قبر کے اندر کا حال اور سرکاری ملازم


مجھے بطور نیم سرکاری ملازم کوئی ملال نہیں ہے کہ ہماری کئی سال سے تنخواہ نہیں بڑھی، ہر مہینے باقاعدگی سے ٹیکس ہماری تنخواہ سے کٹ جاتا ہے، کوئی نہیں دیکھتا اس سرکاری ملازم نے کتنا قرض اپنے ادارے اور اس کے بینک سے لیا ہوا ہے اس کی مد میں کوئی چھوٹ نہیں ہے۔ سب سے پہلے تنخواہ میں ٹیکس کٹوتی، پھر سب بلوں پر ٹیکس کٹوتی، پھر گھریلو سامان پر ٹیکس کٹوتی۔ اچھا ہے سب کاٹنا چاہیئے، ملک کا نظام بھی تو چلانا ہے۔

کچھ دوستوں کا خیال ہے سرکاری ملازم کوئی کام نہیں کرتے۔ تو صرف وہ ان بیچاروں کی ٹیکس کٹوتی ہی دیکھ لیں کتنی ایمانداری سے کی جاتی ہے تو لگ پتہ جائے، پھر کام کام اس کے علاوہ۔

میری گلی اور سیکٹر دوسری دفعہ لاک ڈاؤن ہو چکا ہے اور ہم سرکاری ملازم اتنے ڈھیٹ ہیں کہ پھر وقت پر اپنی نوکری پر جاتے ہیں۔ اور رات گئے تک جی حضوری کرتے ہیں۔ وہ کام بھی کرتے ہیں جو ہماری ذمہ داری ہے اور وہ بھی جو ہمارے ذمہ نہیں ہے۔ گھر واپسی پر بیٹیاں جب ملنے کے لئے بھاگ کر آپ کی طرف آتیں ہیں اور آپ روک کر کہتے ہو، بیٹا تھوڑی دیر میں ملتے ہیں۔ ہاتھ دھو لوں، کپڑے بدل لوں۔ تو وہ بھی رونی شکل بنا کر بابا جی حالات اتنے خراب ہیں تو آفس کیوں جاتے ہیں۔ کیا بتاؤں ان کا ہڈ حرام باپ سرکاری ملازم ہے۔

پچھلے پانچ سال میں ڈالر 100 روپے سے 167 روپے پر آ گیا ہے ہماری تنخواہیں وہیں کی وہیں ہیں، لیکن غور کریں تو ہماری تنخواہیں کم ہو گئی ہیں۔ جو ایپسن کا کلر پرنٹر 38000 کا آتا تھا آج 54000 کا ہو گیا ہے اور اس کا ہیڈ اب صرف 24000 کا ہے۔

پتہ نہیں وہ کون سے سرکاری ملازم ہیں۔ جو رزق حلال میں ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

یا تو سرکاری اور نیم سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بھی ڈالر کے ریٹ سے وابستہ کردیں، یا پھر کرونا سے زیادہ اموات مفلسی اور غریبی سے ہونے کے منتظر رہیے،

افسر کی تنخواہیں قدرے بہتر ہیں پر چھوٹا عملہ کیسے گزر بسر کرتا ہے، مالی امور کے ماہرین ایک نظر ادھر بھی کریں۔

مجھے کچھ زیادہ کی ضرورت یا خواہش نہیں ہے بس ایک عرض ہے میں گریڈ 19 کا ایک سرکاری ملازم ہوں میری کچھ ایسے راہنمائی کریں کہ ہر مہینے سادہ زندگی گزار کر پانچ سو روپے میری بچت ہو جائے۔ کوئی گھر، پلاٹ نہ میں مانگتا ہوں نہ اس کا حق دار سمجھتا ہوں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی یہ ملازمت پیشہ لوگ گھر کیسے بنا لیتے ہیں۔

الحمدللہ اپنے رب کا شکر گزار بندہ ہوں پر ان دوستوں کی صلاحیت سمجھ نہیں آتی جو صدر مملکت اور وزیراعظم سے بھی زیادہ ماہانہ تنخواہ لیتے ہیں۔

کچھ دوستوں کی تنخواہ تو اتنی ہے کہ ہر مہینے دل کا آپریشن کروا سکتے ہیں پر جن کی تنخواہ مہینے کے دنوں سے بھی کم ہزار میں ہے۔ وہ کیسے گزارہ کریں۔ اور دوائیاں کہاں سے خریدیں اور پھر مہینوں ان پیسوں کی واپسی کا انتظار کریں۔ کوئی یتیم ہی یتیموں کا دکھ سمجھ سکتا ہے، میرے نبی کریم ﷺ نے یتیم کی کفالت اور حسن سلوک پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔

کیونکہ میرے نبی کریم ﷺ اس دکھ کو دیکھ چکے تھے اور سمجھتے تھے۔
پالیسی میکرز کو ان تکلیفوں کا احساس ہونا چاہیئے جو وہ دوسروں کے لئے کھڑی کرتے ہیں۔

کل میرے ایک دوست سے ان کے سابقہ مالکان کا ذکر ہو رہا تھا، جہاں وہ نوکری کرتے تھے، میں نے عرض کیا بہت اچھے اور بھلے مانس لوگ ہیں، اس نے بھیگی آنکھوں سے کہا سر ناراض نہ ہونا، قبر کے اندر کا حال صرف مردہ ہی جانتا ہے باہر کھڑے ہو کر اندازے ہی لگائے جا سکتے ہیں۔ بے شک سرکاری ملازمین کی تنخواہیں مت بڑھائیں، ایک عرض ہے اشیاء ضروریات سب کی پہنچ میں کردیں۔ زندگی سہل ہوتو شاید کچھ بھرم قائم رہ جائے۔ شکریہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments