منشیات کے سوداگر اور بیچاری مائی


ایڈیشنل آئی جی کراچی عمران یعقوب منہاس 11 مئی کو تعینات ہوئے ہیں۔ اب کراچی پولیس جو بھی کرے گی وہ چاہے اچھا ہو یا برا چیف کے کھاتے میں ہی ڈالا جائے گا، یہ ہی ریت ہے اور یہ ہی رواج۔

ماضی میں پولیس حکام ہو یا کوئی ماہر یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ منشیات کی فروخت شہر میں اسٹریٹ کرائم کی ایک بڑی وجہ ہے اور اسٹریٹ کرائم کا جن شہر میں کس طرح خون کی ہولی کھیل رہا شاید ہی کوئی ہو جو واقف نہ ہو۔ منشیات کہاں کہاں فروخت ہوتی ہے یہ بات بھی ہر ایک جانتا ہے مگر میں آج آپ کو ان کے ٹھکانوں کے بجائے ایک واقعہ سنانا چاہتا ہوں

ایک دن کراچی پولیس چیف کے کمرے میں ایک صحافی داخل ہوا اس نے پولیس چیف سے مخاطب ہو کر کہا کہ *کیا آپ کو معلوم ہے مائیں آپ کو جھولیاں اٹھا اٹھا کر بد دعائیں دے رہی ہیں *

پولیس چیف اس صحافی کو غور سے دیکھنے لگے، وہ صحافی شہر کا درد بیان کر رہا تھا، صحافی نے کہا ایک گوٹھ ایسا بھی جہاں ایک وقت میں 200 کے قریب بچے، جوان اور بڑے بیٹھ کر منشیات کا زہر اپنے اندر داخل کرتے ہیں اس بستی کا ہر تیسرا گھر منشیات کا عادی ہو چکا ہے وہاں پولیس کا قانون نہیں بلکہ منشیات فروشوں کا قانون چلتا ہے۔ اس گوٹھ میں ایک مائی بھی رہتی ہے جس کا بیٹا اب نشہ کا عادی ہو چکا ہے وہ اپنے بچے کو لے کر فکر مند ہے۔ وہ ڈرتی ہے کہ جب اس کے لڑکے کے پاس نشہ کا پیسہ نہیں ہوگا تو وہ ڈکیتی مارے گا تو *کوئی پولیس افسر اس کو ٹھوک دے گا اور ہم صحافی خبر پیٹیں گے کہ پولیس کا مقابلہ ایک ڈکیت مارا گیا*

وہ مائی کہتی ہے کہ اس شہر کا بڑا افسر اس اڈے کو کیوں بند نہیں کراتا؟ اور اگر وہ اڈا بند نہیں کرواتا تو پھر وہ ہی پشت پر ہوگا ناں؟ وہ کہتا ہوگا بیچو اس منڈی میں جتنا زہر بیچنا ہے بیچو۔ *میں تمھاری پشت پر ہوں * آخر اتنی طاقت اور اختیار کے بعد بھی منشیات اڈا قائم رہے یہ کیسے ممکن ہے؟ صحافی نے چیف کی انکھوں میں انکھیں ڈال کر کہا خدا نے آپ کو عہدہ دیا ہے اختیار بھی دیا ہے خدا آپ سے اس کا سوال بھی کرے گا

صحافی نے بات مکمل کی اور چلتا بنا۔
کچھ دن بعد نتائج سامنے آئے اور وقتی طور پر ہی سہی اس گوٹھ میں منشیات بکنا بند ہو گئی۔ کچھ عرصہ بعد افسر کا تبادلہ ہو گیا اور نئے چیف نے عہدہ سنبھال لیا ہے۔ اب ایک وڈیو منظر عام پر آئی ہے جس میں سرجانی کا پولیس اہلکار۔ گرفتار منشیات فروش کے اہل خانہ سے فل فرائی (قتل) نہ کرنے کے 30 لاکھ روپے طلب کر رہا ہے۔ خفیہ وڈیو میں منشیات کے سودا گروں سے کراچی پولیس سودے بازی کر رہی ہے
پولیس حکام نے ثبوت سامنے آنے پر ایس ایچ او سمیت 5 اہلکاروں کی گرفتاری تو ظاہر کردی ہے مگر اس پورے معاملہ پر اب سوالات اٹھ رہے ہیں۔ نا جانے کتنے پیسہ پہلے لیے جاتے رہے ہیں اور کتنا پیسہ لیا جاتا رہے گا۔ ایک سپاہی کیا بغیر پشت پناہی کے اتنی بڑی سہولت کاری میں ملوث ہو سکتا ہے؟

اور نہ جانے کتنے منشیات فروشوں کی پشت پناہی کا فریضہ اب بھی کراچی پولیس کی کالی بھیڑیں سر انجام دے رہی ہوں گی؟

کوئی تو بڑا افسر پشت پناہی کر رہا ہوگا؟

یہ سوالات وہ مائی بھی سوچتی ہے اور میں سوچتا ہوں کہ وہ غلط نہیں سوچتی تھی کوئی *بڑا افسر ہی تو پشت پر ہوگا* جس کی وجہ سے منشیات کا دھندہ شہر سے ختم نہیں ہوتا۔

اور کل پھر ایک مقابلہ ہو گا پولیس ڈکیت کو مارے گی اور ہم صحافی خبر پیٹیں گے *پولیس کا مبینہ مقابلہ ایک ڈکیت مارا گیا* اور شاید یہ منشیات کا کالا دھندہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔

اس مائی کا بیٹا تو مارا جا چکا ہے۔ *پر نا جانے اور کتنی مائیں ہوں گیں جو اب بھی بد دعائیں نکال رہی ہوں گیں *

کراچی پولیس چیف عمران یعقوب منہاس صاحب اس وقت خدا نے اب آپ کو عہدہ اور اختیار دے دیا ہے اس کا سوال بھی وہ آپ سے کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments