دہرانے کی کیا تک ہے کہ دیکھیے عورت چھوٹے کپڑے پہن کر نکلے گی تو ہمارا ٹیسٹیسٹرون لیول اوپر چلا جائے گا اور خواہ مخواہ ہمارا دل ریپ کرنے کو کرے گا۔ جبکہ عورت کے ایسٹروجن بے شک لبریز ہوتے رہیں، وہ شرم وحیا کی دیوی ہی رہے گی۔

لیجیے، یہ رہا اصل مسئلہ۔ یعنی بات یہ ہے کہ ریپ کرنے والا مرد ہے اور ریپ ہونے والی عورت ہے۔ چونکہ طاقت ور کو نکیل ڈالنا مشکل ہے اس لیے کمزور کو پردے میں چن دینا چاہیے۔

پدر سری روایات نے صدیوں میں یہ طے کر دیا ہے کہ عفت، عزت اور عصمت اندام نہانی میں رکھی ہوئی ہے اور جبر، طاقت اور وحشت عمود لحمی پر لپٹی ہوئی ہے۔ ہم نے طے کر لیا ہے کہ چھری کون ہے اور خربوزہ کون ہے۔ اس لیے ساری توجہ خربوزے پر رکھ دی گئی ہے۔

عورت کے کپڑوں سے پیدا ہونے والے جنسی اشتعال سے آپ خوفزدہ ہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں چھری خربوزے پر گرے گی۔ لیکن مرد کی عریانی اور نیم عریانی سے جنم لینے والے جنسی ہیجان کی آپ کو پرواہ نہیں ہے کہ اس کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ خربوزہ چھری پر گر سکتا ہے اور ظاہر ہے خربوزہ یہ کیوں چاہے گا ۔ یعنی چت ہو یا پٹ ہو، نقصان خربوزے کا ہی ہے۔

کنوارا پن عورت ہی سے کیوں مخصوص ہے؟

عورت کو مارنے کی اجازت کی جب مذہبی ذہن سے تاویل نہیں بن پاتی تو وہ اسے عورت کی بدکاری سے مشروط کر دیتا ہے۔ سو بسم اللہ، پر حضور مرد کی بدکاری پر یہی سزا اس کے لیے کیوں نہیں ہے؟

سہاگ رات کو سیج کی چادر پر عورت ہی کا امتحان کیوں ہوتا ہے؟

ایک کے بعد ایک بننے والی فلم اور ڈرامے کی مثلث میں دو زاویے عورت اور ایک زاویہ مرد ہی کا کیوں رہتا ہے؟

پولیگمی جائز کیوں ہے اور پولی آنڈری پر سب کی آنکھیں کیوں باہر آ جاتی ہیں؟

اشتہاروں میں عورت کی سیکس آبجکٹیفی کیشن ہی موضوع بحث کیوں ہوتی ہے؟

بھاگتی ہوئی لڑکی کا سینہ دکھائی دیتا ہے پر ران پر رگڑی جانے والی گیند نظر کیوں نہیں آتی؟

دوپٹے، چادریں، حجاب اور برقعے صرف ایک جنس کے لیے کیوں لازم ہیں؟

ونی اور سوارا میں لڑکوں کے سودے کیوں نہیں ہوتے؟

قرآن سے صرف عورت کی شادی کیوں ہوتی ہے؟

گواہی اور جائیداد میں حصے کے سوال جسم کی ساخت سے کیوں مخصوص ہیں؟

بچے کی پرورش ماں کے لیے مقدم اور باپ کے لیے ثانوی کیوں ہے؟

عورت کی کمائی پر غیرت کیوں جاگ اٹھتی ہے اور مرد کی کمائی پر فخر کا ہار کیوں گلے میں پہننے کو ملتا ہے؟

ان سب سوالوں کا جواب یہ ہے کہ مرد مالک ہے اور عورت ملک ہے۔ ہم ملکیت کی شے کو مالک کے برابر کیسے رکھ دیں۔ ہم آج بھی اس کے قائل ہیں کہ مرد کی پسلی نہ ہوتی تو عورت پیدا ہی نہ ہوتی۔ سائنس، ارتقا اور حیاتیات گئی بھاڑ میں، جہاں تخلیق کا ہر سوتا عورت سے پھوٹتا ہے۔

بھائی میرے، سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ جنسی ہیجان مسئلہ ہے ہی نہیں۔ ذرا غور کیجیے، کیا وجہ ہے کہ مرد کے لیے جنسی اظہار فخر اور عورت کے لیے شرم کی علامت بنا دیا گیا ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ جنسی پیرایے کی ہر گالی میں مرد کو نہیں، عورت کو پرو دیا گیا ہے۔ یہ طے کس نے کیا ہے کہ عورت کا جسم مرکز نگاہ ہے اور مرد کا جسم، مانو ہے کہ نہیں ہے۔ یہ کب فیصلہ ہوا کہ مرد جو لباس مغرب کے ساحل پر پہنتا ہے وہی پاکستان کے سینڈز پٹ پر بھی پہن سکتا ہے لیکن عورت ہو تو اسے بکنی سے برکینی پر آنا پڑے گا اور وہ بھی اس صورت اگر وہ پروگریسو ہو ورنہ تو سمندر کنارے بھی شلوار قمیض ہی مناسب لباس ہے۔

اگر جنسی ہیجان کا تعلق لباس سے ہے تو یقین رکھیے، مردوں کی عریاں ٹانگیں، کھلے بٹن والی قمیض سے جھانکتے سینے، حجاب سے آزاد چمکتے بال، نقاب سے باہر چہرے، بازوؤں کی پھڑکتی مچھلیاں اور آنکھوں کے اشارے عورتوں کے لیے بھی اتنے ہی پرکشش ہیں جتنے مردوں کے لیے عورتوں کا کسی بھی لباس میں ہونا، کم یا زیادہ کا تو سوال ہی نہیں ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ مرد بازار میں سیٹی بجا سکتا ہے۔ فحش لطیفے اونچی آواز میں سنا سکتا ہے، موقع ملنے پر عورت کو چٹکی کاٹ سکتا ہے اور کچھ نہ بھی کرے تو اسے مسلسل گھور گھور کر آنکھوں سے کھا سکتا ہے  اور ہاں، وہ تو میں بھول ہی گیا، موقع مل جائے تو ریپ بھی کر سکتا ہے۔ تاہم عورت کے بارے میں یہ طے ہے کہ وہ ان میں سے کچھ بھی نہیں کر سکتی۔ جانتے ہیں کیوں، کیونکہ اس کے پاس طاقت کچھ کم ہے اور اس کے کردار کا سانچہ مرد طے کر چکے ہیں۔

تو مان لیا کہ جنسی ہیجان لباس کی دین ہے۔ پر یہ دین لکیر کے دونوں طرف ایک جیسی ہے۔ انگریزی کا ایک ہمہ گیر لفظ ہے کونسینٹ۔ اردو میں اس کا ایک کمزور سا ترجمہ رضامندی ہے۔ سو میرے روبوٹ والے فلسفے کا دفاع کرنے والے دوست، روبوٹ کوئی نہیں ہوتا۔ جنسی خواہش بھی ایک سی ہوتی ہے، اس کے عمل انگیز بھی ایک سے ہوتے ہیں۔ پر اس عمل انگیزی کے بعد کی کہانی رضامندی سے لکھی جائے گی، زبردستی تحریر ہو گی یا بس دل میں ایک خواہش بن کر دفن ہو جائے گی۔ سوال اصل میں یہ ہے۔ جواب یہ ہے کہ عورت کے لیے صرف ایک انتخاب ہے اور مرد کے لیے یہ تینوں انتخاب کھلے ہیں۔ صرف اس لیے کہ اس کے پاس طاقت کچھ زیادہ ہے۔

ریاست کا کام وحشت کو قابو میں رکھنا ہے، اس سے خوفزدہ ہو کر مظلوم کو چار دیواری میں چننا نہیں ہے۔ عورت کی کم لباسی کسی کے لیے ریپ کا لائسنس نہیں ہے بالکل اسی طرح جیسے مرد کی نیم عریانی عورت کے لیے اس پر اختیار کا دعویٰ نہں ہے۔  ثقافت کوئی بھی ہو، جیسے عورت سے یہ توقع نہیں رکھی جاتی کہ وہ شارٹس پہننے والے مرد پر چڑھ دوڑے گی ، اسی طرح مرد کی بھی ایسی ہی تربیت کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کم ازکم ان جانوروں جیسا ہی رویہ سیکھ لے جہاں نر، مادہ کی رضامندی کے بغیر اس سے جنسی میل نہیں کر پاتا اور یہ تو ہم جانتے ہی  ہیں کہ جانوروں میں ابھی لباس کا رجحان پیدا نہیں ہوا۔

جس ملک کے تر دماغ بھی عورت کے لباس کو ریپ کا جواز سمجھ لیں تو اس کی تباہی میں کسی کو شک نہیں رہنا چاہیے اور اگر آپ ان میں سے ہیں جو اسے ریپ کا جواز ہرگز نہیں سمجھتے تو پھر مسئلہ کیا ہے؟ عورت جو پہننا چاہتی ہے، پہننے دیجیے۔ آپ یہ طے کرنے والے کون ہیں کہ اس نے کیا پہننا ہے اور کیا نہیں۔ یقین رکھیے، گاجر نما پینٹوں سے لے کر ہر چند کہیں ہے کہ نہیں ہے والی دھوتی جیسے لباس کو زیب تن کرنے والے مردوں سے عورت اس معاملے میں زیادہ سلیقہ رکھتی ہے۔ ویسے پوچھنا یہ بھی ہے کہ جو پچھلے سال کچھ ہزار ریپ ہوئے، ان میں سے کتنی عورتوں نے منی سکرٹ یا بکنی پہن رکھی تھی؟

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments