وزیرِ دفاع پرویز خٹک کے غربت ختم ہو جانے والے بیان پر بحث اور پاکستان میں غربت کی اصل صورتحال ہے کیا؟

منزہ انوار - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


غربت

پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں اور ماہرین کے مطابق کورونا وائرس کی وبا نے بے روزگاری اور شہریوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کیا ہے۔

اس سب کے برعکس وفاقی وزیِر دفاع اور خیبرپختونخوا کے سابق وزیرِاعلیٰ پرویز خٹک نے مہنگائی اور غربت کو اپوزیشن کا پروپیگنڈہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’عمران خان کے فیصلوں کے باعث معیشت اور لوگوں کا معیارِ زندگی بہتر ہوا ہے، اب لوگوں کے پاس گاڑیاں اور اچھا رہن سہن ہے اور غریب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔‘

پرویز خٹک کا یہ بھی کہنا تھا کہ غربت اور مہنگائی، یہ سب ’اپوزیشن کا ڈرامہ ہے اور یہ نہیں چلے گا کیونکہ اب لوگ سمجھدار ہو گئے ہیں‘۔

عوام کتنی سمجھدار ہوئی، یہ تو سوشل میڈیا پر ان کی تقریر کے ردِعمل میں چلنے والی بحث سے آپ خود ہی اندازہ لگا لیجیے گا لیکن فی الحال تو پرویز خٹک کے اپنے صوبے اور انھی کی پارٹی پی ٹی آئی سے وابستہ افراد بھی ان کے غربت ختم ہونے والے بیان سے اتفاق کرتے نظر نہیں آ رہے۔

پرویز خٹک نے کیا کہا؟

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا

پیر کو بجٹ سیشن کے دوران تقریر کرتے ہوئے پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ ’یہ (اپوزیشن) کہتی ہے کہ بےروزگاری ہے۔ ملک تعمیرات سے چلتے ہیں اور اگر ملک میں ترقی ہوتی ہے، آبادی بڑھتی ہے، کاروبار چلتا ہے تو وہ تعمیرات سے چلتا ہے اور ساری صنعتیں تعمیرات سے منسلک ہیں اور اگر انھوں (اپوزیشن) نے تعمیرات کو مراعات دی ہوتیں تو اس ملک میں کمیاں پوری ہو جاتیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے تعمیرات میں مراعات دیں، ٹیکسوں میں چھوٹ دی اور تعمیرات کو بطور صنعت ڈکلئیر کیا اور آج ہر جگہ پر سیمنٹ کے کارخانے اور اس سے متعلقہ بازار سب چل رہے ہیں اور یہی روزگار دینا ہوتا ہے۔

پرویز خٹک کا مزید کہنا تھا کہ ’خالی سرکاری نوکریوں سے روزگار نہیں ملتا۔ مجھے ڈھونڈ کے بتائیں اس وقت کون بےروزگار ہے؟ آپ کو مزدور نہیں ملتا، گھروں میں نوکر نہیں ملتے کیونکہ لوگ صرف سرکاری نوکری چاہتے ہیں، کوئی محنت نہیں کرنا چاہتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں اپنے صوبے کی بات کرتا ہوں، 38 سال پہلے جب میں سیاست میں آیا تو ہمارے علاقے میں سارے گاؤں کچے تھے، آج مجھے کوئی کچا مکان دکھا دیں۔ تو کہاں پر غربت آ گئی؟ گاڑیاں نہیں تھیں کسی کے پاس، موٹرسائیل نہیں تھے، لیکن آج ہر ایک اچھی زندگی گزار رہا ہے۔‘

پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ’ یہ بالکل غلط پروپیگنڈا ہے کہ لوگ بھوکے ہو گئے ہیں۔ میرے صوبے (خیبرپختونخوا) میں آؤ، میں آپ کو پھراتا ہوں مجھے کوئی کچا مکان دکھا دو تو میں کہوں گا کہ یہ ملک پیچھے جا رہا ہے۔‘

پشاور میں احساس ایمرجنسی پروگرام کے باہر لی گئی تصویر

پشاور میں احساس ایمرجنسی پروگرام کے باہر لی گئی تصویر

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ان لوگوں (اپوزیشن) نے اکنامکس پڑھی ہو تو انھیں پتا ہو کہ دنیا میں مہنگائی ہر جگہ جاری ہے۔ امریکہ میں بھی مہنگائی ہو رہی ہے، یورپ میں بھی ہو رہی ہے لیکن اس کا ایک فورمولا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر عوام کی زندگی کا معیار (سٹینڈرڈ آف لیونگ) نیچے جائے اور ملک میں مہنگائی آئے تو وہ تباہی ہے۔‘

’لیکن اگر عوام کی زندگی بہتر ہو رہی ہے اور ان کے پاس خرید کے لیے پیسہ ہے تو وہ ملک کی تباہی نہیں ترقی ہے کیونکہ مہنگائی اور لوگوں کی زندگی آپس میں جڑی ہوئی ہے۔‘

پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ ’آج امریکہ اور یورپ میں دیکھیں کون سی چیز سستی ہوئی، ان کی آمدن بھی بڑھ رہی ہے اور ملک بھی ترقی کر رہا ہے۔ لہذا جس ملک میں مہنگائی نہیں اور سب کچھ رک جائے، وہ ملک بھی رک جائے گا۔ نہ کوئی اگائے گا، نہ کوئی صنعت چلے گی اور نہ کاروبار ہو گا تو ایسے میں ملک کس طرح چلے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ عجیب رجحان شروع کیا ہوا ہے کہ مہنگائی مہنگائی، غربت۔۔ میں اپنے صوبے کی بات کرتا ہوں اور چیلینج کرتا ہوں کہ آئیں میرے ساتھ پھریں اور مجھے ایک غریب پیدا کر کے دکھا دیں تو میں کہوں گا کہ آپ سچ بول رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ سب اپوزیشن کا ’ڈرامہ ہے اور یہ سب نہیں چلے گا کیونکہ اب لوگ سمجھدار ہو گئے ہیں‘۔

پرویز خٹک کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ خود تعمیرات کا کام کرتے ہیں اور بڑی مشکل سے کام کرنے والے مزدور ملتے ہیں۔

ہشام انعام اللہ خان: ’خیبرپختونخوا میں غربت میں 10 فیصد اضافہ ہوا، پرویز خٹک نے مذاق میں ایسا کہا ہو گا‘

خیبرپختونخوا کے صوبائی وزیر سماجی بہبود ڈاکٹر ہشام انعام اللہ خان نے وفاقی وزیر پرویز خٹک کے بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں نہ صرف غربت ہے بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’پرویز خٹک نے مذاق میں ایسا کہا ہو گا۔‘

ہشام انعام اللہ خان نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’غربت ایسی ہے کہ 2018 میں 32 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور تھے، اب بڑھ کر ان کی تعداد 40 فیصد سے زیادہ ہو گئی ہے اور اس میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ انھی غریبوں کے لیے پناہ گاہیں، لنگر خانے اور احساس پروگرام چلائے جا رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ردِعمل: ’لنگر خانے اور احساس پروگرام امیروں کے لیے شروع کیے ہیں کیا؟‘

سوشل میڈیا پر بھی وفاقی وزیِر دفاع کی تقریر کا کلپ زیر بحث ہے اور بیشتر صارفین ان کے غربت ختم ہونے کے دعوے پر تنقید کرتے ہوئے پوچھ رہے ہیں کہ ایک طرف لیڈر (عمران خان) غریبوں کے لیے لنگر خانے اور پناہ گاہیں کھول رہے ہیں، غربت مٹانے کے لیے احساس پروگرام شروع کر رہے ہیں اور دوسری جانب انھی کے وزیر کو غریب ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہے۔

ارشد خان نامی صارف نے پرویز خٹک کی تقریر پر ردِعمل دیتے ہوئے سوال کیا کہ اگر ایسا ہی ہے تو ’یہ لنگر خانے اور احساس پروگرام امیروں کے لیے شروع کیے ہیں کیا؟‘

واصف عابدی نے تبصرہ کیا ’اکنامک سروے کے مطابق پانچ کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے ہیں۔۔۔ جب کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے لیکن ان کی گفتگو یہ ہے۔‘

مریم بتول کا کہنا ہے کہ ان کے پاس تو گاڑی نہیں اور نہ وہ خریدنے کی سکت رکھتی ہیں حالانکہ ان کی سالانہ آمدن گاڑی کی آدھی قیمت جتنی ہے، لیکن مہنگائی اتنی ہے کہ بچت نہیں ہوتی۔ انھوں نے وفاقی وزیر سے سوال کیا کہ ’آپ کس خوشحالی کی بات کر رہے ہیں؟ روز کی سبزی ہی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ ویسے کیا آپ کو پتہ ہے کہ روٹی دس روپے کی ہو گئی ہے؟‘

کچھ صارفین وفاقی وزیر کے بیان پر ردِعمل میں پاکستان میں غربت کے باعث ہونے ہونے والی خودکشیوں کی خبریں بھی شئیر کرتے نظر آئے۔

یہ بھی پڑھیے

پرویز خٹک: ایچیسن کالج سے وزیر اعلیٰ تک

سپریم کورٹ نے خیبرپختونخوا کے وزیر اعلی کو طلب کر لیا

جہانگیر ترین کے حامی اراکین کی وزیراعظم سے ملاقات، نتیجہ کیا نکلا؟

عاکی نے طنزیہ تبصرہ کیا کہ: ’بس کبھی کبھار شوقیہ بچے نہر میں پھینک دیتے ہیں۔ روزے میں زیادہ اجر وثواب اور تزکیہ نفس کے لیے چار پانچ گھنٹے قطار میں لگ کر آٹا چینی لے کر دس پندرہ روپے کی خطیر رقم بچاتے ہیں یا عادتاً گلی محلے میں خریداری، یوٹیلیٹی بل دیتے، خان صاحب کی خدمت میں ہدیہ پیش کرتے ہیں۔ ناشکری قوم‘

عثمان ارشد نے وفاقی وزیر کے بیان پر تبصرہ کیا کہ ’آپ کبھی بازار سے خود سبزی لینے جائیں تو پتہ ہو۔۔۔ دور نہ جائیں اپنے گھر جو آپ کا مالی کام کرتا ہے کبھی اس سے پوچھ لیں آپ کو بتا دے گا۔۔۔‘

بلال فیاض کا خیال ہے کہ شاید پرویز خٹک صاحب اپنے رشتہ داروں، دوستوں اور سیاسی اتحادیوں کی بات کر رہے ہیں ’ماشااللہ ان میں سے اب کوئی غریب نہیں ہے۔ سیاستدان انھیں ہی عوام سمجھتے ہیں۔‘

چوہدری ارشد نے پرویز خٹک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ لائف سٹائل ان کے ارد گرد بیٹھے ہوئے لوگوں کا ہے ’ان خوشامدیوں کے جھنڈ سے باہر بھی ایک دنیا ہے جن کو دو وقت کی روٹی کپڑا پورے کرنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔‘

نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ گذشتہ شب پاکستان میں نجی ٹی وی چینلز پر ٹاک شوز میں بھی پرویز خٹک کی تقریر زیرِ بحث رہی۔

جیو نیوز کے پروگرام ’کیپٹل ٹاک‘ میں صوبائی وزیر اطلاعات سندھ سید ناصر حسین شاہ نے پرویز خٹک کی مہنگائی اور غربت سے متعلق تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’اکنامسٹس کی سروے رپورٹ کے مطابق چاروں صوبوں میں سے سب سے زیادہ غربت خیبر پختونخوا میں بڑھی ہے۔‘

ناصر شاہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’اچھا ہوا کہ قومی اسمبلی کی عمارت مضبوط ہے اور پرویز خٹک کی سچی باتوں سے گر نہیں گئی۔‘

جہاں سوشل میڈیا پر ایک جانب پرویز خٹک کے بیان پر تنقید جاری ہے وہیں کئی افراد ان کا دفاع بھی کرتے نظر آئے۔

عنصر احمد قریشی نے لکھا ’خٹک صاحب بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں کیونکہ وہ کوئی معمولی ایم این اے نہیں بلکہ کیبنیٹ کا حصہ اور ملک کے وزیرِ دفاع ہیں اور انھیں ہر چیز معلوم ہے اور وہ پی ٹی آئی کے ایک ذمہ دار رکن ہیں۔‘

احمد حسین بھٹی نے بھی ان کا دفاع کرتے ہوئے لکھا کہ ’ہر بندے کے پاس موباٸل فون ہے۔ کہاں ہے غربت؟‘

کچھ صارفین کا کہنا ہے کہ پرویز خٹک کی ’تھیوری آف انفلیش‘ن بالکل ٹھیک ہے۔ جس ملک میں مہنگائی نہیں ہو گی وہاں سب کچھ رک جائے گا تو ایسے میں ملک کیسے ترقی کرے گا۔

پاکستان میں غربت کی اصل صورتحال ہے کیا؟

اس حوالے سے ماہر معاشیات ڈاکٹر اشفاق حسن خان (ڈین، سکول آف سوشل سائنسز- نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی) نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ غربت کی شرح کیا ہے، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ’سروے کون کر رہا ہے‘ اور غربت کی شرح کا اندازہ لگانے کے لیے ان کا ’طریقہ کار کیا ہے‘۔

ان کے مطابق آسان الفاظ میں ’اگر 250 کیلوریز کو معیار کے طور پر استعمال کیا جائے (یعنی ایک انسان کو زندہ رہنے کے لیے 250 کیلوریز خوراک چاہیے ہو جس میں چاول چینی وغیرہ سب شامل ہیں) تو اس پر آنے والے اخراجات ’غربت کی لکیر‘ ہے۔ لیکن اگر آپ 2500 کیلوریز کو معیار رکھیں تو آپ کا نتیجہ مختلف ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ سروے کے نتائج کا انحصار اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ خوراک کے اخراجات کی قیمت کو مہنگائی کے ساتھ کس طریقے کار کے تحت ایڈجسٹ کیا گیا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ حکومتِ پاکستان (پلاننگ کمیشن) کا کہنا ہے کہ کووڈ کی وبا سے قبل تقریباً 23-24 فیصد افراد غربت کی سطح سے نیچے رہ رہے تھے اور جیسا کے وبا نے پوری دنیا میں تباہی مچائی، پاکستان میں بھی بے روزگاری پھیلی اور بہت سارے دیہاڑی دار مزدوروں سمیت تقریباً دو کروڑ مزید بے روزگار ہوئے اور غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والوں کی تعداد بڑھ کر 27-28 فیصد ہو گئی۔

بین الاقوامی مزدور تنظیم (آئی ایل ایو) کی تحقیق کا حوالے دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ صورتحال بہتر ہونے سے اگرچہ ایک بڑی تعداد کام پر واپس گئی ’لیکن اب بھی تقریباً 25 لاکھ افراد بے روزگار ہیں۔‘

ماہر معاشیات ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق اس سے متعلق سنہ 2015 کے بعد کوئی آفیشل سروے تو نہیں ہوا تاہم کئی اداروں کی جانب سے تحقیق کی گئی ہے۔

ڈاکٹر حفیظ پاشا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ حکومتِ پاکستان نے سنہ 2015 میں جو آخری آفیشل سروے کروایا اس کے نتائج کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح 38.8 فیصد تھی اور سب سے زیادہ غربت بلوچستان اور اس کے بعد خیبر پختونخوا میں تھی جبکہ سندھ اور پنجاب تیسرے اور چوتھے نمبر پر تھے۔

(یہ سروے multidimensional approach کو استعمال کرتے ہوئے کیا گیا اور حکومتِ پاکستان نے پلاننگ کمیشن کے تحت آکسفورڈ پوورٹری اینڈ ہیومن ڈیولپمنٹ انسٹی ٹیوٹ اور اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے ساتھ مل کر کروایا اور اسے multidimensional incidence of poverty کا نام دیا گیا تھا، اور یہ قومی، صوبائی حتیٰ کہ ہر تحصیل اور ضلع کی سطح پر بھی کیا گیا تھا۔)

کراچی میں قائم سوشل پالیسی اینڈ ڈیولپمنٹ انسٹیٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) جو گذشتہ 20 سال سے پاکستان میں غربت پر نظر رکھ رہا ہے، ان کی جانب سے سنہ 2016 تک کی گئی ایک تحقیق (consistent estimates of trend in poverty ) کا حوالہ دیتے ہوئے حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ ’2015-16 میں غربت میں کمی ہوئی اور یہ شرح 31 فیصد تک آ گئی۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’سنہ 2018 کے بعد شرح نمو انتہائی کم ہو گئی اور 2018-19 میں یہ 2.1 فیصد تک آ گئی اور پھر کووڈ کے بعد غربت میں شدید اضافہ ہوا، لاکھوں افراد کے روزگار اور نوکریاں ختم ہو گئیں۔‘

پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (پی بی ایس) کی جانب سے کیے گئے سروے کا حوالہ دیتے ہوئے حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ اپریل سے جون 2020 کے دوران تقریباً 23 ملین افراد کی نوکریاں یا روزگار کے ذرائع ختم ہو گئے۔

غربت

حفیظ پاشا کے مطابق پی بی ایس نے اب ایک اور سروے کیا ہے جس کے مطابق 2020-21 میں کووڈ کی وبا سے بحالی کے دورانیے (2020-21) میں ان بے روزگار افراد کی ایک بہت بڑی تعداد کو واپس روزگار مل گیا ہے لیکن ابھی بھی پاکستان میں تین ملین افراد بے روزگار ہیں۔ جبکہ ان کے مطابق 2017-18 میں چار ملین بےروزگار افراد کے اعداد وشمار اس کے علاوہ ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اب بھی پاکستان میں کم سے کم تقریباً سات ملین افراد بے روزگار ہیں اور زیادہ امکان یہی ہے کہ ان میں سے زیادہ تعداد انتہائی غریب ہیں۔ اس کے علاوہ وہ لوگ بھی جنھیں مزدوری یا تنخواہ یا تو مل نہیں رہی یا انتہائی کم ملتی ہے۔‘

ان کا خیال ہے کہ اگرچہ درست اندازے لگانے کے لیے ایک جامع سروے کی ضرورت ہے تاہم وہ کہتے ہیں کہ ’ریسرچ اور econometric analysis کے ذریعے سنہ 2020-21 میں غربت کی شرح تقریباً 34-35 فیصد بتائی گئی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والوں کی شرح میں اضافے کی وجوہات میں بے روزگاری کے ساتھ ساتھ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں بے انتہا اضافہ شامل ہے جو غریب کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے اور گذشتہ دو سے تین سال کے دوران ان کی قیمتوں میں تقریباً 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

غربت

اس سوال کے جواب میں کہ اگر پاکستان کی معاشی صورتحال بہتر ہوئی ہے تو غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والوں کی شرح میں کمی کیوں نہیں آئی، حفیظ پاشا کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ اس سال ملک کی معاشی صورتحال (جی ڈی پی کے حساب سے) بہتر ہوئی ہے لیکن اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں 14-15 فیصد تک مسلسل اضافہ جاری ہے اور اسی وجہ سے نہ صرف لوگ غربت سے نکل نہیں پا رہے بلکہ ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘

ڈاکٹر حفیظ پاشا اور ڈاکٹر اشفاق حسن خان دونوں کا ماننا ہے کہ ابھی بھی اس ملک میں غریب بستے ہیں اور ’یہ نہیں کہا جاسکتا کہ پاکستان میں غربت کم ہو گئی ہے‘ بلکہ اشیائے خوردونوش کی بڑھتی قیمتیں غربت کی لکیر سے اوپر بسنے والوں کو بھی نیچے کھینچ رہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32496 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp