منکہ مسمی روبوٹ چودھری


منکہ مسمی روبوٹ چودھری سکنہ موضع کافرستان، حال محلہ خیالستان، مستقبل ریاست مدینہ بقلم خود باعث تحریر آنکہ حال ہی میں وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب عمران خان صاحب نے اپنے ایک انٹرویو میں اس ناچیز کا تذکرہ فرمایا، چنانچہ اپنے کوائف ماضی و حال درج ذیل تحریر کر دئے ہیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔

یہ ناچیز چند دہائیوں قبل اپنے جیسے کثیر دیگر روبوٹوں کی طرح عدم سے وجود میں آیا۔ اپنے ارد گرد کے ماحول سے آشنائی حاصل کرتے ہوئے ہوش سنبھالا تو زمانے کی روش کے مطابق ہر قسم کی کشش ہائے جنسیت کے لوازمات دستیاب پائے۔ ریلوے پلیٹ فارموں، چھٹی کے دن فٹ پاتھوں، پرانی کتب کی دکانوں پر ”شادی کی پہلی رات“ اور ”وہی وہانوی“ کے ناولوں سے لے کر سسپنس، جاسوسی، سب رنگ سے ہوتے ہوئے آداب عرض، جواب عرض، وغیرہ تک سب کچھ موجود پایا، اور حسب ذائقہ و توفیق مستفیض بھی ہوا۔

ارض پاک، نام جس کا بے شک پاکستان تھا، لیکن تب تک احوال اس کے کافرستان سے تھے، کیونکہ ابھی اس پر ضیائی پاکیزگی کا سہاگہ نہیں پھرا تھا۔ چنانچہ پاکستانی فلموں میں گنڈاسے اور کلاشنکوفوں کی بجائے زیبا، دیبا، زمرد اور آسیہ کی ادائیں بھی دل لبھاتی تھیں۔ سمندر پار سے ”صرف بالغوں کے لئے“ والی فلمیں بھی چل جاتی تھیں۔ من چلوں کو ایسے ٹھکانوں کا بھی پتہ تھا جہاں نو سے بارہ کے شو میں ”چلاؤ، چلاؤ“ کے نعرے لگانے پر مزید ناگفتنی عنایات بھی ہو جاتی تھیں۔

سرحد پار سے بذریعہ دور درشن ہفتے میں دو دن فلمیں اور تین دن فلمی گانے بھی ہواؤں کے دوش پر ہماری بد تربیتی پر کمر بستہ رہتے تھے۔ زیادہ ٹوہ لگانے والوں کو لیٹ نائٹ ”یہ نزدیکیاں“ اور ”منڈی“ وغیرہ بھی میسر ہوجاتی تھیں۔

کچھ مزید ہوش سنبھالا تو طاغوتی طاقتوں کے آلہ کار سڈنی شیلڈن، ڈینئیل سٹیل و دیگران کے ناول بھی دسترس میں آ گئے۔ ساتھ ہی فٹ پاتھوں اور ریلوے پلیٹ فارموں پر دستیاب نامعلوم مصنفین کا انگریزی مواد بھی قابل فہم اور قابل استعمال ہو گیا۔

وقت کی منزلیں بڑھتی گئیں تو مجھ روبوٹ کے اگلے ورژن، ویڈیو کیسٹس اور پھر سی ڈیز، ڈی وی ڈیز، اور انٹرنیٹ سے بھی مستفیض ہونے لگے۔ حقیقت یہ ہے کہ شکر خورا شکر ڈھونڈ ہی لیتا ہے چاہے اسے فٹ پاتھوں کے چکر لگانے پڑیں، تھرڈ گریڈ سینماؤں کی خاک چھاننی پڑے، یا کسی ویب سائٹ پر اپنی عمر کنفرم کرنے کے لئے والد کے کریڈٹ کارڈ کی معلومات دینا پڑیں۔

ستر کی دہائی تک بازار حسن کی رونقیں بھی موجود تھیں، لیکن قبول عام کا درجہ نہیں رکھتی تھیں۔ اللہ بھلا کرے، کرنے والے کا لیکن آخرش یہ بازار بھی اجڑ کر معاشرے کے گلی محلوں میں تحلیل ہو گئے۔ البتہ چاہے زمانہ قبل از ضیا کا ظلماتی دور ہو یا بعد از ضیا کا پر نور، پاکیزہ و پوتر عہد، اس ارض پر کبھی نائٹ کلب معاشرے کا حصہ نظر نہیں آئے۔ رہی بات مختصر کپڑوں کی، تو ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ہاف بلاؤز کے ساتھ ساڑھیاں معاشرے کا عمومی لبادہ تھیں، بنا بازو کے میکسیز، منیز وغیرہ بھی ماڈرن کلاس کے ہی سہی لیکن قابل قبول پہناوے تھے۔

غرض ماہر اخلاقیات و مغربیات وزیر اعظم صاحب کی بیان کردہ تمام تر ترغیبات برائے ریپسٹ بچپن ہی سے مجھے اور میری نسل کے تمام روبوٹس کو دستیاب رہیں۔ اندریں حالات محترم وزیر اعظم کی تشخیص کے مطابق یا تو میری ساری نسل اجتماعی طور پر ریپسٹ ہونی چاہیے، یا نا مرد ہونی چاہیے یا پھر روبوٹ۔ نامرد نہ ہونے کی گواہی تو روز افزوں بڑھتی آبادی دے رہی ہے چنانچہ انتخاب ریپسٹ اور روبوٹ میں رہ جاتا ہے۔

لیکن حتمی فیصلہ صادر کرنے سے پہلے کیا کچھ دوسرے امکانات پر بھی غور کیا جاسکتا ہے؟
ممکن ہے میری اور میرے جیسے کروڑوں مرد حضرات کی گھروں میں بہتر تربیت ہوئی ہو۔ مذہب اور دین ایک طرف، ہمیں انسانیت سکھائی گئی ہو۔
ہو سکتا ہے ہمیں عورت کی عزت بطور ماں، بہن اور بیٹی کے کرنے کی بجائے عورت کی حیثیت سے کرنا سکھایا گیا ہو۔
ممکن ہے ہمیں بتایا گیا ہو کہ اسلام عورت کو اپنی زینت ڈھانپنے کا حکم دینے سے پہلے مرد کو نگاہ نیچی کرنا بھی سکھاتا ہے۔
ممکن ہے ہمیں بتایا گیا ہو کہ سیکس ایک لطیف جذبہ ہے، جو نا تو گناہ ہے اور نہ ہی حیوانیت۔
ممکن ہے کہ ہمیں ایک گھٹن زدہ ماحول میں بھی اپنی انرجی اور فرسٹیشنز کو بہتر مصرف کی جانب موڑ دینے کے مواقع ملے ہوں۔

اگر سوچ پر سے حیوانیت، شہوت اور میسوجینی کے کھوپے اتار دیے جائیں تو بہت سے امکانات موجود ہیں، روبوٹس کے علاوہ انسان بھی اپنی جبلتوں پر قابو پانا جانتے ہیں، شاید ان کو شرف انسانیت بخشا ہی اس قوت ارادی، خود احتسابی، سیلف کنٹرول کی بنیاد پر گیا ہے۔

محترم وزیر اعظم صاحب! مجھ روبوٹ کو تو یہی سمجھ نہیں آئی کہ آپ کو اعتراض خواتین کے مختصر کپڑوں پر ہے یا نائٹ کلب نہ ہونے پر۔ کیونکہ آپ نے ایک جیسی ہی فرسٹیشن سے ان دونوں ”اسباب ریپ“ کا تذکرہ فرمایا ہے۔ جناب وزیر اعظم! اگر آپ جتنا مغرب کو جانتے ہیں اتنا ہی اس ارض خیالستان کو بھی جانتے ہوتے تو آپ کو معلوم ہوتا کہ آج اس معاشرے میں آپ کی پالیسی کا انتظار کیے بغیر ہی، مساج سینٹرز، چائے خانوں اور ایسے ملتے جلتے ناموں سے نائٹ کلبز کا متبادل انتظام موجود ہے۔ چنانچہ نہ تو ملک میں بڑھتے ہوئے ریپ کیسز کا تعلق نائٹ کلبز کی عدم موجودگی سے ہے اور نہ خواتین کے مختصر لباس سے۔

اگر آپ واقعی اس ارض پاک کو ریاست مدینہ یا کسی بھی فلاحی ریاست کے پاسنگ بھی بنانا چاہتے ہیں تو خیالستان سے باہر آئیے اور حقیقی عملی میدان میں کام کا آغاز کیجیئے، معاشرہ بگڑتے بھی عشرے لگتے ہیں، بنتے بھی دہائیاں گزر جائیں گی، لیکن پہلا قدم اٹھانا ہی پڑتا ہے۔

اور وہ پہلا قدم خواتین کے لباس کی پیمائش نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments