پیش منظر سے پہلے

عاصمہ شیرازی - صحافی


زمانے میں لڑنے کے انداز بدلے گئے ہیں۔ نہ تو اب ملکوں پر قبضے ہوتے ہیں اور نہ ہی تازہ دم دستے میدان میں اُتارے جاتے ہیں۔

نئے دور کے نئے تقاضوں میں معاشی اور سفارتی محاذ گرم رکھے جاتے ہیں، اندرونی بحران اور تقسیم سے کام لیا جاتا ہے، ریاست مخالف بیانیوں کو اُبھارا جاتا ہے جسے ہمارے ہاں ففتھ جنریشن وار فیئر کا نام تو دیا گیا مگر اسے صرف آخری پہلو یعنی میڈیا اور سماجی میڈیا سے منسوب کر کے دبانے کی کوشش کی گئی۔

اِسی کو جواز بنا کر اظہار رائے پر پابندیوں کا آغاز ہوا۔ طاقت اپنے اظہار کو مخالف اظہار کی ضد بنا لے تو ظاہر ہے کہ ’جنگ‘ کی سی صورتحال جنم لیتی ہے اور ایسا ہی ہوا۔

ففتھ جنریشن وار فیئر کو بغور پڑھیں تو دُنیا میں لڑنے کا یہ پانچواں طریقہ ہے جو دو بدو لڑائی سے جدید اسلحے اور پھر ٹیکنالوجی تک پہنچا ہے۔ جنوری 2020 میں یورپی یونین کی ڈس انفو لیب نے 15 برسوں پر محیط ایک سو سولہ ممالک پر تحقیق شیئر کی جس کے مطابق 500 انڈین جعلی ادارے اور درجنوں این جی اوز یورپی ممالک اور اقوام متحدہ میں پاکستان مخالف بیانیے پر کام کرتی دکھائی گئیں۔

بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک اور ریاست کے اندر کمزوریوں کو اُجاگر کر کے مخالف بیانیے پر کام ہوتا رہا ہے اور پاکستان کے خلاف بھی ہو رہا ہے۔

ان حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو اس وار فیئر سے جُڑے کئی ایک عناصر اور بھی ہیں، مثلاً معاشی عدم استحکام، سیاسی استحصال اور آزادی اظہار کا فقدان۔

کم از کم گذشتہ پانچ برسوں میں جب سے ففتھ جنریشن وار فئیر کا چرچا ہوا ہے دیکھا تو جائے کہ پاکستان کی معیشت کن کن حالات سے گزری ہے اور اب کہاں کھڑی ہے؟

معاشی تنزلی اور بے حد گرتے اشاریوں کے باعث پاکستان پر کئی جانب سے ’بیماریوں‘ نے حملہ کیا۔ 2016-17 تک بہتر گروتھ ریٹ نے وفاق کے ستونوں کو قدرے مضبوط بنیادیں فراہم کیں تو سیاسی عدم استحکام نے دھیرے دھیرے معیشت کو کچوکے لگانا شروع کیے۔

سنہ 2018 کے انتخابات اور پی ٹی آئی سرکار کے آئی ایم ایف سے فوری رجوع کرنے کی بجائے تاخیر نے اُس وقت بھی معاشی تجزیہ کاروں کو تشویش میں مبتلا کیا، کئی ایک نے تو کُھل کر اس رائے کا اظہار کیا کہ پاکستان کسی بھی طرح آئی ایم ایف کو درگزر کرنا افورڈ نہیں کر سکتا تھا، مگر ایسا ہوا۔

آئی ایم ایف سے رابطے کی تاخیر نے کئی ایک معاشی مسائل جنم دیے اور یوں کبھی چین اور کبھی سعودی عرب۔۔۔ ہم کاسہ لیے یہاں اور وہاں پھرتے رہے۔ بعد کے حالات نے ظاہر کیا کہ تاخیر کا فائدہ کس کس نے کس طرح اٹھانے کی کوشش کی۔

سعودی عرب کی جانب سے مؤخر ادائیگی کے ساتھ تیل کی فراہمی پر رضامندی اور پھر اچانک پاکستان سے رقم کی واپسی کے تقاضے کے پیچھے چھپے مضمرات کی تفصیل میں جانا کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھیے۔

چین نے امدادی رقم فراہم کی اور پھر چین سے تعلقات کیوں کشیدہ ہوئے اس پر بحث کسی اور وقت مگر حقیقت حال یہ ہے کہ دُنیا میں کہیں بھی کوئی لنچ کبھی مفت نہیں ہوا۔

اب صورتحال ایک بار پھر نازک مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ ایک جانب ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹک رہی ہے تو دوسری جانب آئی ایم ایف کے پروگرام کی معطلی کی اطلاع ہے، پاکستان کو نئی شرائط کے مطابق (جو تاحال معلوم نہیں) نئے پیکج کے لیے راستہ ہموار کرنا ہے، اس کے لیے عوام قربانی کا بکرا بنیں یا پوری گائے قربان ہو، یہ فیصلہ آنے والے دن ہی کریں گے۔

دوسری جانب خطے کی صورتحال، امریکہ کے پاکستان پر ہر لمحہ بڑھتے دباؤ کے تناظر میں وزیر خزانہ کا امریکہ سے کچھ لو اور دو کی بنیاد پر ’سیٹلمنٹ‘ کا بیان الگ خدشات کو جنم دے رہا ہے۔ وزیر اعظم نے دو ٹوک لفظوں میں امریکہ کو اڈے نہ دینے کے موقف کو دُہرایا ہے مگر اس بات کی ضمانت کیا ہے کہ موجودہ معاشی مجبوریاں کسی بڑے ’کمپرومائز‘ کا جواز نہ بنیں؟

اور یہ کہ ’معاشی مجبوریاں‘ سلامتی کے کن اُمور پر سمجھوتہ کروا سکتی ہیں؟ اس بارے میں خدشات موجود ہیں جن کا تذکرہ حال ہی میں قومی اور سیاسی قیادت کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس سلسلے میں آنے والے چند ماہ بے حد اہم اور فیصلہ کُن ہیں۔

خطے میں ناگزیر ہوتی تبدیلیوں کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے، ایسے میں ریاست کو کیا کرنا ہے؟ نئے محاذ کھولنے کی بجائے اندرونی بحران اور سیاسی تقسیم کو ختم کرنا ہو گا، سیاسی استحکام سے جُڑی معاشی پالیسیوں کا ادراک کرنا ہو گا، ففتھ جنریشن وار فیئر سے نمٹنے کے لیے اظہار پر پابندی کی بجائے آزادی کو یقینی بنانا ہو گا اور فیصلے پارلیمان میں کرنا ہوں گے تب کہیں ان حالات کا مقابلہ ہو پائے گا۔ کیا ارباب اختیار کچھ لو اور دو کے لیے تیار ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).