صبور علی: ’سجل سے شکل و صورت کا موازنہ تو ٹھیک ہے مگر جب کام کا مقابلہ کیا جاتا ہے تو بہت عجیب لگتا ہے‘


صبور علی

’لوگ بعض اوقات موازنہ کرتے کرتے اسے مقابلے میں بدل دیتے ہیں۔ موازنہ بُرا نہیں، یہ تو دنیا بھر میں ہوتا ہے۔ مگر جب لوگ اس طرح کے کمنٹ کرتے ہیں کہ ’یہ زیادہ پیاری ہے یا وہ، اِس کا کام ایسا ہے تو اُس کا کام ویسا‘ تو میں کہتی ہوں کہ میری الگ شناخت ہے اور سجل کی الگ شناخت۔‘

یہ کہنا ہے صبور علی کا جنھوں نے گذشتہ چند برسوں کے دوران اپنے ورسٹائل کرداروں سے پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری میں اپنے فن کا لوہا منوایا ہے۔صبور ڈراموں میں منفی کردار نبھانے سے زیادہ مقبول ہوئی ہیں۔

صبور علی کی بہن سجل علی بھی پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کی معروف اداکارہ ہیں اور سوشل میڈیا پر صارفین عموماً دونوں بہنوں کی اداکاری اور شکل و صورت کا موازنہ کرتے پائے جاتے ہیں۔

بی بی سی کے لیے صحافی براق شبیر سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’شکل و صورت ملانے کی حد تک تو ظاہر ہے بہنوں کا ہی آپس میں موازنہ ہوتا ہے، تاہم جب کام کے حوالے سے کیا جاتا ہے تو بہت عجیب لگتا ہے۔‘

’اگرچہ لوگ موازنہ کرتے ہیں مگر پھر وہ اسے ایک مقابلہ بنا دیتے ہیں۔۔۔ میری الگ محنت ہے، سجل کی الگ۔ اور میرے خیال میں ہم دونوں کے اداکاری کے انداز بھی مختلف ہیں۔‘

صبور بتاتی ہیں کہ وہ اور سجل کام کے حوالے سے آپس میں اتنی ہی بات کرتی ہیں کہ ’وہ آج کل کیا کام کر رہی ہیں اور کہاں جا رہی ہیں اور میں کیا کر رہی ہوں۔۔۔ تاہم ایک دوسرے کی پیشہ ورانہ زندگی کے بارے میں زیادہ مشاورت نہیں ہوتی۔‘

صبور علی کا مزید کہنا تھا کہ ’شاید اسی لیے میں نے اتنی جگہ بنا لی، اگر میرے اور اس کے کام میں زیادہ مماثلت ہوتی تو ایسا نہیں ہو پاتا۔‘

صبور کہتی ہیں کہ وہ اور سجل اتفاقاً شوبز انڈسٹری میں آئے مگر فرق صرف یہ تھا کہ سجل نے اِس کام کو بخوشی اپنایا لیکن وہ تھوڑے نخرے کر کے اس فیلڈ میں آئیں۔

’مجھے یہ کہتے ہوئے تھوڑا عجیب لگتا ہے کیونکہ بہت سارے لوگ یہاں تک پہنچنے کے لیے بہت محنت کرتے ہیں اور اگر میں یہ کہوں کہ میں ایسا نہیں چاہتی تھی مگر مجھے یہ سب مل گیا تو تھوڑا عجیب لگتا ہے۔‘

صبور انجینیئر بننا چاہتی تھیں مگر اُن کے مطابق کچھ معاملات ویسے ہو نہ سکے جیسا وہ چاہ رہی تھیں۔

صبور علی کا کہنا ہے کہ شوبز میں آنے کی اُن کی حوصلہ افزائی اُن کی والدہ نے کی۔

’وہ اکثر کہا کرتی تھی کہ دیکھو سجل کتنی ترقی کر رہی ہے، میں چاہتی ہوں کہ تم بھی اسی طرح سے ترقی کرو۔ وہ نہ سپورٹ کرتیں تو میں یہاں تک کبھی نہ پہنچتی۔ تاہم میں آگے بڑھنے کے لیے محنت کر رہی ہوں۔‘

اداکار علی انصاری سے منگنی میں اُن کی بہن مریم انصاری اور سجل نے کیا کردار ادا کیا؟

صبور علی کی حال ہی میں ساتھی اداکار علی انصاری کے ساتھ منگنی ہوئی ہے۔ صبور بتاتی ہیں کہ علی انصاری کی بہن مریم اُن کی اچھی سہیلی ہیں اور وہ اکثر اُن (صبور) سے کہتی تھیں کہ ’میرے بھائی کے لیے کوئی لڑکی دکھاؤ، اور میں نے انھیں کئی لڑکیاں بتائیں بھی۔‘

’میں نے علی کو کافی لڑکیوں کے بارے میں بتایا کہ دیکھو یہ لڑکی اچھی ہے، میں گارنٹی دیتی ہوں۔‘

اُنھوں نے کہا کہ مریم انھیں کئی بار کہہ چکی تھیں کہ تم میرے بھائی سے کیوں نہیں شادی کر لیتیں، وہ بہت نیک ہے، بہت اچھا ہے، تاہم انھوں نے کبھی سنجیدگی سے اس بارے میں نہیں سوچا۔

اور پھر سجل علی اور علی انصاری کی بہن مریم کے درمیان اس پر بات ہوئی اور انھوں نے اس حوالے سے ان دونوں (صبور اور علی) کو سنجیدگی سے سوچنے کو کہا۔

جس کے بعد صبور علی کے بقول ’میں نے یہ کہہ دیا کہ اگر کرنا ہے تو میں فوراً کروں گی، غور و فکر یا زیادہ لمبی بات چیت نہیں کروں گی۔‘

اُن کا ہنستے ہوئے کہنا تھا کہ ’مجھے لگا ایسا کہوں گی تو نہیں ہو گا۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ انھوں نے تو اُس روز بھی علی سے کہا تھا کہ ’سوچ لو کرنا ہے یا نہیں‘ جس روز وہ رشتہ لے کر آئے تھے۔

ایک وقت تھا جب پاکستان میں اداکارائیں اگر شادی کر لیتیں تو اُن کا کریئرختم سمجھا جاتا تھا لیکن دور حاضر میں نوجوان اداکارائیں شادی بھی کر رہی ہیں اور اپنا کیریئر بھی آگے بڑھا رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

رمشا خان: ’سامعہ کا کردار عورتوں کے دل کی آواز ہے‘

’مجھے محض جگانے اور چائے پلانے والی ماں نہیں بننا تھا‘

رقصِ بسمل کی اداکارہ سارہ خان ’ہمیشہ‘ مردوں کو برا دکھانے پر نالاں کیوں؟

اس حوالے سے صبور علی کا کہنا تھا ’مجھے نہیں لگتا کہ شادی کے لیے کوئی مخصوص وقت یا عمر ہوتی ہے۔ جب اچھا انسان مل جائے آئے تو وہی وقت ہوتا ہے شادی کرنے کا۔ میں بھی جلد ہی شادی کروں گی۔‘

اگر ایک منفی کردار ہٹ ہو جائے تو ویسے ہی کردار ملنے لگ جاتے ہیں

صبور کہتی ہیں کہ ہمارے ہاں اگر کسی اداکار یا اداکارہ کا ایک منفی کردار ایک بار ہٹ ہو جائے تو اسے مسلسل منفی کردار ملتے رہتے ہیں، یہ رویہ تبدیل ہونا چاہیے۔

’اسی لیے میں نے ’فطرت‘ ڈرامے کے بعد ’مجھے وداع کر‘ کِیا تاکہ لوگوں کو دونوں طرح کے کردار نظر آئیں۔‘

صبور علی کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی ایسے ڈرامے کرنا پسند کرتی ہیں جن میں ہدایت کار زیادہ سے زیادہ اپنا حصہ ڈالیں چاہے، کردار چاہے مثبت ہو یا منفی۔

اس کی وضاحت کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ایسا ہوتا ہے کہ ’اگر آپ یہ ثابت کر دیں کہ آپ ایک اچھے اداکار ہیں تو ہدایتکار بھی یہ سوچتے ہوئے پُرسکون ہو جاتے ہیں کہ تم تو یہ کر لو گی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’مجھے ایسا لگتا ہے کہ آپ جتنے بھی بڑے اداکار بن جائیں آپ کو ہدایتکار کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔ کیونکہ میں نے تو منفی کردار میں بھی اتنی ہی محنت کرنی ہے جتنی مثبت میں کرنی ہے۔‘

لوگ ہمیں بُرا بھلا بھی کہتے ہیں اور انھی کرداروں کو پسند بھی کرتے ہیں

منفی کرداروں کے زیادہ مقبول ہونے پر صبور علی کا کہنا تھا کہ ’یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ لوگ ہمیں برا بھلا بھی کہتے ہیں اور ان کرداروں کو پسند بھی کرتے ہیں۔‘

’شاید لوگ ان کرداروں کے ذریعے اپنے اندر موجود اُن چیزوں کو جوڑتے ہیں جنھیں وہ خود سامنے نہیں لا سکتے، اور ہم شاید اُن کے اِسی مخفی کردار کو پیش کر رہے ہوتے ہیں۔‘

کرداروں کے انتخاب کے حوالے سے صبور علی کا کہنا ہے کہ ’ہم سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ سکرپٹ کتنا مضبوط ہے۔ عموماً جتنے بھی سکرپٹ آفر ہوتے ہیں وہ لگ بھگ ایک ہی جیسے ہوتے ہیں اور جب یہ پتہ چلتا ہے کے سیٹ پر جا کر وہی کام کرنا ہے جو چار بار پہلے ہی کر چکے ہیں، تو بہت افسوس ہوتا ہے۔‘

مزید پڑھیے

جب ویوین رچرڈز کو دیکھ کر انڈین اداکارہ نینا گپتا کا دل دھڑکا

‘سارہ غصہ مت کرو، ورنہ سارا انڈیا اور پاکستان اداس ہو جائے گا’

ہیر رانجھا: ’فردوس بیگم کو اصل ہیر بھی دیکھتی تو حیرت زدہ رہ جاتی‘

تاہم وہ کہتی ہیں کہ انھیں شکایت نہیں ہے کیونکہ اسی کام نے انھیں بہت کچھ دیا ہے۔ لیکن اُنھوں نے زور دیا کہ ’سکرپٹ اچھا ہونا بہت اہم بات ہے۔‘

ڈراموں میں یکسانیت کو تبدیل کرنے کے حوالے سے صبور علی کا کہنا تھا کہ ’ڈرامہ کو بدلنے سے پہلے دیکھنے والوں کا نظریہ بدلنے کی ضرورت ہے۔‘

’کیونکہ وہ جب تک اسے قبول نہیں کریں گے ہم نئی چیز بنا ہی نہیں سکیں گے، کیونکہ یہ ایک طرح کا کاروبار ہی ہے۔ ورنہ ہمارا تو دل کرتا ہی ہے نئی چیز بنانے کا۔ ‘

انھوں نے حال ہی میں ریلیز ہونے والے ایک دوسرے ڈرامے ’رقیب سے‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ بہت اچھا لکھا ہوا تھا اور اس میں سب نے بہت اچھی اداکاری کی، اس کی ہدایتکاری بھی بہت اچھی تھی، لیکن مجھے نہیں لگتا کہ اس کا رد عمل اتنا اچھا آیا جس طرح سے آنا چاہیے تھا۔‘

صبور علی کا کہنا تھا ’دل چاہتا ہے کہ ہم مختلف اور اچھے سے اچھا کام کریں لیکن ناظرین کا اسے قبول کرنا بھی بہت ضروری ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp