جلتی آگ پر تیل ڈال کر ٹھنڈا کرنے کی حماقت


ہمارے ملک پاکستان میں جنسی تشدد کی واقعات کا سامنے آنا بڑی تشویش کی بات ہے اور یہ اس کا غماز ہے کہ ہمارا معاشرہ اخلاقی گراوٹ اور پستی سے دوچار ہے۔ المیہ یہ بھی ہے کوئی بھی سنجیدگی کے ساتھ اپنی ذمہ داری کو نبھانے اور موثر کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہے۔ حکومت کی بے حسی اور پہلو تہی بلکہ ”جلتی پر تیل ڈالنے کی روش“ تو عیاں ہے لیکن معاشرتی طور بھی اس حساسیت اور نزاکت کا احساس ہے ہی نہیں۔ کوئی احساس کیا، دو قدم اگے بڑھ کر اس طرح کی دلخراش واقعات کی آڑ میں بہت سارے اپنا چورن بیچنے کی تاک میں رہا کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان واقعات کی نہ کوئی ایک سبب ہے اور نہ اصلاح احوال کا کوئی ایک نکاتی فارمولہ بلکہ بہت سارے عوامل اور اسباب مل کر اس طرح اپنا اثر دکھاتا ہیں۔ عین اسی طرح ہمہ پہلو انداز سے تجزیہ کر کے خرابیوں اور اسباب کا تعین کرنا اور اس ”وبائی مرض“ کی تشخیص کر کے کوئی علاج کیا جانا ممکن ہے۔

ایک خاص طبقہ اس طرح کی واقعات کے لئے دور کی کوڑی لا لا کر تان ان کی یہاں آ کر ٹوٹتی ہے کہ ”سرطان“ کا سبب ”جنسی گھٹن“ اور علاج اس کا ”آزادی اور کھلا ڈھلا معاشرہ“ ہے۔

عقیدہ ان کا یہ ہے کہ ”بنیادی مسئلہ مشرق مغرب کا نہیں ہے، جنسی گھٹن کا ہے۔ ایک جنسی گھٹن ہی نہیں، گھٹن کی ہر قسم غیر فطری پابندیوں سے جنم لیتی ہے۔ گھٹن بڑھ جائے تو گنبد کا دروازہ کھولنا پڑتا ہے۔ یا پھر وقت آتا ہے کہ لاوا گنبد پھاڑ کے نکلتا ہے اور جبر کے ہر نشان کو بہا کر لے جاتا ہے۔“

تشخیص ان کی یہ ہے کہ ”تہذیب مشرق کے اس گھن چکر نے دریا کے کنارے بیٹھے ہوئے انسان کو بھی محروم ہی رکھا ہوا ہے۔ سچائیوں میں بڑی سچائی یہ ہے کہ محرومی اپنا ازالہ چاہتی ہے۔“

عزیزم شمس الدین امجد نے درست نشاندہی کی ہے کہ

”کیا طرفہ تماشا ہے کہ جنسیت سے آزادی کا نسخہ جنسیت کے لیے کھلی“ آزادی ”بہم پہنچانا ہے، جی وہی مادر پدر آزادی۔ گھٹن نہ ہوگی اور عورت/جنس تک رسائی ہوگی تو یہ“ ٹوٹ پڑنے ”یا“ نوچ ”کھانے کے جذبہ حیوانیت کی اصلاح ہو جائے گی۔ یعنی اگر کہیں ایک حیوان چھپا بیٹھا ہے، تو اس کے خاتمے کی صورت یہی ہے کہ پورے معاشرے کو حیوان بنا دیا جائے۔ عجیب نسخہ فروش ہیں، جن سے اس قوم کا پالا پڑا ہے۔“

”یہ اتائی جو نسخہ آدھا پونا سمجھ کر یہاں بیچنا چاہتے ہیں، مغرب میں تو یہ دھڑا دھڑا فروخت ہو چکا ہے، ایسے کہ مذہب، خاندان، رشتے ناتے، سب عین اسی نہج پر ہیں جسے ہمارے ہاں کا اتائی طبقہ اکسیر سمجھتا ہے اور زور دے رہا ہے کہ نجات اسی میں ہے کہ آنکھیں بند کر کے اسے اپنے اندر اتار لیا جائے۔“

مذہب کو بیچ سے ہٹانا راہ نجات ہے، اور پابندیاں ختم کر کے ”گھٹن“ دور ہو سکتی ہے اور ہوس کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے، تو مغرب نے تو یہ کر کے دیکھ لیا ہے، اور اس کو قانونی تحفظ بھی فراہم کیا ہوا ہے تو وہاں اس کا نتیجہ کیا یہ نکلا ہے کہ ”بھوک“ ختم ہو گئی ہے؟ منہ مارنے کی اتنی آزادی ہے تو کیا کوئی کسی کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا؟ چلو باہر قابو میں نہ رہے، تو کیا مقدس رشتے بچے ہوئے ہیں؟

جہاں مکمل ”آزادی“ اور ”جنس کی ارزانی“ ہے اور گٹر کے منہ ہمہ وقت کھلے رہتے ہیں وہاں سوال ”ننگی جسموں پر ہے اور یا بے لگام نظروں پر؟ قصور وار مذہبی پابندی ہے یا مشرقی معاشرتی اقدار اور یا خود ساختہ جنسی گھٹن؟

مغربی ذرائع ابلاغ کے اپنے اعداد و شمار تو یہ بتاتے ہیں کہ اس کے باوجود بھوک کنٹرول سے باہر ہو گئی ہے، نفس پر قابو پانا مشکل ہو گیا ہے، بات ہم جنس پرستی اور مقدس رشتوں سے آگے بڑھتے ہوئے جانوروں تک جا پہنچی ہے، اور گھوڑوں گدھوں اور کتوں تک سے بھی شادیاں رچائی جا رہی ہیں۔

ابھی چند دن پہلے ہی بی بی سی نے برطانیہ میں سکولوں کے نگراں ادارے اوفسٹیڈ کی تحقیق شائع کی ہے، جس کے مطابق ہر 10 میں سے نو لڑکیوں کو سکولوں میں جنسی تعصب کا سامنا ہے۔ انھیں برہنہ تصاویر اور ویڈیوز بھیجی جاتی ہیں، جنسی ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ کچھ لڑکیوں سے ایک رات میں 11 لڑکے بھی برہنہ تصاویر بھیجنے کا مطالبہ کرتے ہیں، (جی! ایک رات میں ایک لڑکی سے 11 لڑکے مطالبہ کرتے ہیں ) ۔ اس سے آگے دل تھام کر پڑھنے والی بات یہ ہے کہ ایسے تقریباً 2000 کیسز میں متاثرہ اور ملزم دونوں ہی 10 سال یا اس سے کم عمر کے تھے۔

آپ ذرا ملاحظہ کریں کہ جو نسخہ ہمیں اکسیر کہہ کر ہاتھ میں پکڑایا جا رہا ہے، اس کے اثرات سے 10 سال سے کم عمر کے لڑکے لڑکیاں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اسی رپورٹ کے مطابق 2018 ء سے 2020 ء کے درمیان برطانیہ میں 18 سال سے کم عمر افراد کے کم از کم 13 ہزار جنسی جرائم کی اطلاع پولیس کو دی گئی ہے۔ تو گویا یہ وہ حل ہے جو تجویز کیا جا رہا ہے۔ اور یہ وہ آزادی ہے جس کا پرچار ہو رہا ہے۔

رپورٹ کا لنک:
https://www.bbc.com/urdu/world-57436456

ڈی ڈبلیو پر ایک مضمون شائع ہوا ہے، اور اسی ڈی ڈبلیو کی رپورٹ ہے کہ برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں ریپ کلچر بڑھ رہا ہے۔ اور یہ وہاں ہو رہا ہے جہاں رضامندی سے ہونا قانونی بھی ہے اور کلچر بھی۔ گھٹن دور تک نہیں ہے، شاید گھٹن نامی چیز سے سرے سے واقفیت ہی نہ ہو، ہر طرح کی آزادی میسر ہے، تو پھر اس سب کی موجودگی میں ریپ کلچر بڑھنا چہ معنی دارد؟ وارک یونیورسٹی میں کچھ طالبات نے کیمپس میں ہی احتجاجی کیمپ لگایا ہے۔ آن لائن تقریباً 16 ہزار لڑکیوں نے گواہی دی ہے، کتنی بھلا؟ جی 16 ہزار، اور 44369 لڑکیاں اس آن لائن کمیونٹی میں شامل ہوئی ہیں۔ اور یہ تو صرف برطانیہ کے اعداد و شمار ہیں۔ باقی مغربی ممالک اور امریکہ پر نظر دوڑا لیں تو سانس لینا شاید دشوار ہو جائے۔

رپورٹ کا لنک
https://www.facebook.com/watch/?v=149928877091492

2014 ء میں یورپی یونین کے بنیادی حقوق کے ادارے کے سروے نتائج کے مطابق یونین میں شامل ممالک کی تقریباً ایک تہائی خواتین 15 برس کی عمر سے جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار رہی ہیں۔ یہ تعداد چھ کروڑ 20 لاکھ کے لگ بھگ بنتی ہے۔ یہ اس موضوع پر لیا جانے والا اب تک کا سب سے بڑا جائزہ ہے۔ روادری میں آپ نے اعداد و شمار پڑھ لیے ہوں گے اور گزر رہے ہوں گے، مگر ذرا رکیے اور پھر پڑھیے گا کہ یہ کل آبادی کی ایک تہائی خواتین کی بات ہو رہی ہے، جی ہاں ایک تہائی، مبلغ 6 کروڑ 20 لاکھ، اور عمر کتنی بتائی گئی ہے، جی ہاں! صرف 15 سال، اور یہ وہاں ہو رہا ہے جہاں شراب، شباب، کباب سب ارزاں ہیں۔ اور یہ پہلو بھی ذہن میں رہے کہ ایک تہائی تو وہ ہیں جو زبردستی نشانہ بنتی ہیں، باہمی رضامندی والے اعداد و شمار کا تو کوئی ذکر ہی نہیں۔

رپورٹ کا لنک
http://www.bbc.com/urdu/world/2014/03/140305_eu_women_violence_report_zs

امریکہ میں ایک منٹ کے دوران 25 لوگ جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ سروے کے مطابق 12 ماہ کے عرصے کے دوران 10 لاکھ عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات سامنے آئے، 60 لاکھ سے زائد مرد اور خواتین کا تعاقب کیا گیا جبکہ 1 لاکھ 20 ہزار مرد و خواتین نے اپنے ہی ساتھی کی جانب سے جنسی زیادتی، جسمانی تشدد یا تعاقب کیے جانے کی شکایت کی۔ ایک اور سروے کے مطابق ہر 5 میں سے ایک عورت زندگی میں کبھی نہ کبھی جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہے۔

ایک دوسرے سروے کے مطابق یونیورسٹی کی تعلیم دوران بھی ہر 5 میں سے ایک طالبہ جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ ایک بات دلچسپ ہے اور جس کا پاکستان کے تناظر میں شکوہ کیا جاتا ہے کہ خوف کے ماحول کی وجہ سے کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے مگر یہ بات امریکہ کی ہے اور رپورٹ کے مطابق اب بھی جنسی تشدد کے واقعات کو وہاں بہت کم رپورٹ کیا جاتا ہے۔ کالج اور یونیورسٹی میں جنسی تشدد کا شکار ہونے والی صرف 12 فیصد خواتین کا مقدمہ پولیس تک پہنچ پاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ہر 7 میں سے 1 مرد بھی اپنے ساتھی کے ہاتھوں شدید نوعیت کے جنسی و جسمانی تشدد کا شکار ہوتا ہے۔ اور 25 فیصد مردوں کو تو 10 سال سے کم کی عمر میں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

رپورٹ کا لنک
http://www.bbc.com/urdu/world/2011/12/111215_us_women_rape_tk

سنہ 2006 سے امریکی فوج میں جنسی جرائم میں 30 فیصد اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں میں 43 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 2003 ء میں ریٹائرڈ فوجی عورتوں سے انٹرویو پر مبنی سروے میں انکشاف کیا گیا کہ 500 میں سے کوئی 30 فیصد عورتوں کا دوران ملازمت ریپ ہوا۔ جی ریپ ہوا، رضامندی والا معاملہ تو الگ رہا۔ وزارت دفاع کے سال 2009 ء میں ہونے والے سروے کے مطابق فوج کے اندر ہونے والے جنسی زیادتی کے کوئی 90 فیصد واقعات رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے۔ جی یہ 90 فیصد واقعات رپورٹ نہ ہونے کی بات امریکہ سے متعلق ہے، پاکستان کی نہیں۔

رپورٹ کا لنک
http://www.bbc.com/urdu/world/2010/02/100218_usmilitary_sex_mah

2009 ء میں برطانوی خیراتی ادارے چائلڈ لائن کے مطابق ان کے پاس ایسی شکایات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے جن میں بچوں نے خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ چائلڈ لائن کے مطابق 2004 ء سے 2009 ء کے درمیان موصول ہونے والی ایسی شکایات کی تعداد میں مردوں کی جانب سے بچوں کو ہراساں کرنے کے واقعات کے مقابلے میں پانچ گنا اضافہ ہوا ہے۔ صرف 2008 ء میں 16 ہزار سے زائد بچوں نے ادارے کی ہیلپ لائن پر فون کیا، ان میں سے 2 ہزار 142 نے کسی خاتون کو اس عمل کا ذمہ دار ٹھہرایا اور یہ تعداد سنہ 2004 ء کے مقابلے میں 132 فیصد زیادہ ہے۔ ملاحظہ کیجیے گا کہ ایسی آزادی ملی ہے کہ مرد ایک طرف خواتین بھی بچوں کو اپنی مشق ستم کا نشانہ بناتی ہیں۔ 2013 میں آکسفورڈ میں ایک جنسی سیکنڈل منظر عام پر آیا اور انکشاف ہوا کہ شہر میں سرگرم جنسی گروہ نے 16 برس میں کم از کم 273 لڑکیوں کا جنسی استحصال کیا۔

رپورٹ کا لنک
http://www.bbc.com/urdu/world/2009/11/091109_child_abuse_women_zs

اور برطانیہ سے متعلق یہ رپورٹ بتا رہی ہے کہ کام پر جانے والی نصف خواتین کو جنسی طور پر ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ برطانیہ میں جہاں خواتین مردوں کی طرح ہی کام کرتی ہیں، یہ تعداد لگ بھگ کروڑ تک جا پہنچتی ہے۔

رپورٹ کا لنک
https://www.bbc.com/news/uk-37025554

2014 ء میں یہ رپورٹ سامنے آئی جس کے مطابق دنیا میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے پانچ بڑے ممالک جنوبی افریقہ، انڈیا، زمبابوے، برطانیہ اور امریکہ ہیں۔ کینیڈا میں، یورپ اور امریکہ میں چرچ اور پادری بھی پیچھے نہیں ہیں۔

رپورٹ کا لنک
http://www.ibtimes.co.uk/child-sexual-abuse-top-5-countries-highest-rates-1436162

بتایا جاتا ہے کہ آزادی میسر ہو تو پھر عورت کو کوئی نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا، مگر یہ رپورٹس تو کچھ اور کہانی سنا رہی ہیں، اور یہ سب وہاں ہو رہا ہے، جہاں اس سب کچھ کی پہلے ہی آزادی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں اکا دکا واقعات کی وجہ اگر معاشرتی جکڑ بندی اور مذہبی گھٹن ہے تو یہ امریکہ و برطانیہ اور یورپی یونین میں ایسا کیوں ہے جہاں اس سب کی آزادی ہے۔ ”

اہل دانش کی سوچی سمجھی رائے ہے کہ ”جنسی تشدد کے واقعات میں اضافے کی ایک بنیادی سبب“ جنسی فرسٹریش ہے ”

جرائم جس قسم کی بھی ہیں اس کی روک تھام اور اصلاح احوال کے حوالے سے اسلام کی تعلیمات اور ہدایات کا خلاصہ یوں بیان کیا جاسکتا ہے۔

تعلیم و تربیت، اصلاح معاشرہ، ذرائع کا سدباب اور تادیب۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر

اور یہ سب ممکن ہے اصلاح نظام اور ریاست کی درستگی سے۔ ریاست ہمہ پہلو اصلاحات اور اقدامات کر کے ہی معاشرے کو جنت بنا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments