دروازہ نہیں کھلا


روزانہ کی طرح آج بھی میں واک کے لئے نکلا تو خلاف معمول قدموں سے ایک عجیب سا بوجھل پن چمٹ گیا۔ چاروں طرف گونجتا ٹریفک کا شور اور آتے جاتے لوگوں کے ہجوم میں بھی اداسی نے میرے ارد گرد پڑاؤ ڈال دیے۔ قدموں میں جان نہ ہونے کے باوجود میں میکانکی انداز میں قدم اٹھاتا سندھ کنارے بچھے واک ٹریک کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ دبے پاؤں بڑھتی اداسی کا راستہ روکنے کے لیے میں نے حسب معمول ہینڈ فری کانوں میں ڈالے اور سماعتوں میں راگ رنگ انڈیلنے لگا مگر جوں جوں موسیقی روح میں اترتی گئی، بوجھل پن مجھ سے لپٹتا گیا۔

جیسے ہی میرے قدموں نے موسمیات دفتر کی عمارت کو عبور کیا اچانک اداسی نے مجھ پر ایک آخری بھرپور وار کیا اور مجھے پوری طرح سے پچھاڑ ڈالا۔ مجھ سے چمٹی اداسی میری آنکھوں سے رسنے لگی۔ میں اپنی حالت پر دم بخود تھا کہ یہ آج کیا ہو رہا ہے؟ مجھے احساس ہوا کہ اس اداسی کا تعلق باہر سے نہیں میرے اندر سے کہیں ہے۔ سبزے میں گھری سڑک پر آتے جاتے لوگوں کو دیکھتے ہوئے جب میں نے اپنا اندر ٹٹولا تو اچانک روح میں اٹکی ہوئی کل والی رات مل گئی جس پر ”بابا“ لکھا ہوا تھا اور یہ اداسی اسی رات سے ہی پھوٹ رہی تھی، میں سارا معاملہ سمجھ گیا۔ اصل میں، میں کل شب ہی اس رات کے ہاتھوں مضمحل ہو چکا تھا، جس کی اذیت مجھے آج واک کے دوران بھی محسوس ہو رہی تھی۔ میرے قدم آگے بڑھ رہے تھے، بابا میرے حواس پر چھا رہے تھے، میری آنکھیں بھیگتی جا رہی تھیں اور کئی سوال میرے دل دماغ میں اودھم مچا رہے تھے۔

”کیا کوئی محرومیوں سے لتھڑی ہوئی ایسی زندگی بھی گزار سکتا ہے؟“
”بابا! آپ نے اتنی گہری چپ ہمیشہ اپنے ہونٹوں پر کیسے باندھے رکھی؟“

”کیوں بابا کیوں۔ ؟ آپ نے ہمیں کیوں نہیں بتایا کہ آپ کتنے عظیم انسان تھے؟ اپنی عظمت سے ہمیں کیوں محروم رکھا؟“

میں اپنے آس پاس سے بیگانہ، آنسوؤں کے کتنے ہی نذرانے بابا کو پیش کرتا، ہزاروں سوال سوچتا دریائے سندھ کی طرف بڑھا چلا جا رہا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ واک کے دوران جسم کی بجائے میری آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔

کل والی چبھتی ہوئی رات میرے اندر انگڑائیاں لے کر اٹھ بیٹھی جو اماں کے ساتھ ہی میرے آنگن میں اتری تھی۔ یوں لگا جیسے اماں بھی میرے ساتھ واک کر رہی ہیں اور ان کی آواز میری سماعتوں میں گونج رہی ہے۔

”میں دیکھ رہی ہوں تم ایک دو ماہ سے اپنے بابا کی قبر پر نہیں جا رہے۔“ اماں کی ناراض آواز ابھری مگر میں اپنے جرم پر خاموش بیٹھا رہا، بھلا کیا جواب دیتا؟

”تمہیں کیا پتہ، تمہارے بابا نے کیسی کٹھن زندگی گزاری ہے۔“ اماں نے کہا۔ میں چونک کر سوالیہ نگاہوں سے انہیں دیکھنے لگا۔

”انہوں نے ایسے مشکل ترین دن دیکھے ہیں کہ جس کا تم بہن بھائی تصور بھی نہیں کر سکتے۔“ اماں گویا ہوئیں اور میں نے حیرت بھری نظریں ان پر گاڑ دیں۔

”تمہارے بابا نے بچپن سے ہی در در کی ٹھوکریں کھائیں اور بڑی تکلیفوں میں پلے ہیں۔ اپنے باپ کو تو انہوں نے دیکھا ہی نہیں تھا، دو سال کی عمر میں ہی تمہارے بابا یتیم ہو گئے تھے۔“

”بابا اور یتیم؟“ میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔ مجھے ایک جھٹکا سا لکا تھا۔

”ہاں۔ اس وقت تمہارے بابا دو سال کے تھے جب تمہارے داد کو ایک پٹھان نے گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔“ اماں مجھے شدید حیران کرنے پر تلی ہوئی تھیں۔

”دادا کا قتل۔ ؟ کیسے۔ ؟“ میں اس انکشاف پر ششدر رہ گیا۔

”ہاں تمہارے دادا کو قتل کیا گیا تھا۔ وہ چوبی کا کام کرتے تھے تو کاروباری سلسلے میں بنوں آتے جاتے تھے۔ ایک دفعہ بس میں کسی پٹھان سے جھگڑا ہو گیا تو اس نے کہا میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں۔ کچھ ہی دنوں بعد اس نے آ کے تمہارے دادا کے سر پر گولی ماری اور انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ تمہارے بابا اس وقت دو سال کے تھے۔“ میں حیرت زدہ ہو کر اماں کی باتیں سن رہا تھا۔ یہ سب کچھ میرے لئے بالکل نیا تھا۔

”تمہارے دادا کے قتل کے بعد تمہاری دادی زہرو کا سسرال میں رہنا مشکل ہو گیا تھا۔ کیونکہ گھر بہت چھوٹا تھا، اوپر سے انتہا کی غربت تھی اس لئے سسرال والوں نے دادی زہرو اور ان کے بچوں کی ذمہ داری لینے سے صاف انکار کر دیا۔ وہ بیچاری پریشانی کے عالم میں روتی ہوئی اپنے دونوں معصوم بچوں کو سینے سے لگائے (تمہارے بابا اور چچا) اپنے میکے چلی گئی۔ وہ لوگ بھی بہت غریب تھے، ان کے گھر میں بھی رہنے کو جگہ نہیں تھی۔ دن تو جیسے تیسے گزر جاتا مگر رات کو سونے کے لئے جگہ کم پڑ جاتی۔

رات ہوتے ہی دادی زہرو اپنے گھر کی چھت پھلانگ کر مسلم بازار میں موجود موچیوں والی مسجد (رحمانیہ مسجد) کی چھت پر چلی جاتی اور اپنے دونوں معصوم بچوں کے ساتھ مسجد کی چھت پر سو جایا کرتی تھی۔ ایک بازو پر تمہارے بابا اور دوسرے پر تمہارے چچا سویا کرتے تھے۔ مگر ان کے میکے والے بچوں کو پال نہیں سکتے تھے، اوپر سے تمہارے بابا رویا بھی بہت کرتے تھے تو دادی زہرو کے بھائیوں نے تنگ آ کر ان سے بچے لئے اور جا کے انہیں یتیم خانے میں چھوڑ آئے۔ یعنی ڈھائی تین سال کی عمر میں ہی تمہارے بابا یتیم خانے میں پلنے لگے۔“

میں حیرت سے آنکھیں پھاڑے اماں کو دیکھے جا رہا تھا کہ آج وہ کیسی عجیب باتیں کر رہی ہیں؟ بابا کے منہ سے ایسی باتیں نہ کبھی سنیں نہ کبھی کہیں کوئی ذکر ہوا۔ مجھے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ بابا اتنی کمسنی میں یتیمی کا طوق گلے میں پہنے یتیم خانے پہنچ گئے تھے۔

”چند ماہ بعد تمہارے بابا کے خاندان والوں کی غیرت جاگی کہ ہمارے ہوتے ہوئے ہمارا خون یتیم خانوں میں پلے گا؟ یہ نہیں ہو سکتا۔ وہ جا کے دونوں معصوم بھائیوں کو اپنے گھر لے آئے اور آتے ہی دونوں کو تمہارے دادا کی پہلی بیوی دادی زینبو کی جھولی میں ڈال دیا۔ دادی زینبو بہت اچھی عورت تھی، اس نے ہی تمہارے بابا کو پالا تھا۔

وہ بڑی غربت کا زمانہ تھا، سب کے سب غریبی کے ستائے ہوئے لوگ تھے، کھانے پینے کو کچھ ہوتا نہیں تھا۔ اس لئے چھوٹی عمر میں ہی تمہارے بابا کو گلی پونگراں والی میں ندی پونگر (رنگ ساز) کی دکان پر بٹھا دیا گیا کہ چلو بچہ ہے کپڑوں کو رنگنے کا کام ہی سیکھ لے گا۔ ندی پونگر بہت سخت گیر قسم کا انسان تھا، جس سے ہر چھوٹا بڑا کانپتا تھا۔ وہ تمہارے بابا سے بہت سختی سے پیش آتا اور ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ کرتا رہتا تھا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایسی چمڑی ادھیڑتا کہ تمہارے بابا کی چیخیں پوری گلی میں گونجا کرتی تھیں مگر کسی میں ہمت نہیں تھی کہ کوئی جا کر انہیں بچا لیتا۔ ”

میری آنکھیں بھیگنے لگی تھیں۔ کیا بابا کا بچپن اتنا کٹھن گزرا تھا؟ میں سوچوں میں ڈوبا ہوا تھا مگر اماں کے اگلے انکشاف نے تو میرے حواس ہی اڑا کر رکھ دیے۔

”تمہارے بابا ندی پونگر کی دکان پر کام کرنے لگے۔ چھوٹا سا سہما ہوا بچہ تھا، کسی سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتا تھا، نہ ماں تھی نہ باپ تھا اور نہ ہی کوئی سر پر ہاتھ رکھنے والا تھا۔ پھر ایک عجیب بات ہوئی کہ ندی پونگر کی دکان کے اوپر ایک بالا خانہ تھا، اسی بالا خانے میں ہی تمہاری دادی زہرو بیاہ کر آ گئی مگر افسوس کہ ماں کے اتنے قریب آ جانے کے باوجود تمہارے بابا ممتا سے محروم ہی رہے اور انہیں کوئی فائدہ نہ ہوا۔

پتہ نہیں کیا مجبوری تھی کہ دادی زہرو نے کبھی اپنے بیٹے یعنی تمہارے بابا کو گلے نہ لگایا۔ اس وقت بھی جب ندی پونگر تمہارے بابا پر تھپڑوں کی بارش کر کے اس کے گال لال کر دیا کرتا تھا اور وہ بلبلاتے ہوئے دھاڑیں مارنے لگتے تھے۔ گلی کے لوگ تمہارے بابا کی چیخ و پکار سن کر دہل جایا کرتے مگر کتنے دکھ کی بات ہے کہ بالا خانے پر رہتی تمہاری دادی زہرو نے کبھی جھانک کر بھی نہ دیکھا کہ میرے معصوم بیٹے پر کیا بیت رہی ہے اور نہ کبھی بالا خانہ کا دروازہ کھلا۔“

اماں نے مجھے پریشان کر دیا تھا، اس سے آگے مجھ میں سننے کی تاب نہ رہی تھی۔ میں نم آنکھیں لئے کمرے سے باہر نکل گیا۔

مگر میرا اصل امتحان تو اس وقت شروع ہوا جب رات میرے آنگن میں اترنے لگی۔ میں پوری رات کرب کی شدت سے تڑپتا رہا اور ایک لمحے کے لیے بھی نہ سو پایا تھا۔ بار بار میرے کانوں میں بیدردی سے مار کھاتے بابا کی چیخیں گونجنے لگتیں اور میں بالا خانے پر نظریں جمائے دروازے کی طرف دیکھنے لگتا کہ ابھی دروازہ کھلے گا اور تیزی سے سیڑھیاں اترتی دادی زہرو تڑپ کر روتے بلکتے اپنے معصوم بیٹے کو گلے لگا لے گی۔ مگر پوری رات یونہی گزر گئی، بابا کی دل دہلا دینے والی چیخ و پکار ہر طرف گونجتی رہی۔ نہ بالا خانے کا دروازہ کھلا اور نہ ہی سیڑھیوں پر دادی زہرو کی چاپ ابھر سکی۔

مجھے رات بھر یہ بات کچوکے لگاتی رہی اور آج واک کے دوران بھی یہ مجھے بچھو کی طرح ڈنک مارتی رہی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ نیچے دکان پر ایک چھوٹا سا یتیم بچہ مار کھاتے ہوئے چیختا چلاتا رہا ہو اور اوپر بالا خانے پر اس کی سگی ماں اپنے کانوں میں بے حسی انڈیل کر اپنی زندگی جیتی رہی ہو؟

مجھے دنیا کا کوئی مذہب، کوئی تہذیب، کوئی معاشرت یہ بات نہیں سمجھا سکی، کیا آپ مجھے سمجھا سکتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments