آخر بچے اور مُردے منی اسکرٹ پہننا کب بند کریں گے؟


اب میں بار بار کیا دہراؤں کہ ہمارے ذہین و فطین وزیراعظم اور قابل ترین حکومت ہر بار کچھ ایسا بیان دیتی ہے کہ ہم جو پچھلے بیان یا پالیسی کے صدمے سے باہر نہیں نکلے ہوتے دوبارہ دل پکڑ کر رہ جاتے ہیں۔ ابھی ہم والدین کو ان کی ظالم اولاد کے ساتھ زبردستی نتھی کرنے والے بل اور سائنس اور صوفی ازم کے درمیان غائبانہ تعلق کی تک بندی سوچ ہی رہے تھے کہ حاکم وقت نے ایک اور بم پھوڑ دیا۔

ویسے کبھی بچپن میں پڑھا تھا کہ ایک اعلیٰ دماغ نظریات پر بات کرتا ہے، ایک درمیانی ذہانت کا دماغ واقعات پر جبکہ ایک سطحی دماغ مرد اور عورت کے بارے میں گفتگو سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ مرحوم دانشور اگر آج ہمارے معاشرے میں سانس لیتے تو یقیناً انھیں چوتھی کیٹیگری بھی مل جاتی جس کی گفتگو زنانہ مسائل اور لباس سے آگے نہیں بڑھتی۔

خیر۔ اب بات یہ ہے کہ وزیراعظم کے فرمان کے مطابق جنسی زیادتیوں اور ہراساں کرنے کا اصل محرک منی اسکرٹس اور چھوٹا لباس ہیں تو چونکہ جنسی زیادتی کے زیادہ تر واقعات آج کل مدارس میں ہی پیش آرہے ہیں اس لئے پہلے ہم ان کا ہی سدباب کریں گے۔ اس کے لئے بجائے ریپسٹ کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے ہمیں مدرسوں میں ریپ ہونے والے بچوں کے والدین سے سوال کرنا چاہیے جنھوں نے بچوں کو چھوٹے کپڑے پہنا کر ریپسٹ کو اتنا مجبور کر دیا کہ سوائے ریپ کرنے کے ان بیچاروں کے پاس کوئی چارہ نا بچا۔

اور جہاں تک اس مسئلے کو حل کرنے کی بات ہے تو اس کے لئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ والدین اپنے بچوں خاص طور پر مدرسے جانے والے نر بچوں کو منی اسکرٹ میں نا بھیجا کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے مردے دفناتے ہوئے بھی کفن کی لمبائی پوری رکھیں تاکہ معصوم بلاتکاریوں کو نعشوں کے ساتھ بدفعلی کرنے پر مجبور نا ہونا پڑے کیونکہ اب کوئی منی اسکرٹ پہنے گا تو اس کا اثر تو ہوگا ہی نا۔ مردے کا ریپ کرنے والا بھی تو آخر مرد ہی ہے کوئی روبوٹ تو نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments