نیازی صاحب کی بے نیازیاں


ابھی حالیہ دنوں میں خان صاحب نے ایک غیر ملکی ادارے کو ایک انٹرویو دیا جہاں انہوں نے معمول کے مطابق پھر بے نیازی کا مظاہرہ کیا اور اینکر نے جب ریپ سے متعلق سوال کیا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ :

” اگر ایک خاتون کم کپڑے پہنتی ہیں تو اس کا مردوں پر اثر ہو گا جب تک کہ وہ روبوٹ ناں ہوں اور یہ ایک عام عقل کی بات ہے۔“
اب اگر ان کے اسی بیان کا تجزیہ کیا جائے تو اس سے کئی پہلو نکلتے ہیں اور کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔

یہ تو ہم سبھی جانتے ہیں کہ ریپ کے واقعات میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے، اب ان کے اس بیان کے مطابق ہماری خواتین مکمل لباس زیب تن نہیں کرتیں اور وہی قصور وار ہیں اس عمل کی۔ یہاں انہوں نے ”وکٹم بلیمنگ“ کی ہے۔ اب دنیا کو سب سے پہلے تو یہ تاثر جاتا ہے کہ ایک ملک ایسا بھی ہے جہاں خواتین کا لباس ہی خود ریپ کی وجہ ہے جو کے نہایت افسوسناک بات ہے۔ پتہ نہیں انہوں نے پاکستان میں کہاں خواتین کو ایسے لباس پہنے دیکھا تھا۔

اب ان کی اسی بات کے مطابق قصور کی پانچ سالہ زینب نے کون سا ایسا لباس پہنا تھا، یا موٹروے پر اپنے بچوں کے ساتھ سفر کرنے والی خاتون نے، یا پھر جب مردہ خواتین کو قبر سے نکال کے ریپ کیا جاتا ہے انہوں نے ایسا کون سا لباس پہن کے کسی کی جنسی خواہشات کو ابھارا تھا یا ترغیب دی تھی۔ اور جو دیہی علاقوں میں ایسے واقعات پیش آتے ہیں وہاں کون سے ایسے لباس پہنے جاتے ہیں؟ اور جو بے زبان جانوروں کے ساتھ ریپ کے واقعات سامنے آتے ہیں۔

ابھی جو مولوی حضرات کے لڑکوں کے ساتھ ریپ کے واقعات منظر عام پر آئے اور جن کی ویڈیوز بھی انٹرنیٹ کی زینت بنیں، یا آئے روز مدرسوں میں یا دیگر جگہوں میں لڑکوں کے ساتھ ریپ کے واقعات ہوتے ہیں، انہوں نے ایسا کون سا لباس پہن کے ریپ کرنے والے مردوں کے جنسی جذبات مجروح کیے ہوتے ہیں اور وہ بیچارے مجبور ہو کر مسجد یا مدرسے میں ہی یہ ریپ کا مکروہ عمل کرتے ہیں۔

جب کہ خان صاحب کے بیان سے یہ تاثر بھی جاتا ہے کہ پاکستان کے مرد جنسی بے راہ روی کا شکار ہیں اور اگر کسی بھی ایسی خاتون کو دیکھ لیں جس کا ”لباس ٹھیک ناں ہو“ تو اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور وہ ایک ایسی مخلوق ہیں جو کہ اپنی جنسی خواہشات کے آگے بالکل بے بس ہیں اور جو مرد ایسا نہ کریں ان کے لیے انہوں نے ”روبوٹ“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یعنی جو مرد ریپ نہ کرے وہ ”روبوٹ“ ہے اور مرد کی جبلت میں ریپ کرنا شامل ہے۔ یعنی انہوں نے پاکستانی مردوں کو بھی اس بات پر بدنام کیا ہے۔ اب اگر ایسے میں کوئی انگریز یا غیر ملکی خاتون پاکستان آتی ہیں تو بھئی وہ اپنی ذمہ داری پر آئیں۔ ہمارے ملک میں مرد تو بہر حال مجبور ہیں۔

خان صاحب کے اس بیان کے مطابق ریاست ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے کچھ کرنے سے قاصر ہے کیوں کہ سارا قصور تو بہرحال خواتین کے لباس اور مردوں کے جذبات کا ہے۔

جب کہ ان کے اس بیان نے ریپ کرنے والوں کو بھی ایسا کرنے کا جواز دیا ہے اور ان کی نفسیات کی ترجمانی کی ہے کہ ان بیچاروں کے آگے حالات ہی ایسے بن جاتے ہیں تو وہ ریپ نہ کریں تو اور کیا کریں؟ اوپر سے ظلم یہ کہ ملک میں کوئی بار یا کلبز بھی نہیں جہاں جا کر وہ غریب اپنی فرسٹریشن ہی نکال آئیں۔

اب یہ بیان ایک ایسے انسان کی طرف سے آیا ہے جو خود آکسفورڈ گریجویٹ ہیں اور کہتے ہیں کہ میں مغرب کو بہتر جانتا ہوں۔

خان صاحب کے اس بیان کے مطابق ریاست ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے کچھ کرنے سے بھی قا صر ہے کیوں کہ سارا قصور تو بہرحال خواتین کے لباس اور مردوں کے جذبات کا ہے۔ جب کہ وہ لوگ تو پاگل ہیں جو ریپ کی وجوہات میں نفسیاتی پہلو، طاقت کا نشہ اور استعمال، غربت اور دیگر معاشی پہلو، اپنے آپ پر قابو نہ ہونا جیسے عوامل بیان کرتے ہیں۔ لیکن بہرحال خان صاحب نے تو ہم سے بہتر دنیا دیکھی ہوئی ہے شاید۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments