الوداع عثمان خان لالا


پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے صوبائی صدر اور چند ماہ پہلے سینٹ کو الوداع کہنے والے عثمان خان کاکڑ بھی ہمیں ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ کر رخصت ہو گئے۔

ان سے بے پناہ عقیدت کی بنیاد پر پارٹی کے اکثر کارکن انہیں عثمان صاحب کی بجائے عثمان لالا کہا کرتے تھے۔ میرے مطابق پشتونخوا ملی عوامی پارٹی میں حد درجے متحرک اور ہر فلور پر دل کی بات کہنے والے عثمان لالا اپنے حصے کا کام کر کے اب ہمیشہ کے لئے امر ہو گئے۔ عثمان لالا چار دن پہلے معمول کی طرح جناح ٹاؤن کوئٹہ میں واقع اپنے گھر سے پارٹی دفتر گئے۔ سہ پہر کو تین بجے ان کا ڈرائیور انہیں گھر چھوڑ کر واپس ہوئے۔ بعد میں انہیں گھر کے اندر انہیں سر پر ایک کاری زخم لگا، کوئٹہ میں جب ان کی حالت سنبھل نہ سکی تو اگلے روز انہیں کراچی کے آغا خان ہسپتال لے گیا جہاں وہ پیر کو زخموں کی تاب نہ لاکر شہید ہو گئے۔

کیا لالا کسی طبعی بیماری کے نتیجے میں گر کر زخمی ہوئے تھے جیسا کہ کہا جا رہا تھا یا پھر تاک میں بیٹھے کسی دشمن نے انہیں زخمی کر دیا؟ یہ سوال اگرچہ پہلے دو تین دن تک پراسراریت کا شکار تھا تاہم ان کی شہادت کے بعد ان کے بیٹے خوشحال خان بول پڑے کہ ”لالا پر گھر کے اندر ہی دشمنوں نے ایک بھاری ہتھیار سے حملہ کیا تھا۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی جانب سے ابھی تک اس بارے میں دو ٹوک موقف سامنے نہیں آیا ہے اور امید ہے کہ جلد ان کی تدفین کے بعد پارٹی مزید وضاحت کر لے گی۔

عثمان لالا کی زندگی اور خدمات کا اجمالی خاکہ قارئین کی نذر کرنا چاہتا ہے۔ عثمان خان کاکڑ 1961 کو سیف اللہ کے علاقے مسلم باغ میں پیدا ہوئے۔ میٹرک انہوں نے دارالحکومت کوئٹہ کے اسلامیہ اسکول سے کیا اور پھر کچھ عرصے کے لئے پنجاب کے بہاولپور کالج گئے۔ بہاولپور سے واپسی پر انہوں نے جامعہ بلوچستان سے بی ایس سی کیا اور پھر جامعہ بلوچستان ہی سے اکنامکس میں ماسٹر کیا۔

ہوش سنبھالتے ہی لالا کے سیاسی شعور نے ایسی انگڑائی لی کہ آخری سانس تک انہوں نے بڑے مستقل مزاج، دلیر اور کھرے سیاستدان کا ثبوت دے دیا۔ اپنی سیاسی سفر کی ابتدا انہوں نے زمانہ طالب علمی میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے طلبا ونگ کے پلیٹ فارم سے کی اور بہت کم عرصے میں پارٹی کی پہچان بن گئے۔ غالبا 1987 میں وہ طلبا تنظیم کے مرکزی سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ طلبا سیاست میں ایک اصولی تنظیم ساز کے طور پر فعال کردار ادا کرنے کے بعد لالا 90 کی دہائی کے آخر میں پارٹی کے صوبائی سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔

اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنیاد پر وہ پارٹی پر اتنے چھا گئے کہ 2004 میں اکابر ساتھیوں کے ہوتے ہوئے وہ پورے صوبے کے صدر منتخب ہو گئے اور پھر تادم شہادت اس عہدے پر فائز رہے۔ 2013ء کے انتخابات کے نتیجے میں حکومت کا حصہ بننے کے بعد پشتونخوا ملی عوامی پارٹی میں بھی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح اندرونی اختلافات نے سر اٹھایا لیکن عثمان لالا پارٹی کے اندر وہ واحد رہنما تھے جنہوں نے خود کو متنازع ہونے نہیں دیا۔

یہ کہنا شاید مبالغہ نہیں ہوگا کہ پارٹی میں چیئرمین محمود خان اچکزئی کے بعد اگلے نمبر پر لالا دوسرے محبوب اور معتمد ترین رہنما تھے۔ اصولوں کے تابع اور تنظیمی صلاحیتوں پر کمال کی حد تک دسترس رکھنے والے عثمان لالا کے بارے میں پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے ممبر مناف دوتانی کہتے ہیں کہ ”لالا اپنے کارکنوں کے دلوں میں اتنے گھر کر گئے تھے کہ وہ جس پروگرام میں بھی آتے تو سب احتراماً کھڑے ہو جاتے۔ ایک مرتبہ کوئٹہ میں ایک تقریر کے دوران انہوں نے کہا کہ :کوئٹہ میں پارٹی کے دو سو یونٹوں کو وہ ایک ہزار یونٹوں تک وسعت دے کر دم لیں گے۔

مناف دوتانی کہتے ہیں کہ جب ہم نے لالا کا یہ دعویٰ سنا تو ہنس پڑے اور اسے محض ایک سیاسی دعوے پر محمول کیا تاہم 2013ء کے عام انتخابات کے موقع پر معلوم ہوا کہ کوئٹہ شہر میں پارٹی کے یونٹوں کی تعداد نو سوتک پہنچ چکی تھی“۔ پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق سینیٹر رضا محمد رضا عثمان لالا کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”عثمان خان پارٹی کی تنظیم سازی میں طاق تھے، کانفرنسز، احتجاجی مظاہروں اور سیمیناروں کو منعقد کرنے کے بڑے ماہر تھے اور جب بھی پارٹی کی مرکزی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوتا تو عثمان خان جماعتی سرگرمیوں کی پوری تفصیل اپنے روز روز کی کارکردگی رپورٹ ہمارے سامنے پیش کرتے۔

وہ پارٹی کو درپیش مشکلات پر بات کرتے اور پارٹی کے خیرخواہوں اور بدخواہ قوتوں کی نشاندہی بھی کرتے“ ۔ لالا اپنی پارٹی میں تو تھے ہی محبوب لیکن پارٹی سے باہر انہوں نے لوگوں سے اس وقت پیار اور داد سمیٹنا شروع کیا جب وہ 2015ء میں پارٹی کی نمائندگی کے لئے ایوان بالا کے رکن منتخب ہوئے۔ انہوں نے چھ سال تک پیہم اس اہم فلور پر جمہوریت کے استحکام، آئین کی بالادستی، انسانی حقوق کی بحالی کی جنگ لڑی۔ لالا نے ڈنکے کی چوٹ پر ہر اس قوت سے اپنے حدود میں رہنے کا مطالبہ کیا جو ہر زمانے میں جمہوریت کو رخصت کرنے اور آئین کی پامالی کی خوگر رہی ہے۔

ایوان کے مہ و سال کے دوران لالا صرف پشتونوں کا نمائندہ نہیں رہے بلکہ وہ ہر مظلوم اور محکوم طبقے کے حق میں بولے۔ چند مہینے قبل سینٹ کے الوداعی تقریر میں انہوں نے کہا تھا کہ اگرچہ ان کی جاں کو خطرہ ہے لیکن انہیں اپنی جاں سے زیادہ جمہوریت کی بالادستی، انصاف کی فراہمی اور انسانی حقوق کی بحالی عزیز ہے اور وہ اپنے اس موقف سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا اور دشمن نے بڑی عیاری سے اس آواز کو خاموش کر دیا۔

لالا کی تدفین کل بدھ کو اپنے آبائی علاقے مسلم باغ میں کی جائے گی۔ ان کا پہلا نمازجنازہ کل کراچی مزار قائد کے احاطے میں پڑھایا گیا جس میں ان کے ہزاروں مداحوں نے شرکت کی۔ یہ سطور لکھتے وقت آج منگل کو ان کا جنازہ کراچی سے براستہ خضدار کوئٹہ روانہ کر دیا گیا ہے اور راستے میں جگہ جگہ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں ان کی تابوت پر پھول نچھاور کر رہے ہیں۔ کوئٹہ آمد پر بھی مختلف مقامات پر ہزاروں سوگواران قوم کے اس سپوت کو خراج عقیدت پیش کریں گے۔ شہید لالا کا جنازہ کل کوئٹہ سے براستہ کچلاک، خانوزئی، کان مہترزئی ہزاروں لوگوں کے بیچ مسلم باغ پہنچے گا جہاں شام پانچ ان کے جنازہ اور تدفین کے رسومات ادا کیے جائیں گے۔

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جاں تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments