مدارس اور بوائز ہاسٹلز میں جنسی جبر کا کلچر کون ”ٹریگر“ کرتا ہے؟


جس وقت یہ تحریر لکھی جا رہی ہیں اس وقت تین واقعات شہ سرخیوں میں ہیں۔ ایک عبدالعزیز نامی باریش، سر پر ٹوپی سجائے، مدرسے کے استاد کا اپنے ہی طالبعلم سے زنا بالجبر کی ویڈیو سامنے آنا، واقعہ کی تصدیق ہونا، مدرسہ انتظامیہ کے زیر علم ہونے کے باوجود اس واقعہ کو دبانے کی کوشش، ملزم کا فرار اور با اثر افراد کا متاثرہ فریق پر دباؤ۔ بالآخر ملزم کا پکڑے جانا اور تازہ خبروں کے مطابق اعتراف جرم۔

دوسرا واقعہ اسلامی یونیورسٹی ہاسٹل میں قائد اعظم یونیورسٹی کے طالبعلم کے ساتھ اجتماعی زیادتی، رات بھر کمرے میں قید رکھنا اور صبح اس کا حالت غیر میں اسپتال پہنچائے جانا۔ ملزمان کتنے ہیں، کون ہیں اور متاثرہ فریق کی ویڈیو کون سامنے لایا، ملزمان گرفتار ہو گئے، کس کی مدعیت میں مقدمہ چلایا جائے گا ابھی یہ سب باتیں زیر بحث ہیں۔

تیسری سب سے اہم خبر ہے ملک کے وزیر اعظم کا غیر ملکی جریدے کو انٹرویو جس میں انہوں نے وضاحت سے فرمایا کہ چھوٹے کپڑوں سے مردوں کی دماغی حالت بگڑ جاتی ہے، ضبط کے بندھن ٹوٹ جاتے ہیں اور وہ کیونکہ روبوٹ تو ہیں نہیں اس لیے پھر زیادتی جیسے واقعات پیش آتے ہیں۔ کیونکہ یہاں نائٹ کلب اور ڈسکو کا تو رواج ہی نہیں اور چونکہ مغرب کو وزیر اعظم سے بہتر تو کسی نے دیکھا ہے نہیں، اس لیے ان کی فہم و فراست کا نچوڑ یہ ہے کہ ابھی ملک کا مرد ذہنی بلوغت کی اس حد کو نہیں پہنچا کہ وہ عورت کو دیکھ کر خود پہ قابو رکھ پائے تو عورت پہ ہی سات ہردے ڈالنے پڑیں گے۔ نہ قانون کا ذکر نہ مجرم کو ملامت۔ البتہ سادہ الفاظ میں جرم کو اچھا خاصا جواز فراہم کر دیا۔

اب خود سوچیں۔ باریش بزرگ کی ویڈیو آنے کے بعد ان کے حمایت یافتہ طبقے کی جانب سے کیا تاویل نہ گھڑی گئی۔ ان کو نشہ آور چائے پلائی گئی، ان کے خلاف سازش ہے، وہ تو عمر کے اس حصے میں ہیں کہ ایسی کارکردگی کا مظاہرہ ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ تو بالخصوص اس مکتبہ فکر کے مدارس کے خلاف سازش رچائی گئی ہے، ڈان اخبار والے حمید ہارون کے پیچھے کیوں نہیں پڑتے، انہیں صرف مدارس کیوں کھلتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اب جب بلی تھیلے سے باہر اور ملزم جیل کے اندر جا چکا ہے تو وزیر اعظم کے خطاب کے تناظر میں اس ایک متاثرہ فریق یا ممکن ہے کہ ایک سے زیادہ ہوں۔ ان کی کس بات، کس لباس، کس حرکت سے بڑے میاں ”ٹریگر“ ہو گئے؟ یا وہ گھر سے، راستے میں کوئی کم لباس والی عورت کو دیکھ کر ”ٹریگر“ ہو کر آئے تھے۔ اس معاملے میں کس عورت، کس لباس، کس مغربی ثقافت کے خلاف مقدمہ درج کروائیں؟ وزیر اعظم بتا دیں۔

بوائز ہاسٹل چاہے چھوٹی عمر کے بچوں کا ہو یا نوجوانوں کا، کڑوی حقیقت ہے کہ وہاں ہم جنس پرستی کے تجربات اور جنسی تشدد/زیادتی کے واقعات کم و بیش اتنے ہی عام ہیں جتنے ہم آئے روز مدارس کے واقعات پڑھتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہمارے معاشرے میں مرد پر، لڑکے پر، بچے پر شروع سے ہی معاشرے کی جانب سے غیرت، عزت، مردانگی جیسے ٹیگز کا اتنا بوجھ لاد دیا جاتا ہے کہ نہ وہ ایسے واقعات یا بلیک میلنگ کا کسی سے ذکر کرتے ہیں اور اگر کر بھی دیں تو خاندان یا انتظامیہ باقاعدہ شکایت درج کر کے کارروائی کے چکر میں نہیں پڑتی۔

کوئی اپنے لڑکے پر جنسی زیادتی کا لیبل نہیں لگوانا چاہتا بالخصوص جب سارے زمانے کو پتہ ہو کہ بچہ بورڈنگ میں داخل کیا ہے تا کہ قابل بن سکے۔ اسی جنسی گھٹن، جبر اور ذہنی دباؤ یا تذلیل کے نتیجے میں معاشرے سے بدلہ لینے کا ایک سلسلہ چل پڑتا ہے جس میں آج کے متاثرین مستقبل کے ہوس پرست یا ذہنی بیمار بن جاتے ہیں اور اپنے سے کمزور پر اختیار اور طاقت کا مظاہرہ پیش کرتے ہیں۔ اگر آپ کو یہ تحریر بری یا جھوٹی لگ رہی ہے تو یقین کر لیں کہ ہمارے ہاں لڑکوں سے زیادتی یا بچپن میں جنسی جبر کے واقعات آپ کی سوچ سے کہیں زیادہ ہیں۔

سمجھ سے باہر ہے کہ بوائز ہاسٹل میں کون کم کپڑے پہن کر ”ٹریگر“ کرتا ہو گا؟ تین، چار سال تو دور ڈائپر پہنی بچیاں کیسے کسی مرد کو شہوت پر اکسا سکتی ہیں؟ سندھ کی اندھی ڈولفن نے کون سا بیہودگی کا مظاہرہ پیش کیا ہو گا؟ لڑکے، بچے کیوں مدارس یا بورڈنگ میں اس جبر کو کسی نہ کسی مرحلے پر بالجبر یا بالرضا یا کسی پیشکش کی صورت سامنا کرتے ہیں؟ قبر میں موجود مردہ خواتین سے زیادتی کے متعدد واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ کفن تو سب کا برابر ہوتا ہے۔

ریاست کے سربراہ کو جرم کو جواز نہیں دینا چاہیے۔ پردہ، شریعہ، گھر میں بند ہو جانا یہ ریاست کے کہنے کی باتیں نہیں۔ ریاست کا کام ہے شہریوں کو ہر حالت میں تحفظ فراہم کرنا چاہے وہ ایک با پردہ، با عزت خاتون ہو یا اسکرٹ پہنی کوئی نوجوان لڑکی۔ آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ جس نے اسکرٹ، جینز پہن لی وہ آپ کو لائسنس دے بیٹھی کہ میں دستیاب ہوں۔

یاد رکھیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کون کس طرح اپنے دینی، صنفی اور معاشرتی تعصب کی بنیاد پر معاشرے کو غلط تصورات پیش کرے۔ جنسی جرائم اور زیادتی کا لباس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ”چھوٹے لباس سے ٹریگر ہونے“ کی منطق فضول ہے۔ آدھی دنیا آپ کی منطق کو روز پامال کر رہی ہے۔ کیا وہاں سڑکوں پر چیر پھاڑ مچی ہوئی ہے؟ آپ کو صرف سخت قوانین اور تیز تر انصاف کی فراہمی کی ضرورت ہے۔ آج ملک کا سربراہ کہتا ہے کہ عورت نے چھوٹے کپڑے پہنے تو ریپ ہو گا، موٹروے کیس میں سی سی پی او پوچھتا تھا رات کو اکیلی نکلی ہی کیوں؟ مطلب اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کرو اور فضول جواز ڈھونڈ کر متاثرہ فریق کو ذلیل کرو کہ غلطی تو آپ کی ہی ہوگی۔

جس کے دماغ پر ہوس سوار ہے اور جسے یہ بتا دیا جائے کہ وہ عورت کو دیکھ کر خود پر قابو کھو بیٹھے گا کیونکہ وہ روبوٹ تو نہیں، تو جنسی بیمار لوگ تو خونی رشتوں کا تقدس بھول جائیں گے۔ یہاں دارالافتاء کی ویب سائٹ پر موجود ایک سوال رقم کر رہی ہوں جو انتہائی بیہودہ ہے۔

سوال نمبر 51216 :
بیٹی کا ہاتھ پکڑنے میں شہوت پیدا ہو جانا

دارالافتاء دیوبند، انڈیا کے پیج کا لنک یہ ہے۔

https://darulifta-deoband.com/home/ur/nikah-marriage/51216

”ہوا یہ ہے کہ میری لڑکی چودہ سال کی ہے، اس کو اسکول چھوڑنے بائک سے لے جاتا ہوں اور کبھی روڈ پار کرنا ہے تو ہاتھ پکڑ کر کرتا ہوں، گھر میں اس کو پڑھاتے وقت مارتا بھی ہوں، صبح اسکول کے لیے جگاتا بھی ہوں اور میں سرعت انزال کا مریض بھی ہوں شہوت بہت جلدی بھڑک جاتی ہے، تو کیا ایسی حالت میں بیوی حرام ہو جائے گی؟“

اس کے جواب میں کہیں بھی اس شخص کی ذہنی حالت کی جانب اشارہ یا مذمت نہیں کی گئی البتہ اسے ڈھارس بندھوا دی گئی۔ یہی وہ قصور ہے جو معاشرہ جنسی مریض کو دانستہ یا غیر دانستہ ہوس پرستی کی اجازت دیتا ہے اور قصور متاثرہ فریق کو دیا جاتا ہے۔

اگر آپ کسی بد کردار، بچے باز یا جنسی نفسیاتی مریض کو ”لباس کے ذریعہ ٹریگر“ کہہ کر خرابی کا جواز پیش کرتے ہیں تو یاد رکھیں، یہ سب ذہن کی اختراع ہے۔ وہ مٹی کے پتلوں، جانوروں، قبر کے مردے یہاں تک کہ خونی رشتوں کو بھی ہوس و بیہودہ تصورات دے سکتے ہیں۔ ضمیر کے تناظر میں، ہمیشہ متاثرین کے ساتھ کھڑے ہوں۔ کبھی بھی جرائم کے جواز نہ تراشیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments