پی ٹی آئی اور احساس کمتری و برتری کی نفسیات


ملالہ کے انٹرویو سے عمران کے انٹرویو تک درمیان میں ملاؤں کے کرتوت تک، روز کی بنیاد پہ منظر نامہ نفسیاتی مرض میں بدل رہا ہے۔ اس میں بھی عورت کا قصور ہو گا۔ اچھا یعنی آپ سب مل کر خواہاں ہیں کہ پچاس فی صد آبادی بے قصور ہو۔ باقی پچاس فی صد کو حق ہے کہ وہ چاہے تو قصور سے آ گے جا کر کسی کے گھر والی بھی اپنے پہ حلال کر سکتا ہے۔

نہیں صاحب ایسا نہیں ہو تا۔ آئیں کرتے ہیں بات، اس لاوے پہ، جو بہہ رہا ہے۔ جس کا پہاڑ نشے کی حالت میں پھٹا ہے۔ اصل میں منہ پرانا ہو کر پھٹ ہی جاتا ہے اور اس میں سے کچھ بھی نکل آ تا ہے۔ دماغ ہے کہ طول عمری اور  چند مرکبات کے باعث کام ہی نہیں کرتا۔

تو پہلی بات اڈے نہ دینے کی ہوئی۔ جو دوسری بات میں دب اس لئے گئی کہ پہلے سے حبس بہت زیادہ ہے، بجلی کا فقدان ہے۔ اور یہ شخص انسان سے اس کا انسانی حق چھین رہا ہے۔ جس سے ملک نہیں چل رہا وہ عورت کے کپڑوں کی باتیں ہی کرے گا۔ ظاہر ہے جس کی جتنی ذہنی وسعت ہو گی۔ وہ اتنی ہی بات کرے گا۔ اب لکھی ہوئی پرچیاں تو پڑھتا نہیں۔ جو بولتا ہے خود بولتا ہے۔ چاہے اس سے ملک کا کوئی بھی امیج بنے۔

تو جناب آپ سے پو چھے گا کون کہ اڈے لینے اور دینے ہیں۔ اول تو یہ نوبت آئے گی نہیں۔ اب جنگ ان ایٹموں سے نہیں لڑی جانی جو ہمارے سمیت چند ممالک کے پاس ہیں۔ نہ ہی یہ جنگی آلات کام آئیں گے۔ جس پہ ہم اپنا بجٹ کا سب سے زیادہ حصہ لگاتے ہیں۔ یہ ایک کاروبار تھا۔ کرنے والوں نے اس سے کمائی کر لی ہے۔ ان کا مقصد پورا ہو چکا ہے۔ وہ وقت دور نہیں۔ جب یہ خریدا ہوا مال ہمارے عجائب گھروں میں ہو گا۔ اور بچے ٹکٹ دے کر دیکھنے جایا کریں گے۔

اب آپ کو گلوبل ولیج کا خطاب دے کر، جدید ٹیکنالوجی سمیت، محبتوں اور نفرتوں کے ایک نئے سمندر میں ڈالا جا چکا ہے۔ ملک کا بچہ بچہ مقروض ہے۔ اور مقروض کیا ہی اس لئے جاتا ہے کہ آپ کی بولتی بند رہے۔ جونہی آپ پر پرزے نکالنے لگتے ہیں۔ آپ کو آپ کی اوقات یاد دلائی جاتی ہے۔ اب آپ کے پاس اتنی رقم تو ہے نہیں کہ آپ قرضہ اتاریں گے۔ تو جناب آپ کو اپنی کھال سے ہی کام چلانا پڑے گا۔ بادشاہت کا شوق آپ کا اسی عوض پورا ہو گا۔ یہ آپ کو بھی خبر ہے اور ہمیں بھی۔

ویسے بھی کتنے احمق ہیں وہ لوگ جو اس شخص کی باتوں پہ یقین کر رہے ہیں جس کے قول و فعل میں تضاد ہے۔ بلکہ جس کا صرف قول ہو تا ہے۔ فعل سرے سے ہے ہی نہیں۔ فعل ماضی میں ہی فیل ہو گیا تھا۔ آج کل ریٹائرمنٹ کی عمر گزار رہا ہے۔

باتوں اور طلاقوں کا کیا ہے۔ یہ سب تو جناب آپ کنٹینر پہ ناچتے ناچتے کرتے رہے۔ اور آپ کی جتنی سانسیں لکھی ہیں۔ اور جب تک زبان تالو کے ساتھ نہیں لگتی آپ کرتے رہیں گے۔

اب اس کو کہا جائے گا ”بغض عمران”، تو بات کچھ یوں ہے میری جان۔ ہم نے دی ہے ڈیم کی رقم، ٹیکس کی رقم تم پہ کی ہے قربان۔ تو چلا بھی سکتے ہیں تھوڑی سی زبان۔

اب آ جائیں کپڑوں پہ تو ارے بڈھے ویلے دے مولبی۔ بس کر دے۔

جناب آپ نے جو ساری جوانی ننگے پنگے گزاری ہے۔ اس کا خمیازہ ہم پہ کیوں ڈال رہے ہیں۔ اس مقدس ملک میں آپ کو کہاں کم کپڑوں والی عورت دکھائی دیتی ہے۔ مختصر کپڑوں کی دکانیں کہاں اور کتنی تعداد میں موجود ہیں۔ انڈر گارمنٹس کا شعبہ الگ ہے اور ہر جگہ وہ بھی نہیں ہے۔ ابھی تک دیہات میں بیشتر خواتین و حضرات اس عذاب سے محفوظ ہیں۔ کیونکہ ایک تو سچی کھڑی بات ہے کہ وہاں تک بہت سی شہری سہولیات میسر نہیں ہیں۔ حکومتیں ان کو یہ سہولیات دینا بھی نہیں چاہتی۔ تا کہ خواب دے کر ان کا ووٹ بینک چلتا رہے۔ دوم ان سے فصلیں کم ریٹ پہ خریدی جا سکیں اور موٹا منافع کمایا جا سکے۔

شہروں میں بھی ایسی مارکیٹیں موجود نہیں ہیں جہاں خالص چھوٹا لباس فروخت ہو۔ ساحل رومان پیش کریں۔ اپنا تو کراچی کا ساحل بھی اتنا مہک والا ہے رو مان الٹے پاؤں بھاگ جاتا ہے۔

اب اگر خان صاحب آپ نے بڈھے ویلے سر پہ ٹوپی لے لی ہے تو ان بچوں کا قصور ہے جن کے سر پہ آپ دولے شاہ کا ٹوپ رکھنا چاہتے ہیں۔ آپ کی ترقی کافی الٹی سمت جا رہی ہے۔ وہ بڑوں سے سنا تھا۔ کچھ بوڑھے مرد اور خواتین نوجوان لڑکے اور لڑکیوں سے حسد کرتے ہیں۔ جو عیاشی انہوں نے خود کی ہوتی ہے دوسروں کو کرتا نہیں دیکھ سکتے۔ آپ بھی کچھ قبیلہ حاسدین سے تعلق رکھتے ہیں۔ ورنہ یہ کم لباس لڑکیاں تو یہ بے چارے نیٹ پہ، رب جانے کون کون سے کوڈ لگا کر دیکھتے ہیں۔ بازار میں نہیں ملتیں۔ یہاں سے ان کے منہ پہ دانے نکل آتے ہیں۔

خان صاحب تاریخ تو آپ رقم کر ہی رہے ہیں اب سیاہ ہے یا نیلی، پیلی۔ اس کو چھوڑ کر تاریخ تو آپ نے شاید پڑھی بھی ہو اور یاد بھی ہو تو برصغیر کے کلچر میں ساڑھی عام طور پہ چھوٹے بلاؤز کے ساتھ پہنی جاتی تھی۔ ہمسایہ ملک میں اب بھی ایسا ہی ہے۔ گھاگرے کے ساتھ چھوٹی چولی اور بڑا دوپٹہ عام تھا، مسلم گھرانوں میں بھی یہ لباس پہنے جاتے تھے۔ تب تو یہ سب کبھی نہیں ہوا۔ نہ ہی کسی نے اعتراض کیا۔ نہ ریپ اتنے ہوئے۔

بہت احترام کے ساتھ، آپ کی تو اپنی بیٹی اور سابقہ بیگم ایسے کپڑے پہنتی ہے۔ جس میں سے سیدھی ہوا ایک بازو سے داخل ہو کر دوسرے سے باہر نکل جائے۔ میرے ملک کی عورت ٹوپی والا برقع، جس میں منہ پہ ایک کھڑکی بنی ہوتی ہے۔ پہن کر پچاس ڈگری میں سفر کرتی ہے۔ عام لباس شلوار قمیض دوپٹہ ہے۔ عبایہ اب فیشن ہے یا دو نمبری کا آسان حل۔

مسئلہ بس سوچ کا ہے۔ کہ ہم اندھے گونگے بہرے تقلیدی منافق نہیں بن سکتے۔ جیسے آپ کے دولے شاہی چوہے ہیں۔ ہم نے ٹوپ نہیں پہن رکھے۔ ہمیں اگلی نسلوں سے اتنی ہی محبت ہے۔ جتنی خود سے یا آج کی نسلوں سے۔ تو محبت کر نا سیکھئے۔ سوچیں بدل جائیں گی۔ آپ نے نہ تو ان نسلوں کے لئے کوئی یونیورسٹی بنائی نا ہی میدان۔ جن سے آپ نے رنگین جوانی کا خواب دے کر ووٹ لیا۔

خان صاحب ایک فلم ہے An Interview with vampire اس میں لڑکی ذہنی طور پہ کسی خاص وقت میں ٹھہر جاتی ہے۔ اس کی عمر تو بڑھ رہی ہوتی ہے۔ مگر ذہنی بلوغت نہیں ہو پاتی۔ ایسا ہی کچھ آپ کے ساتھ ہو گیا ہے۔ جب آپ آتش جوان تھے۔ ننگے پنگے ہوتے تھے۔ اور آپ کے ہر طرف یہ ننگی پنگی لڑکیاں لہلہاتی تھیں۔ آپ کی آنکھوں کا نور اور دماغ کا فتور وہیں ٹھہر کیا ہے۔ اس لئے آپ کو یہاں مختصر لباس عورتیں دکھائی دیتی ہیں۔ بے چارے بہت سے باؤلے ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں یا ر اس گلی، اس محلے کا پتا تو بتا جہاں یہ کمینہ صفت عورتیں ہوتیں ہیں۔ ہم جا کے اپنے ہاتھوں سے انہیں عبایہ پہنا کے آتے ہیں۔ آپ کے ایک دو جملوں نے کہانی کا تجسس دیکھیں کتنا بڑھا دیا ہے۔

ویسے بھی مرد کی دلچسپی عورت میں اب کہاں رہی۔ اب تو لونڈوں کا دور ہے۔ آج کل ان کی رونمائی جس تواتر سے جاری ہے۔ اگر ہم یہ ویڈیو اکٹھی کر کے کسی غیر ملکی ادارے سے ٹھیکا لے لیں تو پورن انڈسٹری کو خاطر خواہ مالی نقصان پہنچاتے ہوئے۔ ملک کو ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

اور خان صاحب اللہ جھوٹ نہ بلائے تو یہ قبرستانوں میں کیمرے اور بتیاں لگوا دیں۔ بھلے ڈیم نہ بنوائیں۔ ایسی ایسی ویڈیوز منظر عام پہ آئیں گی کہ دنیا پرانی ایجادات بھول جائے گی۔ اس طرح ملک کا نام بھی لائٹوں کے ساتھ ہی روشن ہو جائے گا۔ اور قبرستانوں کے مکینوں کے لئے کی گئی دعائیں بھی قبول ہو جائیں گی۔ ثواب الگ۔

اب آتے ہیں اصل بات پہ جب آپ نے پہلی بار دھرنے کا پلان کیا۔ اور دوسروں کی عورتوں کو گھر سے نکلوا کے نچایا۔ اپنا بھی دل بہلایا دوسروں کا بھی۔ تب کپڑوں کی اہمیت کا علم آپ کی عقل سلیم کو کیوں نہ ہوا۔ شہزادہ سلیم آپ سے بہت معذرت کے ساتھ کہ آپ کا نام کہاں استعمال کر دیا۔ مگر آپ ہماری مجبوری سمجھ سکتے ہیں۔

جی دھرنے کے دنوں کی بات ہے۔ جب ہم نے مشاہدہ کر نا شروع کیا کہ پی ٹی آئی جماعت نہیں احساس برتری و کمری کی نفسیات ہے۔ جو پی ٹی آئی کی طرف داری کر کے خود کو پڑھا لکھا اور ماڈرن ظاہر کرنا چاہتے۔ پاکستان کے زیادہ تر انگوٹھا چھاپ اور زیادہ تر پڑھے لکھے لوگ آپ کے ساتھ تھے۔ انگوٹھا چھاپ کو تو جب روٹی نہیں ملی سمجھ آ گئی۔ مگر جن کی موٹی تنخواہیں یا کاروبار ہیں۔ وہ ابھی تک آپ کی جبری ایک مرغے کے ساتھ پانچ مرغیوں کے معیشت کو پروان چڑھانے والی حماقت کے رسیا ہے۔

ایسا ہی ہو تا تو میرے ملک کا ایک بڑا طبقہ ازل سے مرغی یافتہ ہے۔ او ر آپ سے دانا بھی کہ انہوں نے اپنی مرغیوں اور مرغوں کو جبرا ساتھ رہنے پہ مجبور نہیں کیا۔ یہ آ زاد لوگ ہیں اپنے جانور کو بھی آزادی دیتے ہیں تا کہ نسل صحت مند پیدا ہو۔ آپ انسانوں اور جانوروں دونوں کی نسلوں کا بیڑا غرق کرنے پہ تلے ہوئے ہیں۔

ایسا تعلیمی احساس برتری و کمتری مشرف کے دور میں بھی دیکھا گیا۔ ایک وہ بیرون ملک پاکستانی ہیں۔ جن کو یہاں سے گئے اتنا عرصہ ہو گیا ہے جتنا آ خری بڑے ڈیم کو بنے ہوا ہے۔ وہ بھی سمجھتے ہم تو خان صاحب سے وہاں ملے تھے وہ ایسا نہیں ہے۔ اس کو لوگ اچھے نہیں ملے۔ تو سن تو یہی رکھا ہے انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔ ہماری بس ان غیر ملکیوں سے مودبانہ گزارش ہے۔ تارکین وطن مت بنیں۔ آئیں اپنے ملک میں رہیں، یہاں کے مصائب برداشت کریں اور پھر سپورٹ کریں۔ ورنہ پلیز ہمارے دکھوں کو تب سمجھیں گے۔ جب انقلاب کے ہاتھوں ان ملکوں کی گردن کسی پنجرے کی نوک پہ ہو گی۔ ابھی باتیں کرنا آ سان ہے۔ ابھی آپ کے بچے محفوظ ہیں۔ ابھی وہاں کی عدالت آپ کو حق دیتی ہے۔

تو بات تھی نفسیاتی مرض کی جو مسٹر خان آپ کے سپورٹرز کو لاحق ہے۔ کیونکہ ان کو یہ مرض اپنے لیڈر سے موروثی ملا ہے۔ ویسے آپ کی معلومات میں اضافہ کرتی چلوں۔ روبوٹ کے جذبات نہیں ہوتے۔ مگر جس کام شام کی آپ بات کر رہے ہیں۔ وہ بھی یہ کر سکتا ہے۔ کیا خیال ہے جاپان سے ٹھیکے پہ بنوا نا لیں۔ کم از کم یہ ریپ کرنے کے بعد بچوں کو ماریں گے تو نہیں۔ نہ ہی مختصر لباسی کا گلہ ہو گا۔

اس وقت آپ کے اس کلام بد پہ وہی خاموش ہیں جو اس گنگا کے نہائے ہوئے ہیں۔ باقی سب جبرائے ہوئے ہیں یا شرمائے ہوئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments