حضرت طالب جوہری: جن سے ملنے کا ہر کوئی طالب تھا



دنیا میں ایسے چند ہی لوگ وجود رکھتے ہیں جن سے لوگ ان کی زندگی میں بھی ملنے کا اشتیاق رکھتے ہیں اور ان کے گزر جانے کے بعد ان سے جڑی یادوں کو یاد کر کے لمبی سانسیں بھرتے ہیں۔ یہ حقیقت بھی ہے اور آنکھوں دیکھا مشاہدہ بھی کہ دولت مند آدمی زندگی میں تو شاید لوگوں کا منظور نظر ہو مگر مٹی میں جانے کے بعد اس کا تذکرہ زبانوں پر پھر نہیں آتا۔ مگر علم کی دولت ایسی ہے کہ وہ انسان کو زندگی میں بھی منظور نظر رکھتی ہے اور بعد از زندگی بھی۔

تاریخ انسانی میں ہزاروں لوگ گزریں ہیں جو بہت دولت مند ہوں گے اور ایسے بھی گزرے ہوں گے جن کا سرمایہ علم و حکمت ہوگا، لیکن دولت مندوں کا ذکر مٹ گیا اور علم کے دریا بہانے والوں کا ذکر آج بھی جاری ہے۔ علم و حکمت کے نئے نئے دفتر کھولنے والوں میں اک نام تھا علامہ طالب جوہری صاحب کا جن کو دنیا چھوڑے ایک سال کا عرصہ ہو گیا مگر دنیا میں بسنے والے علم دوست احباب آج بھی ”طالب“ کا ذکر علم کے ساتھ کر رہے ہیں گویا طالب جوہری کا ذکر بھی علم میں شمار ہو گیا۔

علامہ صاحب کا عمومی تعارف خطیب شام غریباں کے عنوان سے تھا۔ مگر سال میں جس نے ایک بار ایک گھنٹے کے لئے علامہ صاحب کو سنا وہ علامہ صاحب کو اتنا ہی جانتا تھا مگر اس ایک گھنٹے نے کئی دہائیوں تک کروڑوں لوگوں کو آپ کا گرویدہ بنا کر رکھا۔ اس طرح ہزاروں لوگوں کا علامہ سے تعارف دس روزہ عشرے مجالس کا تھا جو وہ نشتر پارک میں پڑھتے تھے ان ہزاروں لوگوں میں مسلک و مذہب کی قید نہیں تھی۔ مگر خوش قسمتی سے میرا شمار ان لوگوں میں سے تھا کہ جن کا علامہ صاحب سے تعلق سال بھر کا تھا۔ بس مجلس و کسی بیٹھک کا موقع لگے اور ہم علامہ صاحب سے علم و حکمت کے موتی حاصل کرنے چلے جاتے تھے۔

علامہ صاحب کی گفتگو منبر پر ہی علمی نہیں ہوتی تھی بلکہ ان کے ہر جملے میں حکمت کے موتی جڑے ہوتے تھے۔ ان کے مہمان خانے کی گفتگو ہو یا منبر کی، اس گفتگو میں تاریخ ہوتی، ادب ہوتا، دلیل ہوتی، حکمت ہوتی تھی گویا ان کا مزاح بھی ادب کے دائرے میں ہی طواف کرتا۔ ایک انسان جس کی پوری زندگی علم حاصل کرتے اور علم بانٹتے گزر گئی ہو تو ایسا کیوں نہ ہو تا کہ اس کے بچھڑنے کے بعد انھیں بھول جایا جائے۔ بلکہ علم تو ایسی دولت ہے جو مسلسل بڑھتی رہتی ہے اور اس کو پھیلانے والا ہمیشہ زندہ رہتا ہے کیونکہ وہ اس علم کے ساتھ جڑ جاتا ہے۔

علامہ صاحب کا مسلکی تعلق بے شک ایک فرقہ سے تھا مگر ان کا علمی تعلق ہر علم دوست انسان سے تھا۔ ان کی پہچان صرف منبر شام غریباں نہ تھی ان کی پہچان علم و حکمت بن گئی تھی۔ علامہ کی خطابت ایسی گرج دار ہوتی تھی کہ سامعین اس میں مسلسل محو رہتے تھے۔ تاریخ میں بہت کم لوگ ایسے گزرے ہیں جن کو بیک وقت خطابت اور علم کے جواہر بکھیرنے میں ملکہ حاصل ہو مگر علامہ طالب جوہری دور حاضر کے اور بالخصوص اردو زبان کے ایسے خطیب تھے جن کو علم کے موتی بکھیرنے پر کمال عبور حاصل تھا۔ ان کی مجلس میں کسی بھی عمر کا شخص چلا جائے اس کے لئے علامہ نے انتظام کیے رکھا ہوتا تھا۔ 70 سال کا بوڑھا ہو یا 10، 12 سال کا سامعین اس کے لئے علامہ صاحب کی مجلس میں علمی تبرک ضرور ہوتا تھا۔

علامہ صاحب اب ہم میں موجود نہیں مگر ان کی مجالیسں، ان کے درس، ان کی کتابیں، ان کے حکمت بھرے موتی اب بھی لوگوں میں علم کے پیاس بجھا رہے ہیں۔ بلاشبہ علامہ صاحب پاکستان جیسے ملک کے لئے نعمت تھے اس کی وجہ نہ صرف علم تھا بلکہ علامہ صاحب کی بیٹھکیں اور مجلسیں تھی جو صرف ایک مسلک کے لوگوں کے لئے نہیں تھی بلکہ اس میں مختلف مسلک و مذاہب کے لوگ ساتھ بیٹھتے تھے جو ملکی فضاء کے لئے انتہائی خوشگوار تھا۔ مشہور صحافی و لکھاری وسعت اللہ خان نے علامہ صاحب کی رخصت پر لکھتے ہیں کہ ”ان کا خلا ایک طویل عرصے تک پر نہیں ہو سکے گا۔ مجھے تو شک ہے وہ خلا بھی اپنے ساتھ ہی لے گئے۔ ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments