لاہور: حافظ سعید کے مکان کے نزدیک بم دھماکہ، دو افراد ہلاک، متعدد زخمی


لاہور

لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کے مکان کے نزدیک ہونے والے بم دھماکے کے نتیجے میں پولیس اہلکار سمیت دو افراد جاں بحق اور کم از کم 14 افرد زخمی ہو گئے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق دھماکے سے قریبی گھروں اور گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ پولیس کے مطابق سی ٹی ڈی اور بم ڈسپوزل اسکواڈ کی ٹیمیں موقع پر موجود ہیں اور شواہد اکٹھے کیے جا رہے ہیں۔

یاد رہے کہ کالعدم تنظیم جماعت الدعوتہ کے سربراہ حافظ سعید احمد پہلے ہی جیل میں تھے۔ انھیں گزشتہ برس لاہور کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے تین مختلف مقدمات میں دہشت گردی کے الزام میں کل گیارہ برس قید کی سزا سنائی تھی۔

سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے پولیس اہلکار سمیت دوافراد کے جاں بحق اور متعدد افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔

دھماکے کے بعد پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نےعلاقے کو گھیرے میں لے لیا جبکہ زخمیوں کو جناح ہسپتال منتقل کردیا گیا۔

کمشنر لاہور کیپٹن (ر) محمد عثمان یونس نے بی بی سی کو بتایا کہ دھماکے کے مقام پر ایک گڑھا نظر آ رہا تھا اور اس کے قریب بری طرح تباہ شدہ ایک گاڑی اور ایک موٹر سائیکل کھڑی پائی گی۔

‘لیکن تاحال پولیس یہ پتہ لگانے کی کوشش کر رہی ہے کہ دھماکے کی نوعیت کیا تھی۔ اگر کوئی بارودی مواد وہاں لایا گیا تھا تو وہ کیسے لایا گیا تھا کسی موٹر سائیکل میں یا گاڑی میں۔’

دھماکے کے بعد جائے وقوع پر موجود پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) انعام غنی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ یہ بم دھماکہ تھا جس کا ہدف وہاں پر موجود قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار تھے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ یعنی سی ٹی ڈی پنجاب نے مکمل طور پر واقعے کی تحقیقات سنبھال لی تھیں۔

‘سی ٹی ڈی کے ماہرین یہ معلوم کریں گے کہ دھماکے کی نوعیت کیا تھی اور کیا یہ کوئی خودکش حملہ تھا یا نہیں۔ ہم جلد اس کے ذمہ داران تک پہنچ جائیں گے۔’

جب آئی جی پنجاب انعام غنی سے حافظ سعید کے مکان کی موجودگی اور اس پر ممکنہ حملے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے تصدیق کی کہ جماعت الدعوۃ کے سربراہ کا مکان نزدیک ہی ہے تاہم انھوں نے کہا کہ وہاں تک جانے کے راستے میں پولیس کی رکاوٹیں تھیں جس کی وجہ سے دھماکہ خیز مواد سے بھری ہوئی گاڑی مکان کے قریب نہیں پہنچی اور اب تک کا ابتدائی تجزیہ یہی ہے کہ حملہ پولیس پر کیا گیا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ حملے کے نتیجے میں جن مکانات کو نقصان پہنچا ہے ان کی تلافی کی جائے گی۔

حملے کی ذمہ داری کے بارے میں سوال پر ان کا کہنا تھا کہ بیرون ملک عناصر پاکستان کو ترقی کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے اس لیے یہاں کہ امن و امان کے خلاف ایسی کارروائیاں ہوتی ہیں۔

دھماکے کے مقام پر عینی شاہدین نے مقامی ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ دھماکہ اس قدر زوردار تھے کہ قریبی کئی گھروں کے شیشے ٹوٹ گئے اور اس کے قریب واقع کئی گھروں کو شدید نقصان پہنچا تھا۔

ایک عینی شاہد خاتون نے ایک مقامی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں دھماکے کے مقام پر ایک موٹر سائیکل کو کھڑے دیکھا تھا۔ ان کا دعوٰی تھا کہ قریب موجود پولیس نے اس موٹر سائیکل کر چیک کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔

‘وہی موٹر سائیکل دھامکے سے پھٹی تھی۔ انہوں نے اس کو چیک کیوں نہیں کیا۔ میں نے تین مرتبہ اس کو اس گھر کے سامنے کھڑے ہوئے دیکھا تھا۔’

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے بھی جوہر ٹاؤن میں ہونے والے دھماکے کا نوٹس لیتے ہوئے چیف سیکریٹری اور آئی جی پنجاب سے دھماکے کی رپورٹ طلب کر لی۔

https://twitter.com/ShkhRasheed/status/1407602663777263619.

ادھر پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ سردار عثمان بزدار نے دھماکے کے زخمی افراد کو علاج معالجے کی بہترین سہولتیں فراہم کرنے کی ہدایت کر دی۔

انھوں نے جوہر ٹاؤن میں دھماکے کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) انعام غنی سے رپورٹ طلب کرلی اور واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔

وزیرِاعلیٰ پنجاب نے جناح اسپتال اور دیگر اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرنے کی ہدایت بھی کر دی۔

شہباز شریف کی دھماکے کی مذمت

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہبازشریف کی لاہور میں دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ہلاکتوں پر اپنے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔

کے بیان کے مطابق انھوں نے کہا کہ پنجاب کے داارلحکومت میں یہ واقعہ آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے اور وہ مسلسل کہہ رہے ہیں کہ امن وامان کی بگڑتی صورتحال توجہ کی متقاضی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp