گناہ اور گناہگار کا دفاع آخر کیوں؟


بڑوں سے سنا کرتے تھے کہ ایمان کا سب سے بڑا درجہ یہ ہے کہ کہیں برا ہوتے دیکھوں تو اسے اپنے ہاتھ سے روکا، اگر ایمان اس سے کمزور ہو تو اسے اپنی زبان سے برا کہو اور ایمان کا آخری درجہ یہ ہے کہ اسے دل میں برا جانو۔ عجب حال ہو گیا ہے ہمارا برائی ہمارا پیٹی بھائی کرے تو ہم اسے روکنے، برا کہنے یا سمجھنے کے بجائے اس کا دفاع کرنے لگتے ہیں۔ اس سلسلہ میں دلائل تلاش کرتے ہیں اور بحث در بحث کرتے چلے جاتے ہیں۔ ایسا اگر صرف سیاسی کارکن کریں تو سمجھ آتا ہے کیوں کہ موجود دور کے سیاسی کارکن نظریاتی نہیں مفاد پرست ہیں لہذا انہیں اپنے مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے اپنی جماعت کی ہر برائی کو چومنا پڑتا ہے لیکن اگر ایسا سمجھدار اور پڑھے لکھے لوگ کریں تو حیرت ہوتی ہے۔

عزیز الرحمان نے اپنا جرم قبول کر لیا ہے۔ اس نے گرفتاری کے بعد دیے گئے ایک بیان میں کہا کہ ویڈیو میں جو ہے وہ درست ہے مجھ سے غلطی ہوئی ہے لیکن ویڈیو مجھے پھنسانے کے لئے بنائی گئی۔ اب موصوف سے کوئی پوچھے کہ آپ کے پاس تو علم تھا پھر اس غلطی کے باوجود کتاب مقدس پر ہاتھ رکھ کر بیان کیوں جاری کیا کیا آپ کو اس کے گناہ کا علم نہیں؟ خیر اللہ تعالی ’ہم سب کو برے کاموں، برائیوں اور ان کے نتائج سے بچائے۔ اس شخص کے ساتھ اس کے بیٹے بھی گرفتار ہیں تحقیقات جاری ہیں بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس کیس میں مدعی بھی بے قصور نہیں، لالچ کہیں یا عزیز الرحمان کے کو پھنسانے کی حکمت عملی مدعی بھی کہیں نہ کہیں اس گناہ میں اپنی مرضی سے شامل نظر آتا ہے مکمل حقیقت تو تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ہی معلوم ہوں گی۔

عزیز الرحمان اور اس کیس کے مدعی سے زیادہ حیران کن رویہ کچھ دیگر لوگوں کا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے آغاز میں عزیر کا بھرپور دفاع کیا اور اس کے وضاحتی بیان کے چرچے کرنے لگے اور اس بات پر ڈٹے رہے کہ عزیز کو نشہ دے کر اس سے یہ کام کرایا گیا ہے محترم انتہائی معصوم ہیں۔ بعد ازاں جب ان کی مزید ویڈیوز منظر عام پر آئیں تو کہا جانے لگا کہ ایسا ہمارے ہاں کم ہوتا ہے بلکہ اسکول کالجوں میں زیادہ ہوتا ہے اور کچھ نے اس معاملے پر زبان کو ہی تالا لگا لیا۔ ہم بچپن سے ہر برے کام کے متعلق سنتے آئے ہیں کہ یہ امریکا اور یہودیوں کی سازش ہے اب جب یہ داستان ذرا پرانی ہوئی تو ہر برا کام دین کو بدنام کرانے اور سیکولر طبقے کی سازش ہو گیا آخر ہم کب تک اس طرح کے فرسودہ دلائل کے پیچھے چھپتے رہیں گے؟ کیا ہم کبھی اپنا احتساب بھی کریں گے؟

یہاں کچھ باتیں سمجھنے کی ہیں۔ بلا شبہ مدارس کا ماحول اور نظام ایک مثالی نظام ہے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ مخلوط تعلیمی نظام میں برائی زیادہ جنم لے سکتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب بالکل نہیں کہ جو ادارے لڑکوں یا لڑکیوں کے لئے مخصوص ہیں وہاں کچھ نہیں ہو سکتا ۔ ایسے معاملات پر یہ دلیل دینا کہ ایسا ہمارے ہاں کم ہوتا ہے عصری علوم کے اداروں میں زیادہ ہوتا ہے بالکل فضول ہے۔ ایسا جہاں بھی ہو کرنے والوں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔ اداروں سے بے دخل کر کے معاملات کو چھپانے کا مطلب ہے کہ ہمارے ہاں سے خاموشی سے چلے جاو اور کہیں اور جاکر بھلے کو لو۔ ایسا جہاں ہو ان افراد کی حوصلہ شکنی کے لئے ان کے خلاف مقدمہ درج کرانا دینی و اخلاقی فریضہ سمجھا جائے۔

یاد رکھیں گناہ گناہ ہے چاہے وہ کوئی دنیا دار آدمی کرے یا دین کا لبادہ اوڑھے کوئی بدکردار بوڑھا۔ لہذا گناہ جہاں ہو اس کا دفاع نہ کیا جائے بلکہ اس کے خلاف اقدامات کیے جائیں۔ ایسے افراد کو مفتی، مولوی، مولانا استاد یا سر کہنا ہی میں مناسب نہیں سمجھتا یہ الفاظ نہیں مقامات ہیں اور یہ مقام کسی ایرے غیرے کو نصیب نہیں ہوسکتے لہذا ایسا ہرگز نہ سوچیں کہ یہ دین و تعلیم کے خلاف سازش ہے۔ ایسے افراد اگر دینی یا سماجی تنظیموں سے تعلق اختیار کریں تو ان تنظیموں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہماری شان پر ایسوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا لہذا ان کو نکال باہر پھینکے بلکہ خود ان کے خلاف کارروائی کرائیں۔

نہ تو ہر بار بات یہودیوں کی سازش ہے اور نہ سیکولروں کی ہمیں بدنام کرنے کی کوشش۔ ہمارے اپنے بیچ ہی کچھ لوگ شرافت کا لبادہ اوڑھے اسلام، پاکستان، اسکول، مدارس، تعلیم یا کسی اور شعبے کو بدنام کرنے کی کوشش کے لئے موجود ہوتے ہیں ہمیں اب ان لوگوں کو پہچاننا ہوگا۔ انہیں روکنا ہوگا ان کے خلاف بولنا ہوگا اور ان کا دفاع کرنے والوں کے خلاف بھی عملی کام کرنا ہوگا۔ مدارس بھی ہمارے، علما بھی ہمارے، اسکول بھی ہمارے اساتذہ بھی ہمارے یہ نظام بھی ہمارا تو کیوں نہ یہ عزم کر لیا جائے کہ جہاں برائی ہو مل کر اس کے خلاف کام کیا جائے گا اسے روکا جائے گا کیا ایسا کرنے سے ہی ہم اچھے اور سچے مسلمان نہیں بنیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments