ہمارے خواب دست خداوند کی تحریر ہیں


\"\"نئے سال کا پہلا عشرہ مکمل ہونے کو ہے۔ سال کے آغاز پہ دی جانے والی بلند آہنگ مبارکبادوں کا شور تھم سا گیا ہے۔ ہر سال کی مانند اس سال بھی بار ہا دل میں ایک ننھی سی خواہش نے جنم لیا کہ جب نئے سال کا بڑا سا چمک دار سورج افق پہ اپنی درخشاں کرنیں پھیلائے نمودار ہو تو غموں سے ہلکان چہرے دمک اُٹھیں۔ خوشی کی وہ کرن جس کی منتظر آنکھیں اپنی بصیرتوں کے باعث ظلمتوں کی تاریک راتیں کاٹتے کاٹتے بے نور ہو چلی ہیں، اپنی بصارتوں پہ نازاں ہوجائیں۔ محبتوں کے چشمے دلوں کی کدورتوں کو دھو ڈالیں اور ہم ان شفاف آئینوں میں سکھ، شانتی اور امن کا اُجلا نور اپنے چہار جانب پھیلتا دیکھیں۔
ہر چند کہ میں نے اس خواہش کو دیوانے کا خواب جانا۔ پر خواب تو خواب ہے، کبھی بھی کہیں بھی نمو پانے لگتا ہے۔ خواب دیکھنے پہ پابندی کیسی؟ شکرِ خدا ابھی خوابوں کو پابندِ سلاسل کرنے کا دور نہیں آیا اور جس دن آیا بھی تو خواب جو خود بصیرتوں کے امین اور پروردگار کی بشارتوں کے نقیب ہیں کسی دوسری آنکھ میں منتقل ہو جائیں گے۔ کہ وہ اتنے ارزاں نہیں کہ ہر کس و ناکس کی دسترس میں آ سکیں۔ مجھے ہسپانوی شاعر اور افسانہ نگار بورخیس (1899-1984) کی کہانی ’’دستِ خداوند کی تحریر‘‘ یا د آتی ہے، جس کا اردو ترجمہ اسد محمد خان نے کیا ہے۔ یہ کہانی پتھر سے بنے بلند و بانگ قید خانے میں مقید ایک ایسے قیدی کے گرد گھومتی ہے جو اپنی تا عمر اسیری کے جبر میں گرفتار اپنے انت کا منتظر لیکن پروردگار کو جاننے کا خواہاں بھی ہے۔ وہ ایک قدیم روایت کے مطابق ’’دستِ خداوند کی لکھی تحریر‘‘ کا متلاشی ہے۔
’’یہ خداوند سے متعلق ایک روایت تھی کہ تخلیق کے دن ایک پیش آگہی سے جان کر۔۔ خداوند نے ایک کلمۂ سحر تحریر کر دیا تھا۔۔ یہ کوئی نہیں جانتا کہ کس جگہ اور کن حروف میں یہ کلمہ لکھا گیا ہے، لیکن یقینِ کامل ہے کہ یہ راز ہی رہے گا اور کوئی چنیدہ انسان ہی اسے پڑھے گا۔‘‘
اسی روایت کی بنا پر اُس عمر رسیدہ قیدی نے کائنات کی ہر شے کو اِس طور جان لینے کی سعی کی کہ گویا ہر شے دستِ خداوند کی لکھی تحریر ہے۔
’’اس خیال نے مجھے حوصلہ دیا۔۔ زمین کی حدود میں ایسے کئی قدیم و کہنہ اجسام اپنا وجود رکھتے ہیں جن میں کوئی بگاڑ پیدا نہیں ہو سکتا۔۔ ممکن ہے انہی میں سے کوئی جسم وہ علامت ہو جسے میں ڈھونڈ رہا ہوں۔۔ ایک پہاڑی خداوند کا لفظ ہو سکتی ہے، اسی طرح ایک دریا، ایک سلطنت، یا ستاروں کی ترتیب۔۔ لیکن صدیوں کے دورانیے میں پہاڑیاں ہموار ہو جاتی ہیں، دریا اپنی گزرگاہیں بدل لیتے ہیں۔ ستاروں کی ترتیب بدل جاتی ہے۔ سلطنتیں پامال اور تغیر کا شکار ہو جاتی ہیں۔۔‘‘
تب کئی مضطرب راتوں کے بعد خداوند نے اپنا آپ اُس پر خواب میں آشکار کیا۔ آگہی کا یہ کرب اس کی برداشت سے باہر تھا۔ وہ تکلیف و اذیت کے ایک کٹھن مرحلے سے گزرا۔
کسی نے اُس سے کہا، ’’تم جاگ کر کسی حالت میں بیدار نہیں اُٹھے ‘‘ یہ تو ایک پچھلا خواب ہے۔ یہ خواب ایک اور خواب میں چل رہا ہے۔ اس طرح ایک لا متناہیت جاری ہے۔۔ جس مسافت کو تمہیں کاٹنا ہے وہ قطع نہیں ہونے کی اور اس سے قبل کہ تم حقیقت سے بیدار ہو سکو، تم ہلاک ہو جاؤ گے۔‘‘
ہوش میں آنے پر اُس نے قید خانے اور اس کی تنہائی کو دعا دی کہ جس کی تاریکی نے اُسے آگہی کے نور میں لا کھڑا کیا۔ اُس نے جان لیا کہ پروردگار ویسا ہی ہے جیسا اُس کے ماننے والے اُس کے بارے میں گمان کرتے ہیں۔
’’بعضوں نے خداوند کو درخشندگی میں دیکھا ہے، بعضوں نے تلوار میں اور بعضوں نے گلاب کی پنکھڑیوں کے دائروں میں۔‘‘
اُس نے جانا کہ طاقت کا افسوں کیا ہے؟ اُس نے یہ بھی جانا کہ کائنات کے کئی اسرار کو نہ جاننا، جان لینے کی اذیت سے بدرجہا بہتر ہے۔
’’وہ جس نے موجودات کی جھلک دیکھ لی ہو، جسے ممکنات کی شعلہ زن نگارشوں کا ایک جلوہ نظر آگیا ہو، وہ ایک آدمی کے بارے میں اور اُس کی ادنیٰ مسرتوں، اُس کی بدنصیبیوں کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا، خواہ یہ آدمی وہ خود ہی کیوں نہ ہو۔۔ اس لیے میں وہ افسوں نہیں پڑھتا۔۔ میں اندھیرے میں پڑا ہوا دنوں کو اجازت دیتا ہوں کہ مجھے فراموش کر دیں‘ فنا کر دیں۔۔‘‘
کہانی کا یہ اختتام قاری کے لیے خاصا دلچسپ ہے۔ تنہائی، تاریکی اور جبر کی عمر قید کاٹنے والا بوڑھا شخص جس کی آگہی کا واحد رستہ اُس کے خواب ٹھہرے۔ تاریک آنکھوں میں پیدا ہونے والے روشن خواب۔ وہ خواب جو انسان پر اُس کی تقدیر عیاں کرتے ہیں۔ وہ خواب جو جینے کی ایک نئی ترنگ دیتے ہیں۔ وہ خواب جو اپنے ناظر کو ہمہ وقت مضطرب رکھتے ہیں کہ جن آنکھوں میں یہ ایک بار بیدار ہو جائیں تو اپنی تشنہ کرچیوں سے اسے وہ زخم دیتے ہیں کہ ن م راشد جیسا شاعر خود اندھے کباڑی کی صورت گلی گلی یہ صدا لگانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔۔
’’خواب لے لو۔۔ خواب لے لو۔۔‘‘
پریشان مت ہوئیے۔۔ ہم جیسے معززین اور صالحین کا یہ خواب کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ہم جو ریاستی اصولوں میں آزادئ رائے کے اظہار کی طویل تقاریر میں عوام کو مستقبل کے سہانے اور من چاہے خواب دکھا کر ان کی من مانی تعبیریں خود وصولتے ہیں، بے شک اُن افضل و دانا لوگوں میں سے ہیں جو حصولِ عدل کے لیے فسادِ خلق کے ڈر سے اول تو اپنے ہم نفسوں کو خواب دیکھنے کی اجازت نہیں دیتے، دوم اگر کوئی یہ جسارت کر بھی بیٹھے تو طاقت کے بل پر اُس کے خوابوں کے محلوں کو آسمان سے زمین پر لانے اور پاش پاش کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے اور اگر پھر بھی ان خوابوں کو مسمار نہ کر پائیں تو ایسی سرکش آنکھوں کو نوچ ڈالنے میں پھر دیر کیسی؟ یہ ہماری ہی اعلیٰ ظرفی ہے کہ ہم طیبہ جیسی معصوم بچیوں کو ان خوابوں کے شر سے محفوظ رکھنے کے لیے پہلے ان کی ننھی منی آنکھوں پر اپنی بربریت اور سفاکیت سے اذیت و کرب کا نیلگوں غلاف پہناتے ہیں اور پھر خوف کے انگنت سائے ان آنکھوں میں تا عمر منجمد کر کے زبان پہ دہشت کی کئی میخیں گاڑ دیتے ہیں۔ یہی نہیں ہمارے سب سے سنگین مجرم تو وہ ٹھہرے جو خواب دیکھتے ہی نہیں دکھانے کے جرم کا بھی ارتکاب کرتے ہیں۔اب اگر اُن کے خواب ہماری دسترس سے کوسوں دور ہوجائیں تو ہم اُنہیں نئے سال کی سرخیوں اور تصاویر میں لا پتہ قرار دے کر منظر سے کہیں دور چھوڑ آتے ہیں۔
اگرچہ ہم اپنی فہم و فراست پہ نازاں، من چاہی ریاست کی تشکیل پہ رقصاں ہیں لیکن اس بات سے قطعاً نا آشنا ہیں کہ خواب تو دستِ خداوند کی لکھی وہ تحریر ہیں جو لا پتہ ہوں تو کئی آنکھوں میں جھلملا اُٹھتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments