نیپال کے وزیر اعظم شرما اولی کے یوگا کے وجود سے متعلق بیان پر بحث

مرزا اے بی بیگ - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دہلی


یوگا
نیپال کے نگراں وزیر اعظم کے ایک متنازع بیان نے ایک بار پھر انڈیا اور نیپال کے درمیان جاری کشمکش کو ظاہر کیا ہے اور سوشل میڈیا پر اس کے متعلق گرما گرم بحث جاری ہے۔

انڈین خبررساں ایجنسی اے این آئی کے مطابق سوموار کو نیپال کے نگراں وزیر اعظم کے پی شرما اولی نے کہا کہ یوگا انڈیا کے بجائے نیپال سے شروع ہوا تھا۔

گذشتہ روز یوگا کے عالمی دن کے موقعے پر انھوں نے یہ بھی کہا کہ جب یوگا معرض وجود میں آیا اس وقت انڈیا نامی ملک کا کوئی وجود نہیں تھا بلکہ وہ ایک ایسا خطہ تھا جو مختلف علاقوں میں تقسیم تھا۔

خبررساں ادارے کے مطابق وزیر اعظم اولی نے یہ باتیں یوگا کے عالمی دن کے موقعے پر اپنی رہائش گاہ میں ہونے والے ایک پروگرام کے دوران کہیں۔

انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ انڈیا کے یوگا ماہرین اس حقیقت کو چھپا رہے ہیں۔

انھوں نے کہا ‘آج جو انڈیا ہے اس کا پہلے کوئی وجود نہیں تھا۔ اس وقت انڈیا مختلف دھڑوں میں منقسم تھا۔ اس وقت کسی براعظم یا کسی برصغیر کی طرح تھا۔’

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سنہ 2014 میں یوگا کو عالمی سطح پر متعارف کروانے کے لیے اس کے حق میں قرارداد منظور کی تھی اور اس کے بعد سے ہر سال 21 جون کو یوگا کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

وزیراعظم نریندر مودی نے جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اس دن کا تعین کیا تھا، اس کے بعد سے بی جے پی حکومت اپنے سر یہ سہرا لیتی ہے کہ اس نے یوگا کو عالمی سطح پر متعارف کرایا۔

یاد رہے کہ اس سے قبل دنیا اس جسمانی اور ‘روحانی’ طریقہ ورزش سے واقف تھی اور دنیا کے تمام بڑے شہروں میں اس کے مراکز قائم تھے۔

نیپالی وزیراعظم کے بیان کے بعد سوشل میڈیا اور بطور خاص ٹوئٹر پر ‘نیپال’، ‘نیپال یوگا’ اور ‘اولی’ ٹریند کر رہا ہے۔

لوگ اپنے تبصروں میں جہاں میمز شیئر کر رہے ہیں وہیں کچھ لوگ وزیراعظم اولی کے پرانے بیان کا حوالہ بھی دے رہے ہیں جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ہندوؤں کے بھگوان رام نیپالی تھے اور وہ جس ایودھیا میں پیدا ہوئے وہ ایودھیا اترپردیش کا شہر نہیں بلکہ نیپال کا ایک قصبہ ہے۔

سویڈن میں پیس اینڈ کنفلکٹ کے پروفیسر اشوک سوائیں نے جب یہ حالیہ خبر ٹویٹ کی تو اس کے جواب میں شوبھا شرما نامی ایک صارف نے لکھا: ‘یہ سچ ہے۔ نیپال کا ذکر وید کے ہم وت کھنڈ (جلد) میں ہے۔ پتنجلی (یوگا کے اولین استاد مہارشی پتنجلی) نیپال میں پیدا ہوئے اور یوگا یہیں سے شروع ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انڈیا نے وید کا ہم وت کھنڈ شائع نہیں کیا ہے۔ یہ ملک حقیقت کو آشکار نہیں ہونے دینا چاہتا ہے۔’

جبکہ یوگا اور اس کے اولین استاد مہارشی پتنجلی کے بارے میں سینیئر صحافی مدھوکر اپادھیائے نے بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں وثوق کے ساتھ کوئی نہیں کہہ سکتا کیونکہ یہ تقریباً پانچ ہزار سال پرانی بات ہے۔

انھوں نے البتہ یہ بتایا کہ دنیا بھر میں تو یوگا ہوتا ہے لیکن جہاں اس کے اولین استاد مہارشی پتنجلی پیدا ہوئے وہاں اس سے تعلق کوئی پروگرام نہیں ہوتا۔

انھوں نے کہا کہ پتنجلی اترپردیش کے ضلع گونڈا کے وزیراگنج علاقے کے گاؤں کودار میں پیدا ہوئے تھے جہاں کئی سال پہلے ان کا مجسمہ لگایا گیا تھا لیکن وہاں یوگا کے نام پر کچھ نہیں ہوتا ہے۔

مدھوکر اپادھیائے نے یہ بھی بتایا کہ گونڈا عہد قدیم میں بڑا علاقہ ہوا کرتا تھا اور یہ ترائی کا علاقہ تھا جس کی سرحد نیپال سے ملتی تھی۔ لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس وقت وہ نیپال کا حصہ تھا۔

نیپالی وزیر اعظم اولی کے بیان پر انھوں نے کہا کہ ‘وہ نگراں وزیر اعظم ہیں اور ان کی حکومت کی پوزیشن کمزور ہے۔ ایسے میں ان کے اس طرح کے بیانات آتے رہے ہیں جو زبانی طور پر انڈیا مخالف ہوتے ہیں جس سے کہیں نہ کہیں چین کو فائدہ پہنچتا ہے۔’

اولی کے حق میں دلیل دینے والوں کا کہنا ہے کہ حکومت برطانیہ کی آمد سے قبل انڈیا نام کا کوئی متحد ملک نہیں تھا بلکہ تقسیم ہند کے بعد ہی اصل انڈیا کا جنم ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

‘رام نیپالی تھے، ایودھیا نیپال میں ہے’: وزیر اعظم اولی کے بیان پر تنازع

دیومالائی مخلوق نے کس طرح نیپالی قوم کو تقسیم کیا

جب ولی عہد نے بادشاہ، ملکہ سمیت شاہی خاندان کے نو افراد کو قتل کر کے خودکشی کر لی

ایک صارف نے تنز کرتے ہوئے میمز کے طور پر دنیا کا نقشہ پیش کرتے ہوئے دنیا کے تمام براعظموں پر نیپال کا نام لکھ دیا ہے اور یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ انڈیا تو نہیں تھا لیکن نیپال ہر جگہ تھا۔

اسی طرح کسی نے یہ دلیل دینے کی کوشش کی ہے کہ انڈیا نہیں تھا لیکن ‘بھارت’ تو تھا۔ کسی نے کہا کہ ‘اکھنڈ بھارت’ کا حصہ تو مریخ بھی تھا جسے اب مودی جی لاکر انڈیا میں جوڑ دیں گے۔’

ایک صارف نے لکھا: ‘صرف کسی خطہ ارض سے ملک وجود میں نہیں آ جاتا۔ اس وقت مختلف سلطنتیں تھیں جن میں مختلف زبانیں بولنے والے لوگ آباد تھے۔ یہ سچ ہے کہ بہت سے راجاؤں (بادشاہوں) نے بہت سے خطوں کو متحد کیا لیکن لوگوں کو کبھی متحد نہیں کر سکے اور وہ پھر مختلف بادشاہتوں میں منقسم ہو گئے۔‘

اس کے ساتھ انھوں نے کئی دیگر ٹویٹس کر کے اپنی دلیل ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔

دوسری جانب فرینڈز آف آر ایس ایس نامی ایک صارف نے لکھا ہے کہ ‘نیپال بھی قدیم انڈیا کا حصہ تھا۔’

ایک صارف نے تنز کرتے ہوئے نیپال کے وزیر اعظم کے پی اولی شرما کے دعوے گنوائے ہیں کہ رام نیپال میں پیدا ہوئے، یوگا نیپال سے شروع ہوا، سچن تنڈولکر نیپالی ہیں، نیپال میں تمام 26 حروف تہجی ہیں، مدراسی (در اصل) نیپالی ہیں، سورج نیپال کے گرد گردش کرتا ہے، بگ بینگ نیپال میں ہی واقع ہوا تھا۔’

ان تمام باتوں سے قطع نظر انڈیا اور نیپال کے درمیان گذشتہ چند برسوں میں تلخی بڑھی ہے اور نیپال نے کئی مواقع پر احتجاج بھی کیا ہے۔ چنانچہ گذشتہ دنوں انڈین فوج کی ایک آسامی کا اشتہار بھی اس تنازعے کا باعث بنا تھا اور فوج نے اس میں سے نیپالی گورکھا کا ذکر ہٹا دیا تھا۔

اسی طرح گذشتہ سال ہی جب انڈیا کے وزیر خارجہ نے بودھ مذہب کے بانی گوتم بدھ کے بارے میں کہا تھا کہ وہ انڈین ہیں تو نیپال نے سخت اعتراض کیا تھا اور حکومت ہند کو اس سلسلے میں وضاحت دینی پڑی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32546 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp