خراب خیال آپ کا اور قصور ہمارا


رمضان المبارک سے چار دن قبل ایک خاتون کا انباکس میسج آیا، لگا تار میسجز کے بعد میں نے میسج دیکھے تو خاتون بہت خلوص سے اپنی صاحبزادی کی شادی میں شرکت کی دعوت دے رہی تھیں، تعلق اسلام آباد کے قریب کسی نواحی علاقے سے تھا،

تھوڑی سی دیر بات کر کے مجھے یاد آ گیا کہ ہم پہلے بات کر چکے ہیں، تھوڑا اسکرول کیا اور کنورسیشن دیکھا، تو سب کچھ یاد آ گیا، تقریباً ڈیڑھ سال پہلے ہم نے بات کی تھی، اور خاتون نے مجھے کچھ ذاتی خاندانی باتیں بتائی تھیں، جو میں نے کسی کو نہ بتائی تھیں، نہ ہی مجھے یاد رہی تھیں، اور یہ حیرت انگیز بات ہے کیونکہ مجھے اکثر یاد رہتا ہے کہ میری کس فرد سے کیا بات ہوئی تھی، ۔

خیر انہوں نے میسنجر پر کال کر لی، تو برسبیل تذکرہ میں نے پوچھ لیا، کہ صاحبزادی کی شادی کس سے ہو رہی ہے، تو انہوں نے بتایا کہ ان کے جیٹھ کے بیٹے سے، میں نے کہا اچھا۔

لیکن اچانک مجھے یاد آ یا کہ آپ نے اپنے جیٹھ کی برائیاں کی تھیں مجھ سے کہ وہ آپ پر بری نظر رکھتے تھے، اور آپ نے دس سال مشترکہ خاندانی نظام میں بہت مشکل سے گزارے تھے، بلکہ تین چار بار جیٹھ نے برے ارادے کی پیش قدمی بھی کی لیکن وہ خوش قسمتی سے بچ گئیں۔

یہ یاد آتے ہی میں نے پوچھا کہ آپ اسی جیٹھ کے بیٹے سے اپنی بیٹی کی شادی کر رہی ہیں یا دوسرے کسی جیٹھ یا دیور کے بیٹے سے، تو وہ ایک دم چپ ہو گئیں۔ پھر بولیں

جی بس دو ہی بھائی ہیں میرے میاں اور میرے جیٹھ۔
تو میں نے پوچھا، کیا وہ زندہ ہیں؟
بتایا جی زندہ ہیں

مجھے واقعی حیرانی ہوئی، کہا یار آپ اپنی بیٹی کو اسی جہنم میں بھیج رہی ہیں جہاں ایک رشتوں کی اہمیت سے ناواقف اور نابلد اخلاق باختہ شخص رہتا ہے۔

کیا آپ کی بیٹی وہاں محفوظ رہے گی؟ جب کہ آپ کے میاں نے بھی آپ کی بات نہیں مانی تھی جب آپ نے ان کے بھائی کی شکایت ان سے کرنی چاہی تھی۔

وہ چپ ہو گئیں۔
پھر کہا۔
نہیں میرے میاں کا بھتیجا تو اچھا ہے، وہ پسند کرتا ہے میری بیٹی کو، اپنے باپ کی مخالفت کے باوجود۔
میں نے کچھ اونچ نیچ سوچنے کو کہا تو وہ بھڑک اٹھیں۔

جس پر میں نے ان کو یاد دلایا کہ آپ نے ہی مجھے سب کچھ بتایا، اپنی چیٹنگ دیکھئے اور اپنے الفاظ پڑھیے۔ اور یہ سب دوبارہ بھی آپ نے ہی یاد دلایا ہے، ورنہ ڈیڑھ سال ہو گیا، میں بھول چکی تھی، نہ آپ کا میسج آتا نہ میں دیکھتی، نہ ہی میں نے یہ سب لکھا تھا، حالانکہ انہوں نے مجھے لکھنے کو کہا تھا، لیکن میں نے مناسب نہ سمجھا تھا۔ ان کے الفاظ یہ تھے، کاپی کیے ہیں چیٹ سے

” مطربہ آپ عورتوں کے لئے لکھتی ہیں ان عورتوں کے لئے بھی لکھین جو اپنے ہی گھر میں محفوظ نہیں ہوتی، آپ کو اپنا مسئلے بتاتی ہون“

اور بھی بہت کچھ جو دوبارہ لکھنا اچھا نہیں۔ خیر ہماری گفتگو بدمزگی پر ختم ہوئی کیونکہ ان کو برا لگ گیا تھا کہ میں نے ان کو سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ کہ جیٹھ رشتے پر رضامند بھی نہیں ہے تو وہ ضرور بچی کو تنگ کرے گا۔ اور آپ شادی پر ان لوگوں کو بھی مدعو نہ کیجئے جن کے ساتھ آپ اپنا خاندانی رونا رو چکی ہیں، کیونکہ لوگ مذاق بنائیں گے اور حیرت کریں گے، تو وہ اور تپ گئیں،

پھر ان کا اکاؤنٹ ڈی ایکٹیویٹ ہو گیا، پہلے میں سمجھی کہ مجھے بلاک کیا ہے لیکن پھر ایک دوسری سہیلی سے چیک کروایا، تو معلوم ہوا اکاؤنٹ غائب ہے۔

ایسی چیکنگ میں نے پہلی بار کروائی کیونکہ مجھے اندازہ ہو چکا تھا کہ خاتون نے یقیناً کئی خواتین سے یہ سب ڈسکس کیا ہو گا اور اب ان پر بد نامی کا خوف طاری ہو گیا ہو گا۔

بد نامی کے اسی خوف نے معاشرے کی بہت سی خواتین کی زبان بندی کی ہوئی ہے، اور قانون سزاوں پر عمل در آمد نہ کروا کر ریاست کی کمزوری ثابت ہوتی ہے۔

ایسے کئی واقعات ہم سنتے رہتے ہیں، سوشل میڈیا کا سماجی آئینہ ان واقعات کو سامنے لانے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ خواتین کو آگاہی ہو رہی ہے لیکن اس سب کے باوجود نوے فیصد افراد ان سارے واقعات کا ذمہ دار خواتین کو ہی ٹھہراتے ہیں، جیسے کہ مذکورہ خاتون کو اپنی بدنامی کا خوف گھر ٹوٹنے کا خوف تھا لیکن ان کو آگاہی بھی نہ تھی کہ ان کی زندگی کس طرح خراب گزری اور نہ جانے بیٹی کا مستقبل کیا ہوگا اور مستقبل کا آئینہ دکھانے پر وہ ڈر گئیں۔

کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک این جی او کے پروگرام میں سگے بھائی کی بہن کے ساتھ نازیبا حرکات کی بابت سنا، وہ ایک پڑھے لکھے گھر کی لڑکی تھی، اور پروگرام میں موجود تھی، جب اس کی زبانی یہ واقعہ سنا تو میری طبعیت بہت مکدر ہوئی، پروگرام سے واپسی پر میں اپنے بھائی کے ساتھ گاڑی میں تھی اور اپ سیٹ تھی۔

میرے بھائی سمجھ گئے، اور کہا، دیکھو دوسرے کے خراب خیالات کو خود پر مسلط نہ کرو، یہ ذہنی بیماریاں ہیں، بد قسمتی سے نہ ہی ان بیماریوں کے متعلق نہ ہی معلومات ہیں نہ ہی علاج۔

اب کچھ آگاہی آ رہی ہے تو بجائے ڈسٹرب ہونے، لعن طعن کرنے کے بجائے خواتین کو مضبوط بنانے کی کوشش کرو، کیونکہ بہت سی خواتین کو تو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے یا کیا ہو چکا ہے، وہ ذہنی و نفسیاتی مسائل کے ساتھ زندگی گزارتی ہیں۔

میرے بھائی کی عمر محض اٹھائیس برس ہے لیکن وہ اتنی سمجھ رکھتے ہیں کہ کسی فرد کو ڈپریشن سے نکال سکیں۔

لیکن ہمارے ساٹھ برس سے زائد عمر کے دنیا گھوم چکے وزیراعظم یہ عام سی بات نہیں جانتے کہ اپنے خیال کی خرابی کا ذمہ دار انسان خود ہوتا ہے، کوئی بھی انسان کسی دوسرے انسان کو برائی کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا، نہ ہی کسی انسان کا لباس دوسرے انسان کو برانگیختہ کر سکتا ہے، جب کہ ہمارے یہاں کراچی تا خیبر خواتین چادر دوپٹوں میں نظر آتی ہیں۔

جامعات میں رنگ برنگے اسکارف کی بھرمار ہے اور اسکارف فروخت کرنے والے تاجروں کی چاندی۔ سیاحتی مقامات پر بھی خواتین چادروں میں ملبوس ہوتی ہیں جب کہ مرد حضرات شارٹس پہن لیتے ہیں اور حسب دستور و شوق خواتین کو تاڑ بھی رہے ہوتے ہیں۔

ایک ملک کے سب سے بڑے اور ذمہ دار عہدے پر بیٹھے فرد کو ملک میں قانون کی بالادستی اور مجرموں لئے سزاوں کے نفاذ کا اعلان کرنا چاہیے، نہ کہ ثقافتی دائروں پر۔ اگر ہم یہ کہیں کہ آپ مردوں کا ثقافتی سفر تو امراو جان ادا اور جانکی بائی کا کوٹھا ہے تو پھر لوگ برا مان جاتے ہیں۔

وزیراعظم کے مشیروں اور ان کی زوجہ محترمہ کو خان صاحب کو یاد دلاتے رہنا چاہیے کہ وہ ایک ذمہ دار عہدے پر فائز ہیں، اور ان کو ذمہ داری کے ساتھ بیانات و انٹرویو دینے چاہئیں۔ آخر مسز عمران خان نے بھی ڈھلتی عمر میں آ کر اپنے پسندیدہ فرد سے نکاح کیا اور ناپسندیدہ شوہر سے نجات پائی۔

اسی طرح ملک کی ہر عورت کے لئے لباس کی، راستہ چلنے کی، تعلیم کی، معاش کی اور پسند کے نکاح کے لئے راہ ہموار کریں نا کہ کسی اوسط سوچ والے محلے دار کی طرح مظلوم کو کوسیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments