مختصر لباس اور روبوٹ مرد


وزیراعظم پاکستان نے انٹرویو میں ایک سوال کے جواب جو کہ پاکستان میں بڑھتے ہوئے جنسی تشدد، ریپ، بچوں سے زیادتی، سے متعلق تھا اس میں جو بھی کہا الگ الگ سوچ اور طبقہ فکر کے لوگ اس بیان کو اپنے اپنے زاویہ نگاہ سے دیکھ رہے ہیں ایک طبقے نے جسے ہمارے سماج میں ایلیٹ، لبرلز، ماڈرن، فیشن ایبل کہا جاتا ہے۔ وہ اس بیان پر اسے اپنی شخصی آزادی پر حملہ قرار دے رہے ہیں۔ اور خواتین کے لباس کو ان کا مکمل انفرادی حق قرار دے رہے ہیں۔

میڈیا اور فیشن انڈسٹری سے وابستہ لوگ بھی اس بیان پر شدید نا پسندیدگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ میڈیا پرسن اور فیشن انڈسٹری کے لیے تو یہ بات اس لیے بھی انتہائی ناپسندیدہ ہے کی اس سے ان کا بزنس اور سرمایہ کاری براہ راست متاثر ہوتی ہے۔

دوسری طرف وہ طبقہ ہے جسے ہمارے سماج میں قدامت پسند یا مذہبی تصور کیا جاتا ہے۔

یہ لوگ اس بیان کے مکمل حق میں ہیں اور اسے عین اسلامی قوانین کے مطابق درست اور جائز قرار دے رہے ہیں اور اس سے انکار کرنے اور اس پر شور مچانے کو اسلامی قوانین سے تصادم قرار دے رہے ہیں۔

ایک طبقہ وہ ہے جو بس خاموشی سے محو تماشائی ہے اور دونوں طرف کے دلائل اور تو بحث و مباحثہ پر در حقیقت پریشان ہے اور سمجھ نہیں پا رہا کہ وہ لکیر کے کس طرف کھڑا ہے۔ اس طبقے کو آپ سفید پوش یا معتدل سوچ رکھنے والے لوگ بھی کہہ سکتے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان صاحب کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ کچھ معاملات پر اپنا موقف پیش تو کر دیتے ہیں مگر اسے ایکسپلین یا لوگوں کو اپنی وہ حقیقی سوچ کنوینس نہیں کر پاتے جس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔

اول یہ کہ وہ کوئی اسکالر یا فلسفی نہیں ہیں اس لیے منطق اور دلیل سے مدد نہیں لے پاتے۔

دوم یہ کہ مختصر وقت کے انٹرویو یا سیمینار میں وقت کی کمی اور موضوع کی طوالت کے باعث اختصار سے کام لے کر سوچنے کا کام رائے عامہ پر چھوڑ دیتے ہیں۔

سوم ان کا ماضی جو کافی رنگین رہا اگرچہ اب وہ تبدیل شدہ انسان ہیں اور یہ صحیح بھی ہے تغیرات اور تبدیلی ہی زندگی ہے۔ جمود تو موت ہے اور زندہ انسان خود کو بتدریج بہتری کی طرف لاتے ہیں۔

چہارم ان کی موجودہ اہلیہ کا خود شرعی حجاب کرنا ہے جس کے باعث ایک طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ غالباً وہ اب خواتین کو اس لیے مکمل لباس کا انتخاب کرنے پر آمادہ کرنا چاہتے ہیں۔

ان بنیادی وجوہات کی بناء پر ہر طبقہ اس بیان کو اپنی مرضی کے معنی پہناتا ہے۔ جبکہ میڈیا اور بالخصوص سوشل میڈیا شدید فراغت کا شکار ہے اور انہیں احوال کچھ تو بہر ملاقات چاہیے۔ سوشل میڈیا اور خصوصاً فیشن انڈسٹری اس مکمل لباس والے بیان کو ریپ کرنے والوں کی حمایت یا ان کو جسٹیفائی کرنا قرار دے رہے ہیں

جبکہ ایسا ہر گز نہیں ہے کوئی بھی انسان زیادتی اور ریپ کرنے والے کا دفاع نہیں کر سکتا تو پھر ایک لیڈر اور وہ بھی کسی ملک کا حکمران ایسا ہر گز نہیں سوچتا۔

یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے ہم خود مشاہدہ کریں کہ اس مختصر لباس اور مرد روبوٹ نہیں ہوتا کہ منطق کیا ہے۔ شہوت جرم نہیں ہے رویہ ہے انسانی جبلت ہے جسے انسان کے اندر سے ختم نہیں کیا جاسکتا اس میں توازن پیدا کیا جا سکتا ہے اور یہ توازن برقرار رکھنے کیے ہی رشتہ ازدواج کی بنیاد رکھی گئی احساس تنہائی سے نجات اور جسمانی ضروریات یہ دونوں چیزیں اس رشتے کی بدولت حاصل کی جاتی ہیں پھر اس کے باوجود جنسی جرائم کیوں موجود ہیں اور پہلے سے زیادہ ریشو بڑھ رہا ہے۔

اس شہوت کو بڑھنے سے روکنے کے لیے اگر سماج کو کچھ تبدیلیاں کرنی پڑیں تو اس میں کیا حرج ہے۔ ہمارے معاشرے میں اسی فیصد خواتین مکمل لباس کا اہتمام کرتی ہیں۔ سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ مکمل لباس کیا ہے۔ چاہے آپ برقع، عبایہ، چادر وغیرہ نہ بھی لیں تو آپ کا لباس اگر ایسا نہیں ہے جس سے آپ کے جسمانی خد و خال نمایاں ہو رہے ہوں کہ اگر کسی کی نظر پڑے تو وہ لباس کے پیچھے جسم میں جھانکنے میں دلچسپی لینے کی کوشش نہ کرے تو آپ کا لباس مکمل ہے۔

ہمارے ملک میں کئی خواتین ایسی جگہوں پر کام کرتی ہیں جہاں انہیں کوٹ پینٹ، جینز اور اسی طرح کے ویسٹرن ڈریس پہننے پڑتے ہیں۔ کچھ خواتین کو شوق ہوتا ہے ویسٹرن لباس پہننے کا تو ضرور پہنیں مگر حدود اور قیود کے ساتھ ولگیریٹی اور فیشن میں فرق ہوتا ہے۔

پہلے جینز کو گھٹنوں سے تھوڑا سا سوراخ کر لینا فیشن تھا اب یہ فیشن اوپر زانو تک پہنچ گیا ہے۔ یہ وہ لمٹ ہے جو کراس ہو رہی ہے۔ آدھی آستین سے سلیو لیس تک کا سفر طے کر لیا اب آف شولڈر کا فیشن ہے۔

گھٹنوں تک شرٹ کی لمبائی کم ہو کر اوپر گئی پھر ٹک ان کا فیشن اور اب اس سے بھی اوپر کہ تھوڑی سی کمر نظر آئے تو سیکسی لک آئے گی۔ تھوڑا ہاٹ لگیں گی۔ کیوں؟

کیوں ہاٹ لگنا چاہتی ہیں خواتین؟
کیوں سیکسی لک چاہیے؟

انتہا پسندی صرف مذہبی معاملات میں نہیں زندگی کے ہر معاملے میں نقصان دہ ہوتی ہے۔ چاہے وہ ماڈرن خواتین کریں یا باپردہ خواتین۔

بہت زیادہ پردہ کرنے والی خواتین خود کو افضل ترین سمجھتی ہیں انہیں اکثر فیشن کرنے والی خواتین کے کردار خراب لگتے ہیں جبکہ ان میں خود کئی ایسی خواتین ہماری نظر سے گزری ہیں جو اوپر سے مکمل پردہ پوش ہوتی ہیں اور اندر سے لباس میں فیشن کے سارے لوازمات پورے ہوتے ہیں۔

جنسی جرائم کے لیے شہوت انگیز شے صرف عورت کا لباس نہیں وہ مجموعی انتہا پسندی ہے جو سرعت سے ہمارے معاشرے ہمارے کلچر میں ہماری میڈیا انڈسٹری ہماری فلم انڈسٹری، فیشن انڈسٹری، شوبز ہر جگہ داخل ہو چکی ہے اور اپنی جڑیں مضبوط تر کر چکی ہے۔

یہ بڑھتے ہوئے ریپ واقعات، بچوں کے ساتھ زیادتی حتی کہ مدرسوں میں پڑھنے والے کم عمر لڑکوں کے ساتھ بد فعلی کے واقعات یہ سب سماجی تنزلی ہے یہ انتہا پسند رویہ ہے مختصر لباس اور روبوٹ مرد نہیں یہ اس سے بہت آگے کی بات ہے۔

جنسی خواہشات کا درندگی کی حد تک بڑھ جانا بدصورت معاشرے کی بھیانک سماجی شکل ہے یہاں شہوت صرف لباس کیا الفاظ تک سے آجاتی ہے یہاں منٹو کے افسانے ”کالی شلوار“ اور ”کھول دو“ جیسے عنوانات ہی شہوت کے ابھرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔

اس بیمار ذہن معاشرے کو سدھارنے میں اگر مکمل لباس مددگار ہو سکتا ہے تو اس پر اعتراض کرنے کے بجائے سنجیدگی سے سوچیں کہ کہاں کہاں اعتدال کی سرحدیں کراس کی گئیں ہیں۔ شتر بے مہار آزادی اور گھٹن کی حد تک لگائی جانے والی پابندی دونوں ہی نفسیاتی بیمار معاشروں کی ترویج کا سبب بننے والے عوامل ہیں لہذا اپنے رویے میں تبدیلی لائیں وگرنہ بیمار سوچ کے حامل معاشروں میں مجرمانہ سوچ سب سے زیادہ تیزی سے پنپتی ہے۔ زنا بالجبر تو نا قابل معافی جرم ہے۔ لیکن زنا بالرضا بھی کوئی سند نہیں ہے جسے گلے میں لٹکا کر فخر کریں۔ اس لائن پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بیمار ذہنیت کی آبیاری رک سکے

جس تنزلی میں ہم جا رہے ہیں وہاں شاید ایک تو کیا دس ریپسٹ بھی لٹکا دیں گے تو بھی سدھار نہیں آئے گا تبدیلی رویے میں لائیں ورنہ کتنی ہی قیادتیں تبدیل ہو جائیں مسائل کم نہیں ہوں گے بڑھیں گے ملکوں کے زوال قوموں کی ناپختگی سے اور اقوام کے زوال سماجی رویوں سے ہوا کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments