ریپ کو عورت کے لباس سے جوڑنا حماقت کے سوا کچھ نہیں


اگر کسی جگہ پر کوئی حادثہ ہوتا ہے تو دیکھنے والے یا جائے حادثہ پر پہنچنے والے سب سے پہلے اس حادثے کی وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں۔ اندازہ لگاتے ہیں کہ غلطی کس کی تھی تا کہ وہ غلطی دہرائی نہ جائے اور اس قسم کا حادثہ دوبارہ نہ ہو۔ مثلاً ایک ڈرائیور اگر مقررہ حد سے بہت زیادہ رفتار پر گاڑی چلا رہا ہو اور گاڑی بے قابو ہو کر سڑک سے اتر کر کنارے لگے درختوں سے ٹکرا جائے تو معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا انسان بھی اسے ڈرائیور کی غلطی قرار دے گا۔ لیکن اگر کوئی نام نہاد دانشور یہ نتیجہ نکالے کہ سڑک کے کنارے درختوں کی موجودگی حادثے کا سبب ہے حادثات سے بچنا ہے تو سڑک کنارے لگے سب درختوں کو کاٹ دینا چاہیے تو اہل دانش و بینش کو اس دانشور کی دماغی صحت پر شبہ ہونا لازم ہے۔ ممکن ہے اس کے بعد وہ اس کی کسی بات پر توجہ نہ دیں۔

آپ لاکھ کہیں کہ ہم عورتوں کا بہت احترام کرتے ہیں لیکن دنیا محض آپ کے کہنے پر یہ بات نہیں مانے گی۔ دنیا کی اپنی نظر ہے وہ آپ کے انداز و اطوار اور افعال وا عمال دیکھ کر خود فیصلہ کرے گی کہ آپ عورت کو انسان بھی سمجھتے ہیں یا نہیں۔ دنیا میں کہیں پر کسی ایک اقلیت پر ظلم کے خلاف آپ پرجوش تقریریں کریں اور خود کسی اقلیت پر عرصہ حیات تنگ کر دیں تو دنیا آپ کی بات کو کتنی اہمیت دے گی؟

آپ غیرت مند ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں مگر یہ غیرت خاص خاص مواقع پر ہی جاگتی ہے جیسے ڈالرز کی بھیک مانگتے ہوئے، دودھ میں پانی ملاتے ہوئے، جان بچانے والی ادویات تک میں ملاوٹ کرتے ہوئے، ناجائز قبضے کرتے ہوئے، قومی دولت لوٹتے ہوئے، رشوت لیتے ہوئے، ذخیرہ اندوزی کرتے ہوئے، جھوٹ بولتے ہوئے، دھوکا دیتے ہوئے، کالے دھندے کرتے ہوئے تو یہ غیرت سستا نشہ کر کے سوئی رہتی ہے لیکن اگر کوئی لڑکی آزادی اظہار کی بات کرے، اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کی خواہش کرے، صنفی امتیاز کی نشاندہی کرے، پسند کی شادی کی بات کرے، اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرے تو اچانک وہی غیرت خونی جلاد بن کر سامنے آتی ہے۔ اسی لیے کبھی کسی لڑکی کا دوپٹا ہی اس کے لیے موت کا پھندا بنتا ہے تو کسی کو گولیوں سے چھلنی کر دیا جاتا ہے۔ کسی کی لاش دریا کے پانیوں سے ملتی ہے تو کسی کو زندہ جلا کر راکھ کر دیا جاتا ہے۔

افسوس کہ بات یہاں تک آ کر ختم نہیں ہوتی۔ وہ عورت جسے نہ تعلیم کے برابر مواقع حاصل ہیں نہ روزگار کے، وہ ہر لمحہ جان اور آن کے شدید خطرات میں گھری رہتی ہے۔ خواہ اس کی عمر چند ماہ ہو یا اسی برس کی، اس نے شٹل کاک برقعہ پہنا ہو یا جینز، وہ گھر میں ہو یا گھر سے باہر، حتیٰ کہ وہ زندہ ہو یا مردہ ہو۔ اس کے باوجود وہ ریپ کا شکار بن جاتی ہے۔ کیا یہی انسانیت ہے کہ کمزور صنف کا ہر طرح استحصال کیا جائے۔

معاشرے میں موجود ہر برائی اور ہر مصیبت کی وجہ آپ عورت کو قرار دیتے ہیں۔ زلزلے بھی اسی کی وجہ سے آتے ہیں، سیلاب بھی اسی کی وجہ سے آتے ہیں، وبائیں بھی اسی کی وجہ پھوٹتی ہیں، جی لڑکیاں بہت بے حیا ہو گئیں ہیں اس لیے یہ سب ہو رہا ہے۔ اور آپ خود چاہے سر عام کسی بھی جگہ آزار بند کھول کے بیٹھ جائیں، غلیظ ترین گالیاں بکیں، اندھی ڈولفن کو چھوڑیں نہ بلی کے بچے کو، قبروں سے لاشیں نکال کر ان کا ریپ کریں حتیٰ کہ اپنے ہم جنسوں کو بھی نہ چھوڑیں مگر نہ زلزلے آئیں گے نہ وبائیں پھوٹیں گی۔

حد تو یہ ہے کہ اس کی ذمہ داری بھی آپ عورت پر ہی ڈال دیں۔ ایک جملہ ہی کافی ہے کہ عورتیں مختصر کپڑے پہنیں گی تو مردوں پر اس کا اثر تو ہو گا۔ یعنی عورت کو مختصر کپڑوں میں دیکھ کر مرد اپنے جذبات پر قابو نہیں پا سکیں گے اور ان کے سامنے جو بھی چیز نظر آئے گی اس کا ریپ کر ڈالیں گے۔ اول تو یہ انتہائی بے سر و پا بات ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ بے حد غیر ذمہ درانہ بات ہے۔ عورت کی کم لباسی کسی کے لیے ریپ کا لائسنس نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے مرد کی نیم عریانی عورت کے لیے اس پر اختیار کا جواز نہیں ہے۔

ریپسٹ اپنی طاقت کا مظاہرہ اور وکٹم کی بے بسی سے تسکین حاصل کرتا ہے۔ اس کا تعلق عورت کے لباس سے جوڑنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ دنیا کے بہت سے ملکوں میں عورتیں انتہائی مختصر کپڑے پہننے کے باوجود زیادہ محفوظ ہیں۔ بجائے اس کے کہ آپ ذہنی بیماروں کی جنسی فرسڑیشن کا علاج کریں اگر وکٹم بلیمنگ کریں گے اور عورت کو ہی فساد کی جڑ قرار دیں گے تو دنیا میں آپ کا کیا امیج بنے گا۔ آپ دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم ذہنی طور پر دیوالیہ ہو چکے ہیں، اخلاقیات کی پست ترین سطح پر آ چکے ہیں۔ انسانیت تو در کنار حیوانیت کی سطح سے بھی نیچے گر چکے ہیں۔ تو پھر ٹھیک ہے لیکن اگر آپ کا مدعا کچھ اور ہے تو براہ کرم آگاہ ضرور کیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments