آزاد کشمیر انتخابات


آزاد کشمیر پاک و ہند کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ دس اضلاع پہ مشتمل آزاد کشمیر کا کل رقبہ 13، 300 مربع کلومیٹر ( 5، 135 مربع میل) پر پھیلا ہے اور کل آبادی 40 لاکھ ہے۔ شرح خواندگی 74 % ہے جو پاکستان کے تمام صوبوں سے زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے یہاں کی عوام باشعور اور امن پسند ہے۔ پاکستان کے اس خطے میں فرسودہ رسم و رواج نہ ہونے کے برابر ہیں۔ زندگی کے ہر شعبہ میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں۔ تعلیمی تناسب بھی مردوں کے مقابلے میں برابر ہے۔

اگرچہ سہولیات کم لیکن خواتین کی تعلیم کو بھی ویسی ہی فوقیت دی جاتی ہے جیسے مردوں کی تعلیم کو۔ عوام کی اکثریت قدامت پرستی سے دور اور روشن خیال ہے لیکن مذہب اور معاشرتی اقدار کا یہاں سب سے زیادہ پاس رکھا جاتا ہے۔ برداشت و رواداری بھی یہاں کی معاشرتی زندگی کا اہم جز ہے۔ سیاسی اور نظریاتی اختلافات کے باوجود آپس میں اتحاد و اتفاق پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شدید سیاسی اختلافات رکھنے والے بھی ذاتی زندگی میں ایک دوسرے سے کوئی کینہ نہیں رکھتے بلکہ ایک دوسرے سے باہم احترام و محبت سے پیش آتے ہیں۔ اس باہمی احترام کی مثالیں اکثر دیکھنے کو ملتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امن کا تناسب بھی باقی صوبوں کی نسبت زیادہ ہے۔

البتہ تعلیمی شرح بہت زیادہ ہونے کے باوجود آزاد کشمیر میں بے روزگاری کی شرح زیادہ اور تعمیر و ترقی کی رفتار انتہائی سست ہے۔ اس کی وجہ پاکستان میں ملازمتوں میں کشمیر کا کوٹہ بہت کم یا موجود نہیں ہے۔ کشمیر کا کوٹہ آبادی کے تناسب سے رکھا جاتا ہے نہ کے شرح خواندگی کی بنا پہ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک پرائمری ٹیچر کی نشست کے لیے سینکڑوں پی ایچ ڈی، ایم فل اور ماسٹر ڈگری ہولڈر موجود ہوتے ہیں۔

آزاد کشمیر میں انتخابات اس وقت وقوع پذیر ہوتے ہیں جب پاکستان میں انتخابات کو لگ بھگ تین سال کا عرصہ بیت چکا ہو یہی وجہ ہے کہ آزاد کشمیر میں برسر اقتدار آنے والی جماعت پہ وفاق میں موجود حکمران جماعت کا گہرا اثر پڑتا ہے۔ اور وفاق میں موجود سیاسی جماعت ہی کشمیر میں انتخابات جیتتی ہے۔ آزاد کشمیر کی بڑی سیاسی جماعتوں میں مسلم کانفرنس، پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ شامل ہیں۔ پی ٹی آئی کشمیر کے سیاسی منظر نامے پہ ابھرنے والی نئی جماعت ہے۔

کل تک اکا دکا سیاستدانوں کی جماعت کو آزاد کشمیر میں سہارا بیرسٹر سلطان محمود کی جماعت پیپلز مسلم لیگ کی شمولیت نے دیا یوں کشمیر کے سیاسی منظر نامے پہ ایک نئی جماعت کا اضافہ ہوا اور اس کے ساتھ ہی عوام بالخصوص نوجوان طبقے کی توقعات بھی اس سے وابستہ ہو گئیں۔ عمران خان نے اقوام متحدہ میں اپنی تقریر کے دوران جارحانہ موقف اپنا کر کشمیری عوام کے دل جیت لیے تھے ساتھ ہی آزاد کشمیر کے عوام اپنی تعمیر و ترقی کے لیے بھی عمران خان سے کئی توقعات لگا بیٹھے تھے۔

ان توقعات پہ پانی اس وقت پھرا جب پارٹی نے مخلص اور محنتی قیادت کو مکمل نظر انداز کرتے ہوئے ٹکٹوں کی خرید و فروخت شروع کی۔ پی ٹی آئی کو کشمیر میں کم وقت میں اہم ترین حیثیت دلانے والے پارٹی کی مرکزی قیادت کے لیے ایک دم سے غیر اہم ہو گئے۔ اس کی اہم ترین مثال نون لیگ کے چند وزرا کو فوراً استعفے دلوا کر ٹکٹ دینا اور خاص طور پر مظفرآباد میں پارٹی کے ایک اہم، ایمان دار اور محنتی ضلعی صدر سردار تبارک سے ٹکٹ لے کر اس شخص کے حوالے کرنا ہے جو چند ماہ قبل پارٹی میں شامل ہوا تھا۔

اس کے علاوہ پارٹی ٹکٹ ان لوگوں کو جاری کیے گے جو ہر الیکشن میں پارٹی بدل کر آ جاتے ہیں۔ ان اقدامات نے نہ صرف مرکزی جماعت کا چہرہ مسخ کر دیا ہے بلکہ ایک دم سے اس کی مقبولیت آسمان سے زمین پہ آ چکی ہے یہی وجہ ہے کہ عوامی رائے پھر سے پی ٹی آئی سے تبدیل ہو کر پیپلز پارٹی کی طرف مڑ چکی ہے۔ یوں پی ٹی آئی برسر اقتدار آنے سے قبل ہی عوام کی مایوسی کی وجہ بن چکی ہے۔ اس کے ساتھ ہی پنجاب اور مرکز کے دو پی ٹی آئی وزرا اپنے کم علمی کے باعث کشمیریوں کو چٹے ان پڑھ اور جاہل کہہ چکے ہیں [جن کی خود اپنی تعلیمی قابلیت شاید دس جماعتوں سے زیادہ نہ ہو] یہ سب آزاد کشمیر کی پڑھی لکھی عوام آسانی سے فراموش نہیں کر سکتی۔

لیکن جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق آزاد کشمیر اور وفاق میں انتخابات علیحدہ ہونے کی بنا پہ وفاقی حکومت کا اثر رسوخ گلگت اور کشمیر میں بہت زیادہ ہوتا ہے تو اکثر عوامی رائے سے یکسر الگ حکومت بھی بن جاتیں ہیں۔ جو عوام کے تابع ہونے کے بجائے مرکزی حکومت کے تابع ہوتی ہیں۔ اور ہمیشہ سے اس کا سراسر نقصان عوام کو اٹھانا پڑتا ہے۔

رہی سہی کسر کشمیر کونسل پوری کر دیتی ہے جو آزاد کشمیر میں تعمیر و ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ کشمیر کونسل کے ممبران اہلیت کے بجائے ہمیشہ پیسے کی بنیاد پہ منتخب ہوتے ہیں اور ہمیشہ مرکزی قیادت کا دم بھرتے نظر آتے ہیں۔ ایک صاحب جو ایک پچھلے دور میں پیسے کی بنا پہ کشمیر کونسل کا ٹکٹ حاصل کر چکے ہیں اب نئی جماعت میں شامل ہو کر اپنے امیدوار کو ٹکٹ دلوا کر اپنی نشست کشمیر کونسل میں ایک بار پھر مضبوط کر چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر کونسل اپنا حقیقی کردار ادا کرنے کے بجائے محض وفاق اور کشمیر میں چپقلش کا باعث بنتی جا رہی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کشمیر میں فی الفور آئینی تبدیلیاں لائی جائیں اور ساتھ ہی صاف شفاف انتخابات کے عمل کو یقینی بنایا جائے تا کہ سب سے زیادہ شرح خواندگی رکھنے والے اس علاقے کو ترقی بھی اسی کے مطابق ملے۔ ورنہ بلوچستان جیسی محرومی کشمیر کے باشعور پڑھے لکھے طبقے میں پیدا ہو گئی تو یہ کسی طوفان کی صورت اختیار نہ کر جائے۔ کشمیر کونسل کے ذریعے کشمیر کو ہانکنے کے بجائے آزاد کشمیر اسمبلی کو بھی صوبائی اسمبلیوں کے برابر اختیارات دینے کی ضرورت ہے تا کہ حقیقی عوامی قیادت سامنے آ سکے جو یہاں کی عوام کو اس کے حقوق دلوا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments