چینی حکام سنکیانگ کے لاپتہ بچوں سے متعلق اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام

جان سڈورتھ - بی بی سی


Kalbinur Tursan at home in Istanbul in 2019

کلبینور ترسان 2016 سے ترکی کے شہر استنبول میں ہیں

گذشتہ دو برسوں میں چین حکام نے متعدد بار وعدہ کیا ہے کہ وہ سنکیانگ خطے میں لاپتہ ہو جانے والے بچوں کو تلاش کریں گے تا کہ یہ ثبوت دے سکیں کہ ان بچوں کو ان کے والدین سے جدا نہیں کیا گیا ہے۔لیکن یہ وعدے اب تک پورے نہیں کیے گئے ہیں۔

چین نے پہلی بار کلبینور ترسان کے بچوں کو ڈھونڈنے کا وعدہ سنہ 2019 میں کیا تھا۔

اس وقت برطانیہ میں متعین چینی سفیر لیو ژاؤمنگ نے جولائی 2019 میں بی بی سی کو دیے گئے ایک لائیو انٹرویو میں کہا تھا کہ ‘اگر آپ کے پاس ایسے لوگ ہیں جو اپنے بچوں سے جدا ہو گئے ہیں، ہمیں ان کے نام دیں۔’

لیو ژاؤمنگ نے اس الزام کی تردید کی تھی کہ سنکیانگ خطے میں چینی پالیسیاں بڑے پیمانے پر وہاں موجود بچوں کو ان کے والدین سے جدا کرنے کا سبب بن رہی ہیں لیکن انھوں نے مزید کہا کہ اگر بی بی سی کے پاس ایسے کسی واقعے کے شواہد ہیں تو وہ اس کی تحقیق کریں گے۔

‘ہم انھیں ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے اور آپ کو بتائیں گے کہ وہ کون ہیں، کیا کر رہے ہیں۔’

کلبینور ترسان کا تعلق سنکیانگ خطے میں بسنے والی اویغور آبادی سے ہے اور وہ اب ترکی میں رہائش پذیر ہیں۔ وہاں وہ اپنے کمرے کے اپارٹمنٹ میں رات گئے تک کپڑے سینے کا کام کرتی ہیں تا کہ اپنے بکھرے ہوئے خاندان کی مدد کر سکیں۔

کلبینور ترسان آج سے پانچ برس قبل جب ترکی پہنچیں تو وہ اپنی ساتویں اولاد مرزیے سے حاملہ تھیں۔

ان کا یہ حمل چین کے خاندانی منصوبہ بندی کے قوانین کے خلاف تھا۔

‘اگر چینی حکام کو علم ہو جاتا کہ میں حاملہ ہوں تو وہ شاید مجھے اسقاط حمل پر مجبور کرتے۔ تو اس کے لیے میں نے اپنے پیٹ کو روزانہ دو گھنٹے اس طرح باندھا تا کہ اسے دیکھ کر کوئی سمجھ نہ پائے اور اسی طرح میں سرحد عبور کرنے میں کامیاب ہوئی۔’

کلبینور نے بتایا کہ انھوں نے اپنے تمام بچوں کے لیے پاسپورٹ حاصل کرنے کی درخواست دی تھی لیکن چین کی جانب سے سنکیانگ میں مختلف نسلوں پر عائد سخت پابندی کا مطلب تھا کہ ان کی صرف ایک اولاد، دو سالہ محمد کو ویزا مل سکا۔

Kalbinur Tursan working in her tailor shop in 2019

کلبینور اپنے چھوٹے بیٹے مرزیے کے ساتھ استنبول میں

جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا، ان کے پاس مواقع کم ہوتے جا رہے تھے اور اس کا مطلب تھا کہ وہ مجبور تھیں کہ اپنے دیگر بچوں کو چھوڑ دیں اور بس یہ امید کریں کہ جب ان کے دستاویزات آ جائیں تو وہ ان کے شوہر کے ہمراہ آ سکیں۔

جب وہ جہاز پر بیٹھیں تو اس وقت ان کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ ان کو دوبارہ کبھی نہیں دیکھ پائیں گی۔

ان کو یہ نہیں معلوم تھا لیکن خفیہ طور پر چین کے اس وسیع و عریض مغربی خطے میں لوگوں کو قید کرنے کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اور ایک تیزی سے پھیلتا ہوا ‘بحالی کے مراکز’ کا نیٹ ورک قائم ہو رہا تھا۔

اسی طرز پر ایسے بورڈنگ سکولز بھی قائم کیے جا رہے تھے جن کا مقصد سنکیانگ کی اویغور، قزاق اور دیگر اقلیتی گروپس کو جبری طور پر وہاں رکھنا تھا، جن کی شناخت، ثقافت اور اسلامی روایات کو چینی حکومت اور ان کی کمیونسٹ پارٹی کے لیے ایک خطرہ تصور کی جا رہی تھی۔

کلبینور کے ترکی جانے کے ایک سال بعد چین میں ایک پالیسی مقالہ شائع ہوا جس میں یہ واضح کیا گیا کہ ان بورڈنگ سکولز کا مقصد ‘مذہبی ماحول کے اثر کو ختم کرنا’ ہے جو ان بچوں کے گھر پر رہنے سے پڑتا ہے۔

کلبینور کے جانے کے چند ہفتوں بعد ان کے شوہر کو حراست میں لے لیا گیا اور جیسے کلبینور سے قبل ہزاروں کی تعداد میں بیرون ملک رہائشی اویغوروں نے دور سے اپنے پیاروں کے غائب ہونے کے بارے میں سنا، یہی کلبینور کے ساتھ ہوا۔

جلاوطنی میں رہتے ہوئے ان کے لیے یہ ناممکن تھا کہ وہ سنکیانگ میں اپنے رشتے داروں کو فون کر کے خیر خیریت معلوم کرتیں کیونکہ غیر ممالک سے کی جانے والی گفتگو کو شدت پسندی کا اشارہ سمجھا جاتا تھا اور تربیتی مراکز میں بھیجنے کی ایک اہم وجہ ایسی کالیں ہی تھیں۔

کلبینور کو علم تھا کہ اگر وہ چین واپس جاتی ہیں تو انھیں بھی حراست میں لے لیا جائے گا، اور ان کے شوہر کی قید کے بعد ان کے بچے بنا والدین تھے اور ان کا اپنے بچوں سے کوئی رابطہ نہیں تھا، سوائے ایک حیران کن حقیقت جو ان پر آشکار ہوئی۔

تین برس قبل کلبینور انٹرنیٹ پر تھیں جب انھیں اچانک اپنی بیٹی آئیس کی ویڈیو نظر آئی جو ان کے آبائی گھر سے پانچ سو کلومیٹر دور واقع ایک سکول میں تھیں۔

آئیس کے بال کٹے ہوئے تھے اور وہ چند بچوں کے ہمراہ ایک گروپ میں تھیں اور ایک کھیل میں مصروف تھیں جس میں ان کے استاد ان کے ساتھ ان کی مادری زبان (اویغور) کے بجائے ان سے چینی زبان میں بات کر رہے تھے۔

کلبینور نے ویڈیو دیکھ کر جہاں ایک جانب سکون کا سانس لیا، کیونکہ وہ کم از کم اپنی ایک اولاد کو دیکھنے میں کامیاب ہو گئیں، لیکن دوسری جانب ان کو انتہائی گہری تکلیف اور غم نے گھیر لیا اور وہ احساس اب تک ان کے ساتھ ہے۔

‘یہ جانتے ہوئے کہ وہ ایک دوسرے شہر میں ہے، اس سے مجھے لگا کہ شاید اب میرے لیے اپنے بچوں کو ڈھونڈنا ممکن نہیں ہوگا، حتی کہ اگر میں واپس بھی چلی جاؤں۔’

‘میں چاہتی ہوں کہ میرے بچے یہ جان لیں کہ میں نے ان کو بے یارو مددگار نہیں چھوڑا، لیکن میرے پاس اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا، کیونکہ اگر میں نہ جاتی، تو ان کی سب سے چھوٹی بہن زندہ نہ رہ پاتی۔’


کلبینور کی زندگی ان سینکڑوں کہانیوں میں سے ایک ہے جن کے بارے میں بی بی سی نے تحقیق کی ہے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک بڑی تعداد میں سنکیانگ کے اویغور اور قزاق نسل کے باشندوں کے بچے ان سے جدا کر دیے گئے ہیں۔

جن لوگوں سے انٹرویو کیے ان میں سے چھ کے بچوں کے نام ہم نے ان کے والدین سے اجازت لے کر چینی حکام تک پہنچائے اور ان کے پاسپورٹ کی نقل، چینی شناختی کارڈ اور آخری معلوم پتہ جیسی معلومات بھی حکام تک پہنچائیں۔

ان میں سے تین کیسز میں بچوں کے والدین کو اس بات کا یقین تھا کہ ان کے بچے چینی ریاست کے پاس ہیں۔

گو کہ 2019 میں کسی چینی عہدیدار کی جانب سے دیا گیا انٹرویو پہلا موقع تھا جب چینی حکام نے اس طرح عوامی طور پر وعدہ کیا ہو، نجی طور پر چینی حکام نے ایسے وعدے اس سے چند ماہ قبل اس وقت کیے تھے جب بی بی سی کو چینی حکومت کی جانب سے سنکیانگ کے تربیتی مراکز کا دورہ کرنے کے لیے لے جایا گیا تھا۔

Liu Xiaoming on the BBC

برطانیہ میں متعین چینی سفیر لیو ژاؤمنگ نے اپنی مدت ملازمت مکمل کر لی ہے لیکن ان کے وعدہ ایفا نہیں ہوئے ہیں

شروع شروع میں خفیہ رکھنے کی حکمت عملی کو تبدیل کیا گیا اور اس کے بعد چین نے اس بات پر زور دینا شروع کیا کہ یہ ’تربیتی مراکز‘ درحقیقت پیشہ ورانہ تربیتی ادارے ہیں جہاں وہ افراد جو علیحدگی پسند یا شدت پسند خیالات کے حامی ہوں، ان کی مرضی سے ان کے خیالات کو تبدیل کیا جاتا ہے۔

سنکیانگ میں محکمہ پبلسٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ژو گوئیژیانگ نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ اویغور اور قزاق نسل کے بچوں کی پوری ایک نسل کو اس طرح جبری طور پر یتیم بنایا جا رہا ہے جہاں ان کے والدین اور خیال رکھنے والوں کو یا تو حراست میں لیا جا رہا ہے یا وہ ملک سے باہر پھنسے ہوئے ہیں۔

انھوں نے مجھے بتایا: ‘اگر تمام فیملی ممبران کو تربیتی مراکز میں بھیجا گیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس خاندان میں یقیناً کوئی خرابی ہے۔’

لیکن جب ان کے سامنے ہم نے چند کیسز رکھے تو حکام نے ہم سے وعدہ کیا کہ ہم ان کے بارے میں دیکھیں گے۔


جن کیسز کے بارے میں تفصیلات ہم نے چینی حکام کو فراہم کیں اس میں ایک کیس 14 بچوں کا ہے۔

شمالی سنکیانگ کے ایک چھوٹے سے گاؤں بیسٹوبے سے تعلق رکھنے والی 66 سالہ خالدہ اکیتکانکیزئی نسلی طور پر قزاق ہیں اور ان کے قزاقستان میں بھی خاندانی روابط ہیں۔

سنہ 2006 میں انھوں نے اپنے شوہر اور سب سے چھوٹے بیٹے کے ساتھ ہجرت کا فیصلہ کیا اور اپنے تین بالغ، شادی شدہ بچوں کو سنکیانگ میں چھوڑ کر خود چین سے چلے گئے۔

لیکن چین کی جانب سے جبری نظر بندی اور حراست میں لیے جانے کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اور 2018 میں خالدہ کے بچے بھی اس کی زد میں آ گئے۔

خالدہ کو خبر ملی کہ ان کے تینوں بیٹے اور اُن تینوں کی بیگمات کو ‘سیاسی تعلیم’ دینے کی غرض سے حراست میں لے لیا گیا ہے۔

خالدہ نے بہت کوشش کی کہ وہ ان کے بارے میں معلومات حاصل کریں حتیٰ کہ اس کے لیے انھوں نے کمیونسٹ پارٹی سے بھی رابطہ کیا لیکن کسی نے ان کو نہیں بتایا کہ ان کے بچے کہاں ہیں یا خالدہ کے نواسے نواسیاں کدھر ہیں۔

چین

اس سے اگلے سال چین نے اس بات کا دعویٰ کرنا شروع کر دیا کہ ان تربیتی مراکز کی مدد سے چین میں علیحدگی پسند خیالات اور دہشت گردی کے خلاف کامیابی ہو رہی ہے اور ان مراکز میں رکھے گئے تقریباً تمام افراد ‘گریجوایٹ’ کر گئے ہیں، تو اس خبر پر خالدہ کی پریشانی میں مزید اضافہ ہو گیا۔

چین کی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد بڑھتی گئی اور ان میں خالدہ کے تینں بیٹوں کا بھی اضافہ ہو گیا۔ ستیبالدی اور اوروز جان کو 22، 22 سال جبکہ چھوٹے بیٹے اخمت جان کو دس برس کی قید کی سزا سنائی گئی۔

خالدہ کے گاؤں میں سرکاری عہدے دار نے انھیں بتایا کہ ان کے بیٹوں پر ‘نماز’ پڑھنے کا الزام تھا جو ثابت ہوا۔

اگر ان کی گرفتاری کے بارے میں مزید کوئی وجوہات تھیں تو حکام نے ان کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں دی۔

برطانیہ میں چینی سفارت خانے نے بی بی سی کی جانب سے بھیجے گئے خط موصول ہونے کی تصدیق کی البتہ نومبر 2019 اور فروری 2020 میں بھیجی گئی ای میلز کا جواب نہیں دیا گیا۔

سنکیانگ میں موجود چینی حکام نے ہمیں بتایا کہ دی گئی معلومات میں ‘غلطیاں’ ہیں اور کہا کہ جن لوگوں کے بچے لاپتہ ہیں وہ اپنی قریبی چینی سفارت خانے سے رابطہ کریں۔

جولائی 2020 میں لیو ژاؤمنگ ایک بار پھر بی بی سی کے پروگرام میں آئے جہاں ان سے کیے وعدے کے بارے میں سوال پوچھا گیا۔

جواب میں پروگرام کے میزبان اینڈریو مار کو سفیر نے کہا: ‘ہمارے گذشتہ پروگرام کے بعد سے مجھے کوئی نام موصول نہیں ہوئے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ مجھے نام دیں، ہم یقیناً آپ تک واپس آئیں گے۔’

پروگرام میں اس کے بعد سفیر نے ایسا عندیہ دیا کہ سنکیانگ میں موجود عہدے دار اس نوعیت کی درخواست کو بہتر طریقے سے حل کر سکتے ہیں اور انھوں نے مزید کہا ‘وہ ہمیں تو فوراً جواب دیتے ہیں۔’

اس کے بعد ہم نے اگست اور ستمبر 2020 میں دوبارہ ای میلز کیں اور پھر جنوری 2021 میں بھی کیں۔

چینی سفارت خانے سے ایک اہلکار کی تازہ ترین ای میل میں جواب آیا کہ انھیں ای میل وصول ہو گئی ہے لیکن ‘ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔’

Khalida Akytkankyzy when she spoke to the BBC in 2019

خالدہ کے گاؤں میں سرکاری عہدے دار نے انھیں بتایا کہ ان کے بیٹوں پر ‘نماز’ پڑھنے کا الزام تھا جو ثابت ہوا

اب خالدہ صبح اٹھتی ہیں اور قزاقستان کے دارالحکومت الماتے میں کئی بسیں بدل کر چینی قونصل خانے جاتی ہیں جیسا ان کو کرنے کو کہا گیا ہے۔

اپنے ساتھ اپنے بیٹوں کی تصاویر لیے خالدہ کو قونصل خانے کے باہر پولیس کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو انھیں اندر نہیں جانے دیتی۔

بی بی سی کو اپنے گھر سے ویڈیو انٹرویو میں انھوں نے بتایا: ‘یہ صرف میں نہیں ہوں۔ اکثر وہاں پر دس سے 15 مزید لوگ ہوتے ہیں لیکن چینی قونصل خانہ کسی کو معلومات نہیں دیتا۔’

ادھر ترکی میں بھی کلبینور اپنے شوہر عبدالرحیم روزی اور اپنے پانچ بچوں (عبدو حالق، سوبینار، عبدالسلام، آئیس اور عبداللہ) کی معلومات حاصل کرنے کی تگ و دو کر رہی ہیں۔

انھوں نے حال ہی میں استنبول سے انقرہ تک چار سو کلومیٹر کا سفر پیدل طے کیا جس میں ان کے ہمراہ کئی اویغور مائیں بھی تھیں اور اس کا مقصد تھا کہ چینی حکام ان کے پیاروں کے حوالے سے اپنی خاموشی ختم کریں۔

کلبینور کے اس احتجاج سے کم از کم ایک حد تک سرکاری رد عمل آیا جب سنکیانگ کے ڈپٹی پراپگینڈا چیف ژو گوئیژیانگ نے اس بات کی تردید کی کہ کلبینور کی بیٹی کسی بورڈنگ سکول میں زیر تعلیم ہیں اور اس بات کا دعویٰ کیا کہ ان کے بچے کلبینور کے کسی رشتے دار کے پاس ہیں۔

لیکن کلبینور ابھی تک ان سے رابطہ نہیں کر پائی ہیں جس کی وجہ سے چین کے دعووں کی تردید یا تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

‘میں چاہتی ہوں کہ حکام مجھے میرے بچوں کو دیکھنے دیں۔ انفارمیشن کے اس دور میں ایسا کیوں ہے کہ میں اپنے بچوں سے رابطہ نہیں کر سکتی۔’


اسی حوالے سے مزید پڑھیے

اویغور کیمپوں میں منظم انداز میں مبینہ ریپ کا انکشاف: ’پتا نہیں وہ انسان تھے یا جانور‘

’بہن کا فون اٹھایا تو ویڈیو کال پر دوسری طرف وہ نہیں بلکہ ایک پولیس اہلکار تھا‘

’تکلیف دینے کی بجائے گولی مار دو‘

’یقین نہیں کہ اپنی زندگی میں دوبارہ اپنے بچوں سے مل سکوں گا‘

سفیر لیو کو جن کیسز کے بارے میں ہم نے تفصیل دی تھی اس میں سے ایک کیس کسی بچے کا نہیں بلکہ ایک لاپتہ ماں کا تھا۔

چین کی سرکاری کمپنی میں بطور انجینئیر کام کرنے والی 68 سالہ ژیامیونیور کو چار سال قبل تربیتی کیمپ بھیج دیا گیا تھا جہاں انھوں نے 18 ماہ کا وقت گزارا جس کے بعد انھیں رہا کر دیا گیا۔

ان کی بیٹی ریلا ابولیتی 2002 سے برطانیہ میں رہائش پذیر ہیں اور کہتی ہیں کہ حکام نے اب تک ان کی والدہ کو پاسپورٹ نہیں دیا اور ان پر نگرانی کا سلسلہ جاری رکھا۔

جب 2019 میں بی بی سی نے سنکیانگ کا دورہ کیا تو چینی حکام نے اس بات پر زور دیا کہ وہ کہیں بھی آنے جانے کے لیے بالکل آزاد ہیں لیکن ان کی صحت ناساز ہے اور یہ کہ ان کی طرح کئی اویغور غذائی بیماری کا شکار رہتے ہیں کیونکہ وہ ‘گوشت اور دودھ کا زیادہ استعمال کرتے ہیں۔’

Reyila speaks to the BBC in 2019

ریلا ابولیتی 2002 سے برطانیہ میں رہائش پذیر ہیں اور کہتی ہیں کہ حکام نے اب تک ان کی والدہ کو پاسپورٹ نہیں دیا اور ان پر نگرانی کا سلسلہ جاری رکھا

ریلا ابولیتی اس الزام پر بہت غصہ اور غم کا اظہار کرتی ہیں اور انھوں نے مجھے بتایا کہ ان کی والدہ کا دوران حراست 15 کلو وزن کم ہو گیا تھا کیونکہ وہاں کے حالات اس قدر خراب تھے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ چین میں حکام کیوں تسلی بخش جواب نہیں دے پا رہے تو ان کا کہنا تھا کہ ‘وہ جو کر رہے ہیں وہاں، اسے چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔’

اس سال کے اوائل میں چینی سفیر لیو ژاؤمنگ نے برطانیہ میں اپنی مدت ملازمت مکمل کر لی ہے اور برطانیہ میں صحافیوں کو آن لائن الوادع کہا لیکن ان کے کیے گئے وعدے ابھی تک پورے نہیں ہوئے ہیں۔

دوسری جانب مجھے مجبور کر دیا گیا کہ میں چین چھوڑ دوں کیونکہ وہاں کے حکام کی جانب سے مجھ پر میری صحافت کی وجہ سے سخت دباؤ تھا اور بالخصوص سنکیانگ پر کی گئی رپورٹنگ کی وجہ سے مجھے دھمکیاں مل رہی تھیں۔

ان میں سے چند دھمکیاں تو مجھے براہ راست ژو گوئیژیانگ کی جانب سے دی گئی تھیں۔ انھوں نے چینی سرکاری میڈیا سے بات کرتے ہوئے الزام لگایا کہ بی بی سی نے ‘فیک نیوز’ شائع کی ہے اور صحافتی اقدار کی خلاف ورزی کی ہے۔

لیکن چینی حکام کی جانب سے مسلسل یہ کہنے کے باوجود، کہ انھیں نام فراہم کیے جائیں، ابھی تک وہاں سے مکمل طور پر خاموشی ہے۔

ہم نے چینی وزارت خارجہ سے سوال کیا کہ اب تک حکومت کے کسی بھی محکمے نے ہم سے کیے گئے وعدوں کو پورا نہیں کیا اور کسی بھی لاپتہ فرد کے بارے میں معلومات نہیں دی ہیں۔

اس خبر کے شائع ہونے سے قبل تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔

پروڈیوسر: کیتھی لانگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32506 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp