عصمت دری کی وجہ بھی عورت ہے


وزیراعظم عمران خان کیونکہ بہت تیزی سے کپتانی سے سیاسی قیادت تک پہنچے ہیں، عموماً ان کی تقاریر اور بیانات ان کی ”بنی ہوئی علمیت“ اور ”تیار شدہ دانشوریت“ کا اظہار ہوتے ہیں۔ مذہب سے لے کر سیاست اور عالمی مسائل سے لے کر گلی محلے کی پنچایت تک ہر معاملے میں ہر فن مولا ہونے کا زعم میں ان سے ایسی باتیں بھی سر زد ہوجاتی ہیں، جو برصغیر کے مخصوص پاور اسٹرکچر سماج کی سوچ اور نفسیات کی عکاس ہوتی ہیں۔

گزشتہ دنوں وزیراعظم صاحب نے ایسا ہی ایک بیان ایک غیرملکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے داغ دیا۔ وزیراعظم سے جب استفسار کیا گیا کہ ایک بار آپ نے پاکستان میں بڑھتے جنسی تشدد کے واقعات کی سنجیدگی کا اقرار کیا تھا اور پاکستانی کے قوانین کا بھی ذکر کیا تھا۔ اس کے علاوہ آپ نے اس بارے میں بیان دیا تھا کہ عورتوں کو پردے کا حکم اس لیے دیا گیا تھا کہ مردوں کو مشتعل ہونے سے روکا جائے۔

آپ کا کہنا تھا کے ہر مرد میں زیادہ قوت ارادی نہیں ہوتی اور یہ کہ جب بے حیائی کو بڑھایا جائے گا تو اس کے نتائج ہوں گے۔

جب وزیراعظم سے اس بارے میں پوچھا گیا کہ کیا وہ متاثرہ عورتوں کو جبری عصمت دری (RAPE) کا قصوروار ٹھہرا رہے ہیں؟ وزیراعظم نے اس کو بے ڈھنگی بات کہتے ہوئے کہا کہ وہ صرف پردے کے شرعی حکم کی بات کر رہے تھے۔ ریاست مدینہ مدعی محترم وزیراعظم نے اگر اس کو شرعی نکتہ نظر بیان کیا ہے تو ذرا قرآن کو دیکھ لیں کہ وہ کیا کہتا ہے

سورۂ نور میں پردے کی آیت میں عورت کو حکم دینے سے پہلے مرد کو اپنی نظریں جھکائے رکھنے اور اپنی شہوت پہ قابو رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔

اس سارے معاملے میں بنیادی بات ”طاقت اور قوت“ ، با اختیار اور فیصلہ ساز ہونے کی نفسیات کی ہے
معاشرے میں یہ تینوں
٭طاقت اور قوت
٭فیصلہ سازی
اور
٭بااختیار ہونا
یہ سب ادارے پدرشاہی نظام کی بنا پر ”مرد کی حاکمیت“ کے تلے ہیں
اس لئے کلاس، کلچر، غربت، امارت، لباس، شریعت اور قانون کے نفاذ یا عملدرآمد سے کوئی فرق نہیں پڑنا

ایک مالی، ڈرائیور، چپراسی، چوکیدار مرد بھی جب اپنی باس خاتون کو تاڑتا ہے اور ہراس کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی نفسیات میں یہ بات جاگزیں ہے کہ

عورت جتنی بڑے ”عہدے“ پہ پہنچ جائے اس کا ”مقام اور مرتبہ“ سماج نے طے کیا ہوا ہے
کیونکہ
طاقت اور قوت
فیصلہ سازی
اختیار
ہم مردوں کے پاس ہے
پس جو بھی نقصان ہوگا عورت کا ہوگا۔ اس لئے ضروری ہے کہ عورت کو برابری نہیں بلکہ عدل کے تقاضوں کے مطابق مساوی مقام و مرتبہ ملے۔ عورت کو ایک ”انسان اور فرد“ جانتے ہوئے لحاظ و احترام دیا جائے۔ عورت کو ذی روح اور مخلوق خدا سمجھتے ہوئے جینے کا حق دیا جائے۔
عورت کی پسند و ناپسند اور مرضی و نا رضامندی کو ایک انسان کی سوچ اور آرزو جانا جائے۔ عورت کو نہ تو عورت ہونے کی بنا پہ امتیازی متعصبانہ سلوک کا نشانہ بنا جائے اور نہ ہی عورت ہونے کی بنا پہ خوامخواہ کی رعایت دی جائے۔
عورت کا حق، احترام اور لحاظ ایک انسان اور ذی روح ہونے کی بنا پہ کیا جائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments