شاہراہ قراقرم: شاہراہ ریشم کی جدید شکل نے گلگت بلتستان کے لوگوں کی زندگیاں کیسے بدلیں؟

محمد زبیر خان - صحافی


چاروں جانب برفیلی چوٹیاں، ایک طرف بل کھاتا دریا اور اوپر تاحدِ نگاہ نیلا آسمان۔ یہ وہ ماحول ہے جس میں طارق علی اور اُن کی ساتھی آپ کے سامنے گرما گرم کھانا لا کر پیش کرتے ہیں۔

کڑاہی سے لے کر برگر، پیزا اور سٹیک تک، طارق کے ریستوران میں ہر طرح کا پکوان ملتا ہے۔

یہ ریستوران سمندر سے تقریباً 15 ہزار فٹ کی بلندی پر دنیا کی سب سے قدیم شاہراہوں میں سے ایک کے کنارے واقع ہے اور اس کی وجہ شہرت وہ گوشت ہے جس سے یہاں تمام کھانے تیار کیے جاتے ہیں۔

یہ ہے یاک گرل، شاہراہ قراقرم کے کنارے پاسو کے مقام پر واقع وہ انوکھا ریستوران جہاں بیف یا مٹن نہیں بلکہ مقامی جانور یاک کا گوشت پکایا جاتا ہے۔

اگرچہ یہ جانور گلگت بلتستان کے پہاڑی علاقوں میں پایا جاتا ہے لیکن اس کا گوشت وہاں بھی اتنا عام نہیں جتنا آپ سمجھ رہے ہوں گے۔

طارق بتاتے ہیں کہ یہاں کی ہر ڈش مقامی اجزا اور علاقے کے مخصوص طریقہ کار سے بنائی جاتی ہیں۔

’اس کام میں ہم تین بھائی ہیں۔ ایک بھائی دو سال پہلے دبئی میں بطور شیف کام کرتے تھے۔ مگر 2015 میں کچھ ایسا ہوا کہ یہاں سیاحوں کی آمد کا سلسلہ بڑھ گیا اور ہمیں نظر آنے لگا کہ یہاں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہو چکے ہیں۔‘

طارق کے مطابق ان کے بھائی جو باہر مزدوری کر رہے تھے وہ بھی اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے پاکستان واپس آ گئے اور وہ یہ سب بھائی مل کر اپنا کام ریستوران چلا رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ مقامی لوگوں کے لیے بھی روزگار کے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔

https://www.instagram.com/p/CNVZmbBHl6u/

تو سنہ 2015 میں ایسا کیا ہوا تھا کہ اس خاندان کا مقدر بدل گیا؟ ذرا ذہن پر زور ڈالیں تو جواب آپ کے سامنے ہو گا۔۔۔


سنہ 2010 میں عطا آباد گاؤں سے گزرنے والے دریائے ہنزہ میں مٹی کا تودہ گرنے کے باعث دریا میں پانی کا بہاؤ رُک گیا اور ایک جھیل معرضِ وجود میں آئی۔

مقامی افراد بتاتے ہیں کہ وہ سنہ 2002 سے ہی استور میں آنے والے زلزلے کے بعد سے عطا آباد کی پہاڑی میں شگاف کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کرتے رہے تھے اور بلآخر 2010 میں پہاڑ کا ایک حصہ ٹوٹ کر سیدھا دریائے ہنزہ میں جا گرا۔

اس واقعے میں نہ صرف 19 افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوئے بلکہ پاکستان اور چین کو ملانے والی بین الاقوامی شاہراہ قراقرم کا 24 کلومیڑ طویل حصہ بھی زیر آب آ گیا۔

اس علاقے سے سڑک گزارنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ جب جون 1978 میں اس سڑک کا افتتاح ہوا تھا تو اس کی تعمیر میں حصہ لینے والے سینکڑوں پاکستانی اور چینی مزدور اور انجینیئر لینڈ سلائیڈنگ اور دیگر حادثات میں ہلاک ہوئے تھے۔

ایک عرصے تک شاہراہ قراقرم دنیا کی سب سے اونچی ہائی وے مانی جاتی رہی اور اسے کچھ سیاحوں نے ’دنیا کے آٹھویں عجوبے‘ کا لقب بھی دیا۔

عطا آباد

مگر 2010 میں عطا آباد واقعے کے بعد ایک وقت ایسا آیا جب علاقے کے لوگوں کو اپنے مستقبل کے حوالے سے شدید فکر لاحق ہو گئی۔

لیکن پھر اس علاقے کے دن پھر گئے۔

قومی شاہراہ 35 کو چین، پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کا حصہ قرار دیا گیا اور چین کی مدد سے یہاں پانچ نئی سرنگیں کھودی گئیں جنھوں نے شاہراہ قراقرم پر سفر کو اور بھی آسان بنا دیا۔

ان منصوبوں پر کام 2011 کے آخر میں شروع ہوا اور 2015 میں نئی سڑک کا افتتاح سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کیا۔


کہا جاتا ہے کہ شاہراہ قراقرم قدیم شاہراہ ریشم کے راستے پر بنائی گئی ہے یعنی وہی دشوار گزار پہاڑی راستہ جہاں سے پرانے وقتوں میں وسطی ایشیا اور چین آنے جانے والے قافلے گزرتے تھے۔

شمال میں خنجراب پاس سے جنوب میں صوبہ پنجاب کے شہر حسن ابدال تک آنے والی یہ سڑک تقریباً 1300 کلومیٹر طویل ہے۔

مقامی صحافی زبیر ایوب کے مطابق شمالی علاقہ جات میں شاہراہ قراقرم کی تعمیر سے پہلے بھی یہی شاہراہ خطے میں چین کے ساتھ سیاسی، سماجی، کاروباری اور دیگر رابطوں کا بڑا ذریعہ ہوا کرتی تھی۔

’تب بھی چین ان راستوں کو کاروباری مقاصد اور رابطوں کے لیے استعمال کرتا تھا اور اب بھی نئی ہزارہ ایکسپریس وے اور شاہراہ قراقرم کو وہ اپنے فائدے کے لیے استعمال کرے گا۔‘

لیکن اس کی کاروباری اہمیت صرف چین اور پاکستان کے مابین ہونے والی تجارت تک محدود نہیں بلکہ شاہراہ قراقرم کی تعمیر نو کا سب سے زیادہ فائدہ یہاں کے مقامی رہائشیوں کو ہوا ہے۔

شمیم بانو گوجال کے علاقے گلمیت میں قالین بانی کا ادارہ ’کورگاہ‘ چلاتی ہیں۔ انھوں نے 1998 میں یہ کام شروع کیا تھا اور ان کے مطابق 2010 تک لگاتار کام کرنے کے باوجود ان کے ہر ماہ زیادہ سے زیادہ دو یا تین قالین ہی فروخت ہو پاتے تھے۔

’عطا آباد جھیل کی وجہ سے روڈ تباہ ہوئی تو حالات ایسے تھے کہ کبھی کبھار کوئی ایک قالین بک جائے تو غنیمت ہوتی مگر 2015 کے بعد جب شاہراہ قراقرم کی توسیع و بحالی کا کام مکمل ہوا تو ہمارا کاروبار دگنا ہو گیا۔‘

یہ بھی پڑھیے

پاکستان میں ’پہاڑی خداؤں کے تخت‘ تک پہنچنا آسان نہیں

وادئ کُمراٹ: ’یہاں تو پانی کا شور بھی سکون دیتا ہے‘

جب سمندر، پہاڑ اور صحرا ایک جگہ ہوں!

شمیم بانو بتاتی ہیں کہ انھوں نے اپنے آبائی علاقے میں ایک جگہ کرائے پر حاصل کر رکھی ہے۔ کچھ خواتین اس کارخانے میں آ کر کام کرتی ہیں جبکہ کچھ اپنے گھروں سے ہی قالین بنا کر بھجوا دیتی ہیں۔

اس وقت شمیم بانو کے ساتھ 12 خواتین کام کر رہی ہیں۔ ان کے مطابق آج کل ان کے زیادہ تر گاہگ غیر ملکی سیاح ہوتے ہیں۔

ریحان شاہ رابطہ کمیٹی برائے متاثرین گوجال کے رُکن ہیں۔ اُن کے مطابق 2010 سے 2015 تک علاقے کی معاشی صورتحال بہت گھمبیر تھی۔

’اس وقت کے حالات ہم سے نہ پوچھیں، اس زمانے میں تو کشتیوں میں بچوں کی پیدائش ہو رہی تھی۔ مگر 2015 کے بعد جب سرنگیں بنا دی گئیں اور شاہراہ قراقرم دوبارہ تعمیر ہوئی تو ہمارے علاقے کے مردوں کے ساتھ ساتھ ساتھ خواتین کو بھی کام کاج کے کئی نئے مواقع ملے اور انھوں نے اس سے بہت فائدہ اٹھایا۔‘

سڑک بہتر ہونے سے نہ صرف گاہک ان کے پاس چل کر آئے بلکہ اس علاقے میں بنائی جانے والی مصنوعات مثلاً روایتی ٹوپیاں اور دیگر ہینڈی کرافٹس گلگت بلتستان سے نکل کر لاہور، کراچی، اسلام آباد اور دیگر بڑے شہروں کی مارکیٹوں میں بھی پہنچ گئیں۔


گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان امتیاز علی تاج کے مطابق شاہراہ قراقرم کی پاکستان کے لیے اہمیت اپنی جگہ پر ہے مگر یہ سڑک گلگت بلتستان کے لیے ایک ’لائف لائن‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔

اُن کے اندازوں کے مطابق 2015 کے بعد اس علاقے میں آنے والے مقامی سیاحوں کی تعداد آٹھ سو فیصد سے زیادہ تک بڑھ گئی جبکہ بین الاقوامی سیاحوں کی تعداد بھی دگنی ہو گئی ہے۔

شاہراہ قراقرم کی توسیع اور بحالی سے صرف سیاحت کو ہی فروغ نہیں ملا بلکہ مقامی پھلوں، ڈرائی فروٹ اور مقامی طور پر اگائی یا تیار کی جانے والی دیگر اشیا کو بھی نئی مارکیٹوں تک رسائی ملی۔

اس کی سب سے اچھی مثال یہاں کا مشہور پھل چیری ہے۔

آج سے 11، 12 سال پہلے مظہر علی چیری کے باغوں میں مزدوری کرتے تھے۔ آج وہ بیوپار کرنے کے علاوہ چیری کے باغات ٹھیکوں پر حاصل کرتے ہیں۔

وہ یاد کرتے ہیں کہ انھوں نے پہلی بار 2010 میں چیری کے ایک باغ کا ٹھیکہ 75 ہزار روپے میں لیا تھا جس میں اُن کی چار سو کلو چیری کاشت ہوئی۔

’اس ٹھیکے میں مجھے چیری کے سات سو ڈبے ملے تھے جن کا وزن 600 سے 700 گرام تھا۔ اس کے مقابلے میں سنہ 2020 میں میں نے وہی باغ سات لاکھ روپے میں ٹھیکے پر لیا اور اس سے دس ہزار ڈبے تیار ہوئے۔‘

مظہر کے مطابق روڈ کی بحالی سے انھیں کتنا فائدہ ہوا ہے، اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ گذشتہ سال اس خطے میں صرف چیری کے کاروبار کا حجم ڈیڑھ ارب روپے تک تھا۔

جہاں چیری کی سپلائی میں بہتری آئی وہیں اس کی مانگ بھی بڑھ گئی ہے۔ مظہر بتاتے ہیں کہ 2015 سے پہلے دینور کے مقام سے راولپنڈی کے لیے روزانہ تین کوسٹر گاڑیاں چلتی تھیں۔ اس کے مقابلے میں آج اسی مقام سے روزانہ پنڈی کے لیے چلنے والی گاڑیوں کے تعداد 25 ہے جو موسم کے حساب سے بڑھتی یا گھٹتی ہے۔

’سڑک خراب ہوتی تھی تو بیوپاری کم ہی چیری کے ٹھیکے لیتے کیونکہ ان دنوں میں زمیندار کو ایک ڈبے کے 45 روپے ملتے۔ اب ایک ڈبہ 150 یا اس سے زیادہ کا ہوتا ہے۔‘

گلگت بلستان چمبر آف کامرس کے سابق صدر جاوید حسین بتاتے ہیں کہ جب تک شاہراہ قراقرم دوبارہ تعمیر نہیں ہوئی تھی تب تک علاقے میں سیاحوں اور لوگوں کی آمد و رفت کم رہتی تھی۔

’اس وقت تو ان پھلوں اور ڈرائی فروٹ کو گلگت بلتستان کے ایک علاقے سے دوسرے تک پہنچانا بھی مشکل ہوتا تھا لیکن اب اکثر اوقات جو سیاح آتے ہیں، ان میں سے ہی کوئی کاروباری لوگ ہماری مقامی سوغات، پھل اور ڈرائی فروٹ کو اپنے علاقوں میں مارکیٹ کی گنجائش کے حساب سے خرید کر لے جاتے ہیں۔ اس طرح ہمارے ملک کے دیگر حصوں میں کاروباری تعلقات بھی قائم ہو رہے ہیں۔‘

اہم بات یہ بھی ہے کہ خنجراب تک سڑک بننے کے بعد پاکستان کے شمالی کونے تک سب سے دور دراز علاقوں میں بسنے والوں کے لیے بھی مواقع پیدا ہوئے ہیں اور اونچائی پر موجود آبادیوں کے لوگ، جنھیں پہلے روزی کمانے کے لیے دیگر علاقوں اور بڑے شہروں کا رخ کرنا پڑتا تھا، اب اپنے آبائی علاقوں میں ہی کاروبار جما رہے ہیں۔

جاوید حسین کے مطابق خنجراب پاس اور اس کے اردگرد گیسٹ ہاوسز کا تصور بہت عام ہو گیا ہے۔

حکومت کے ترجمان امتیاز علی تاج بتاتے ہیں کہ گذشتہ پانچ برسوں میں گلگت بلتستان میں ہوٹلوں اور ریستورانوں کی تعداد میں سو فیصد اضافہ ہوا ہے اور صرف عطا آباد کے علاقے میں کئی نئے ہوٹل تعمیر ہوئے ہیں۔

ساتھ ساتھ یہاں تعمیراتی اور ترقیاتی کام بہت تیزی سے جاری ہیں۔ ’جو مزدور پہلے پنجاب اور کراچی جا کر پیسے کماتے تھے اب اپنے، اپنے علاقوں میں مزدوری کرتے ہیں بلکہ کئی تجربہ کار مزدور تو اپنی محنت سے ٹھیکے دار بھی بن چکے ہیں۔‘

حکومتی ترجمان کے مطابق اچھی سڑکیں اور روڈ نیٹ ورک کسی بھی علاقے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

یاک گرل کے طارق علی اس بات سے متفق نظر آتے ہیں۔

ان کے مطابق وہ دن دور نہیں جب پاکستان کے ہر شہر اور کونے کونے میں شنواری ریستورانوں کی طرح گلگت بلتستان کے پکوان بھی پہنچ جائیں گے اور ’انشا اللہ وہاں پر گلگت بلتستان کے ہی ہنر مند روزگار پائیں گے۔‘

مزید پڑھیے

عمرکوٹ: جہاں بہادری اور رومانوی داستان بستی ہے

اسلام آباد میں ایک دن میں کیا کیا دیکھا جا سکتا ہے

برف باری چھوڑیں، پوٹھوہار کے قلعے ملاحظہ فرمائیں!

ان کا کہنا تھا کہ ان کے کھانے کا منفرد ذائقہ چکھنے کے بعد کئی آنے والے ان سے پوچھتے ہیں کہ آیا یہ کھانے لاہور، کراچی اور اسلام آباد وغیرہ میں بھی دستیاب ہیں۔

’کئی لوگوں نے ہمیں دعوت دی ہے کہ ہم پاکستان کے بڑے شہروں میں ان کے ساتھ مل کر کام کریں۔‘

’اس کے بعد ہم نے بھی سوچنا شروع کر دیا ہے کہ اپنے مقامی لوگوں کو مزید تربیت فراہم کریں تاکہ اگر ملک کے دیگر بڑے شہروں میں طلب ہو تو ہمارے لوگ وہاں جا کر کام کر سکیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp